نعیم بیگ
آواز
حسین مجروح
حسین مجروح کے تازہ شعری مجموعے ’’ آواز ‘‘ کا ایک اجمالی جائزہ
سقراط نے کہیں کہا تھا کہ ’’اگر اس دنیا کے بعد کوئی اور دنیا ہے تو میری روح اسے دیکھنے کے لئے بے تاب ہے کیونکہ دریافت اور جستجو سے بڑھ کر کوئی اور مسرت نہیں ، اور اگر موت ابدی نیند کا نام ہے تو اس سے زیادہ سکون بخش نعمت اور کیا ہو سکتی ہے۔‘‘
لیکن یہاں حسین مجروح ابدی نیند سے کہیں زیادہ اس ابدی آواز کو اپنے شعری شعور میں بلند کرتے ہیں جوحیاتِ جاوداں کے روپ میں تہذیبی رشتوں کی دریافت اور انسانی شعور کے لئے آفاقی جستجو سے پیوست ہے۔
حسین مجروح کی یہی ’’ آواز ‘‘ انکے شعری اسلوب و معنویت کی آگہی کی تازہ دمّی سے مزیں ایک خوشگوار تجربہ ہے۔
مجموعہ کے ابتدا میں کوکتی ہوئی مدھر آواز قاری کو کس طرح اپنے سماجی و تہذیبی شعری شعور کی آگہی سے روشناس کراتی ہے اس کا اظہار ذرا ان کے اپنے الفاظ میں ہی سن لیجیئے ۔
’’ پہچانا ! یہ میں ہوں حسین مجروح، ہنر کی حرمت کا طلب گار، آپ کے لطف کا امیدوار۔
یادش بخیر ’’کشید ‘‘ کو روشنائی کا پیرہن کرتے سمے آپ سے کچھ گفتگو رہی تھی، یہی کوئی چودہ برس پہلے، آپ سے کیا پردہ مشرقی شعریات کو چودہ کا سِن بہت لبھاتا ہے، اور اس اتفاق کو اشتیاق کی کس پوٹلی میں باندھیے گا کہ ’’ کشید‘‘ کو آواز ہونے میں بھی یہی عرصہ لگا۔ پلٹ کر دیکھتا ہوں کہ سخن کی بے توفیقی سے چہرا دھواں ہوتا ہے، کبھی آنکھ بے آب ، خود کو ملامت کرتا ہوں کہ اس بے اعتباری کے آئنہ خانہ میں حاضری کی کیا ضرورت تھی، پلکوں میں سوئیاں کچھ دیر اور چھبی رہتیں ، کلیجے میں لہو مزید جمنے دیا ہوتا، ایسا بھی نہیں کہ یہ دلاری دودھ کے دانت جھڑتے ہی مایوں بیٹھا دی گئی ہو لیکن طبیعت کی تمازت کا کیا کروں جو پتھر کے برادے میں بھی کنول تلاشنے کی مدعی ہے۔‘‘
اب آپ دیکھ لیجیئے کہ حسین مجروح کا ادبی و علمی و فکری شعورکس قدر الہامی طور پر انسانی اعمال کا پوری طرح جائزہ لیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آج کی جگمگاتی زندگی کی حقیقت کے پیچھے سچائی کا مخفی پہلو کون سا ہے؟
یہیں سے انکے مجموعے کی پہلی آواز مدھر موسیقی کی طرح انسانی کانوں میں رس گھولتی ہے اور الفاظ حرمت کے ان جاوِداں لمحات میں ساکت ہو جاتے ہیں ۔
نیند کی ٹہنی پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے خواب کہاں پھلتے ہیں
اکثر خواب تو
کچی نیند کی ٹہنی پر ہی مر جاتے ہیں
باقی ماندہ
تعبیروں کے پھانسی گھاٹ
اتر جاتے ہیں۔
تھوڑے سے جو بچ رہتے ہیں
دنیا کی ناشکری آنکھ میں
تازہ جگنو بھر جاتے ہیں
لیکن دنیا،
پیتل پر سونے کا رنگ چڑھاتی دنیا!!
خوابوں سے گھبرا جاتی ہے
جگنو بیچ کے کھا جاتی ہے۔
انکے اسی مجموعے کی ایک اور نظم دیکھیئے۔
خوابمیں دیکھا ہوا دن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( گوہر کے نام )
کاش ایسا ہو
کبھی رات کو جلدی سوئیں
صبح اٹھیں
تو زمین پر
کسی موہوم بشارت کی طرح
اک نیا دن ہو
جسے خوف نہ ہو مرنے کا
جس کی چاہت بھری کرنوں کی سُپرداری میں
فاختاؤں کو کوئی ڈر نہ رہے، ڈرنے کا
جس کی خوشبوئی ہوئی آنکھوں کے نذرانے میں
گھر کھُلے چھوڑ کے جائیں میرے جانے والے
جز محبت نہ خریداری ہو بازاروں میں
دھوپ مامور ہو خود اپنی نگرانی پر
جبکہ تنہائی حفاظت پر ہو سنّاٹے کی
خواب ، امید کی توفیق سے بڑھ سکتا ہے
اور نیا دن تو کسی وقت بھی چڑھ سکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرزاغالب نے اپنی ایک غزل میں کہا۔۔۔۔
’’دل کو نیازِ حسرت دیدار کر چکے
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار ہی نہیں
ملنا ترا اگر نہیں آسان تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں‘‘
اب دیکھیئے حسین مجروح خود کیا کہتے ہیں
’’ جبر و قدر کے کھٹ راگ سے قطع نظر، شاعری کھنڈر کی دیوار نہیں ہوتی کہ فقط گر پڑنے کے خوف سے منظر ہو کر رہ جائے، اسے تو پوری زندگی سے معاملہ ہوتا ہے یعنی وہ جسے ہم بسر کرتے ہیں اور وہ جو ہمیں گذارتی ہے۔ وقت اور کائنات کی تقویم تو شاعری کا اسمِ آعظم ہے ۔۔۔۔‘‘
یوں تو حسین مجروح کی ’’آواز‘‘ کی گونج پورے مجموعہ میں بازگشت کے طرح بار بار آکر قاری کے کانوں سےمانوس سی سرگوشیاں کرتی ہے اور اصرار کرتی ہے کہ جن نئے احساسات و تحیرات کے بیان کو شعری کاوش کے روپ میں ڈھالا گیا ہے اس کی جستجو اور دریافت ہی انسانی شعور کا پہلا قدم ہے ۔
حسین مجروح ایک بڑا شاعر ہے جو فرسودہ ، استعمال شدہ ’’ کلیشے‘‘ سے اپنے آپ کو بچاتا ہے اور اپنے فکر و خیال ، لفظوں کے حسنِ جمال ، بچھڑنے کے ملال اور کہکشاؤں کے جلال میں بھی سچ کی کسوٹی کا منظر نامہ پیش کرتا ہے۔
میں بھلا کس طرح حسین مجروح کی آواز کی اس گُنگناہٹ و غنائیت جو پوری طرح آس و زندگی سے لبریز ہے، رد کردوں کہ وہ صدیوں سے گونجتی ہوئی کھنکتی آوازوں کے سحر سے آشنا ہے اور کائنات میں پھیلی ہوئی مسحور کن جمالیاتی لطافت کا بھی جائزہ لیتا ہے ۔
’’جز محبت نہ خریداری ہو بازاروں میں
دھوپ مامور ہو خود اپنی نگرانی پر
جبکہ تنہائی حفاظت پر ہو سنّاٹے کی
خواب ، امید کی توفیق سے بڑھ سکتا ہے
اور نیا دن تو کسی وقت بھی چڑھ سکتا ہے‘‘
انسانی خمیر میں گندھا ہوا رومانوی اور جمالیاتی رنگ حسین مجروح کے مصرعوں کی شان بن جاتا ہے اور امید و آس کا ایسا منظر نامہ کھولتا ہے جہاں روشنی جگمگاتی ہوئی آپ کو نئے احساس سے روشناس کرتی ہے۔ ’خواب میں دیکھا ہوا دن‘ اسی احساس کا نام ہے۔
علامتوں سے سجی اس آواز میں کئی ایک دیگر آوازیں بھی اس جلترنگ میں شامل ہیں۔ انکی ایک نظم حُسن انتظام کا تیر میں حسین مجروح ایک نئے زاویے سے علامت کا استعمال کرتے ہیں۔
حسنِ انتظام کا تیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ایک بار صفِ دلبراں سے چُھوٹا ہے
بنام چارہ گری، خُوئے انتقام کا تیر
پھر ایک بار ہوئی ہے قبائے خواب، کفن
پھر ایک چلا حسنِ انتظام کا تیر
کہا گیا ہے کہ بیمار کی شفا کے لئے
بدن کی شاخ سے، سر کاٹنا ضروری ہے
تنِ سوال طلب ، بے کسوں کی آہوں سے
برہنہ غم کی طرح ڈھانپنا ضروری ہے
بیاں ہوا ہے یہ نسخہٗ شفا جس کو
صلائے بے خبری، بے مراد کہتی ہے
ہمارے واسطے وجہ نجات ہے گرچہ
نشہ ہے نیند سا اور موت اس میں رہتی ہے
یہ تیر چاری گری، اعتبار کا قاتل
ہوس میں ڈوبا ہوا ، زہر میں بھجایا ہوا
دلوں کے بیچ لہو کر خلیجنے والا
یہ تیر لگتا ہے پہلے بھی دل پہ کھایا ہوا
…………….
علامہ نیاز فتح پوری کہیں لکھتے ہیں۔ ’’ دنیا اب اخلاق کے مواعظ سے تنگ آ چکی ہے اور اب اسے حقائق کی ضرورت ہے وہ پریوں اور فرشتوں کے تذکرہ سے گھبرا چکی ہے، اب وہ گوشت پوست کے انسانوں کی بات کرنا چاہتی ہے اور زندگی کے حسن کو بھی دیکھنا چاہتی ہے۔‘‘
میں اس نظم کو پڑھتے ہوئے ایک ایسے سحر میں گرفتار ہوا جہاں سے مجھے اسکی بالائی سطح پر نظمیہ لطافت کا گہرا احساس اور زیریں سطح پر دکھوں کی انگنت کہانیاں منکشف ہوئیں۔۔۔
فکری افق پر نئے ، پیچیدہ سوالات کا انبوہ اور ملکی سطح پر عطا کردہ محرومیاں اس نظم کا باطنی پیغام ہیں۔
حسین مجروح کا ادبی قد کسی بھی بلند پایہ شاعر کے ہم پلہ ہونے کے ناتے اپنے قارئین کو ادبی و فکری سطح پر گہری نظر کے ساتھ ملکی سماجی ومعروضی حالات کو دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں
اس نظم کو پڑھتے ہوئے قاری کو یہ دیکھنا ہوگا کہ حسین مجروح کا مخاطب کون ہے؟
بظاہر ’’صفِ دلبراں‘‘ کی ترکیب اس سماجی المیہ کو منکشف کرتی ہے جہاں انسان اپنے سماج میں پوری ثقافت کے ساتھ رہتے ہوئے بھی تنہائی محسوس کرتا ہے ۔ وہی بات جو ن ۔ م۔ راشد کہتے تھے کہ ہماری تہذیب کا لبادہ اتنا بوسیدہ ہو چکا ہے کہ اسے کسی میوریم کے سپرد کر دینا چاہیئے۔
خود حسین مجروح ’’آواز‘‘ کے دیپاچہ میں لکھتے ہیں کہ ’’اُدھر موسموں کی عداوت اور خیال کی گھلاوٹ نے بھی وضع دار سوکنوں کی طرح ایک ہی چھت تلے بسرام کی کو ڈالی۔۔۔‘‘ یہی خیال اس نظم کی روح ہے ۔
حسین مجروح کی شاعری ، نظمیں ، غزلیات سیاسی و سماجی شعور کے کسی فارمولے میں مقید نہیں، جہاں وہ ماضی کی تہذیبی ، لسانی اور ادبی ورثہ سے آگاہ ہیں وہیں مستقبل کا انسان ان کی شعری جستجو کے امکانات کو جذب کرتا ہے اور اپنے لسانی لب و لہجہ اور سماجی تشکیل پر غور کرتا ہے۔ مجھے ان کے ہاں لفظوں کی تراکیب ، مصروں کی ساخت، اظہار کا نیا پن اور علامتوں کی نئی تشریحات کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ ملتا ہے۔ انکی تازہ کاوش ’’ آواز ‘‘ کے لئے بہت سی نیک تمنائیں۔