(شکور رافع)
قربانی کرنی چاہیے کہ یہ روایت قدیم ہے , عظیم ہے اور اپنے ان ”کمزور محسن“ جانوروں کا نصیب بھی!
مذبح خانے, چڑیا گھر اور پنجرہ سازی جب تک زندہ ہے ‘قربانی’ بھی زندہ ہے!
معیشت کے چارے پر وفاداری سہارے سب بیچارے بالآخر قربانی کی بھینٹ ہی چڑھتے ہیں
سنتے ہیں کہ یہ جانور عہد قدیم کی معیشت کا حسن تھے سو قربانی عزیز تر از جاں جانور کی ہوتی تھی
مگر اب ”قابل گرفت“ سب جانور”محبت“ نہیں ”صحت“ ہیں کہ ہم کیلوریز کو تولتے یا کانگو وائرس ٹٹولتے ہیں
جانوروں کی افزائش سے جوبن کی لہرتی آرائش تک کی سب آزمائش گاؤں کے لیچڑ کیچڑ رشتہ داروں کی ہے
میں تو اپنے ماضی یا مستقبل کی سلامتی کیلئے محض اک جانور قربان کرنا چاہتا ہوں
مجھے معلوم ہوا ہے کہ پڑدادا نے جو گائے دادا کو دی وہی نسل دادا نے ابا کو دی تھی
(وہی نسل مجھ تک بھی پہنچی مگر بچھڑے اسکا دودھ نچوڑتے بھنبوڑتے اب وحشی بیل بن چکے ہیں)
سو جانور خریدنے کی مشقت اور خاندانی طعنوں کی اذیت سے بچنے کو نحیف گائے گھر لے آیا ہوں
میرے گاؤں میں اب ویسے تھا بھی کیا
وہی اک پرانی بیگانی حویلی.. تین قبر نما بابے (یا بابا نما قبریں) اور ایک یہ مقدس مگر نحیف گائے!
جس کا جنم بھی مقدس تھا اور دودھ گوبر کا بٹوارہ بھی … دودھ پیا تھا جس کا سارے خاندان نے
مگر جوں جوں عید قرباں نزدیک آتی جا رہی ہے میرا غم بڑھتا جا رہا ہے
کہ آخر کار یہ گائے گرنے والی ہے اور چھری بس اس کی شہ رگ پر چھری پھرنے والی ہے
میرا اک پڑوسی جو خود گائے کی قربانی نہیں کرتا اسے دیکھ کے مسکراتا ہے
” اجی دیکھیں. گائے کی گردن تو سوجی ہوئی ہے . کسی بیماری سے گردن باہر تک غدودی ہے.. “
سوچتا ہوں کہ وہ سوجی ہوئی گردن پہ طعنہ زن ہے کٹی ہوئی ٹانگ پہ انگشت بہ دنداں کیوں نہیں
کہ اس باہمت خاندانی گائے کی کٹی ہوئی دائیں ٹانگ بھی اسکے تھنوں کے ”شیر“یں ابھار گرا نہ سکی ہے
عظام ایسی معذور گائے کی قربانی کو مستحسن نہیں کہتے مگر (دکھ تو یہی ہے) اور دکھتا بھی یہی ہے کہ
اسے اب کٹنا ہے… کئی حصوں میں بٹنا ہے..
اذیت یہ ہے کہ میں خود اپنی اس مقدس گائے کو قربان گاہ تک لے آیا ہوں
اور اب خود ہی افسردہ بھی ہوں کہ بچے پوچھتے ہیں
”اس عید قرباں پر بلوچی سجی مل سکے گی؟“