(نجیب ایوبی)
پاکستان خدا کا دیا ہوا شاید دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جس کو جتنا چاہو لوٹو ، کھاؤ ، مال بناؤ ، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے –
زندگی کا کونسا شعبہ ایسا ہے جہاں ھڈ حراموں ، لٹیروں اور نوسر بازوں نے اپنے پنجے نہیں گاڑے ؟ مذہبی امور کی وزارت تک میں پیسے بنانے والے ناہنجار وزیر تو معمولی آدمی ہے جس نے اربوں کا غبن کیا ، حد تو یہ کہ ایک سا بق وزیر اعظم تو غیر ملکی صدر کی اہلیہ کی جانب سے متاثرین کی امداد کے لئے دیا جانے والا ” قیمتی ہار ” قومی خز انے سے نکال کر اپنی بیگم کے گلے میں باپ کا مال سمجھ کر پہنا چکے تھے –
پاکستان میں اب جو وبا چل نکلی ہے وہ انتہائی تشویشناک ہوچکی ہے – یہ وبا ہے کا ” وقت کا بھروسہ نہیں – جتنی جلد مال بنا سکتے ہو بنالو ”
چناچہ اس وبا کی لپیٹ میں پورا ملک آچکا ہے –
اس وبائی بیماری کا تازہ ترین حملہ محکمہ تعلیم اور صحت کے شعبے پر ہوا ہے – ان دونوں شعبوں کی صورتحال پہلے ہی برباد تھی جان بچانے والی متعدی بیماریوں سے بچاؤ کی دو ہزار سے زیادہ ادویات کی قیمتوں میں اچانک سے اضافہ کردیا گیا ہے –
جا معہ کراچی کی تعلیم دشمن انتظامیہ نے اس سیمسٹر کی فیس میں اچانک 70فیصد سے لیکر 80 فیصد تک کا اضافہ کردیا ہے –
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طالبعلم نے پچھلے سمسٹر میں 8 ہزار فیس دی تھی اس مرتبہ 12 ہزار فیس بھرنی پڑے گی – اور ایسے والدین جن کے دو یا تین بچے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کے لئے یہ اضافہ قیامت سے کم نہیں ہوگا –
دنیا بھر میں تعلیمی فیسوں میں اضافے کی شرح ایک سال پہلے سے معلوم ہوتی ہے اور والدین یا سرپرستوں کو پیشگی اندازہ ہوتا ہے کہ ڈگری مکمل کرنے تک کتنی رقم تعلیمی اخراجات کی مد میں خرچ ہوگی – مگر بدقسمتی سے ہم پاکستان میں رہتے ہیں جہاں ان اداروں کے کرتا دھرتاؤ ں کا بس چلے تو روزانہ یا ہفتہ وار بنیادوں پر فیس میں اضافہ کرنا شروع کردیں –
پاکستان کا تعلیمی نظام اور شعبہ مکمل طور پر تضادات کا شکار ہے – پرائویٹ تعلیمی اداروں کا معاملہ ساہوکاری اور بنیاگیری بن چکا ہے جو دونوں ہاتھوں سے اپنا منافع سمیٹ رہا ہے – دوسسری طرف حکومت کے زیر انتظام محکمہ تعلیم ہے جس نے ہر سمیسٹر می ہوشربا اضافے کو اپنا معمول بنا لیا ہے – ان دونوں طبقوں کی چکی کے درمیان پسنے والا طبقہ ” عوام ” ہے –
پنجاب حکومت کی حد تک تو یہ بات سامنے آئ تھی کہ نجی شعبہ من مانی کرتے ہوئے فیس میں اضافہ نہیں کرسکتا – اور اگر اضافہ ہوگا بھی تو وہ پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہوسکتا – مگر سندھ اور وفاق کے زیر انتظام چلنے والے یا خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے حوالے سے ایسی کوئی پالیسی سامنے نہیں آرہی – بلکہ اس کے الرغم تقریبا تمام ہی اداروں نے فیس میں اضافے کی شرح ناقابل یقین حد تک بڑھا دی ہے –
پاکستان میں تعلیمی شعبے کے علاوہ بھی ہر جگہ یہی مسئلہ ہے کہ ہر شعبہ بے لگام منافع خوری کی طرف مائل ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سرکاری سطح پر تعلیم کے شعبے کو اہمیت دی جاتی کیونکہ یہ شعبہ معاشرتی ارتقاء میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے-
دنیابھر میں اکثر ممالک میں ریاست اس شعبے کو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے یا تعلیمی اداروں کو غیر منافع بخش تنظیموں کے تحت چلانے پر زور دیتی ہے۔ مگر پاکستان چونکہ وڈیروں نوسر بازوں اچکوں کے ہاتھ میں گروی رخ دیا گیا ہے لہٰذا اس شعبے کا بھی وہی حشر ہے جو دوسرے تمام محکموں کا ہے –
ان جاہل حکمرانوں کو کون سمجھاۓ کہ عالمی سطح پر جدید تہذیب اور چارٹرکے تحت تعلیم کو بنیادی شہری حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے ۔
تمام ترقی یافتہ ممالک میں ریاستیں شہریوں کو تعلیم فراہم کرنے کا اہتمام کرتی ہیں اور ان کی فیس یا تو حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے یا پھر انتہائی ارزاں قیمت پر ، جس پر کل وقتی چک اینڈ بیلنس کا ایک مربوط نظام ہوتا ہے جو تعلیمی معیار کا گاہے بگا ئے جائزہ بھی لیتا رہتا ہے یورپ اور دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک میں معیاری تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے۔ امریکہ میں ہائی سکول (بارہویں کلاس تک) تک نہ صرف مفت تعلیم دی جاتی ہے بلکہ کتابیں بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ امریکہ میں اعلیٰ تعلیم بہت مہنگی ہے لیکن اس کے لئے ریاستی ضمانت پر مالی ادارے قرض فراہم کرتے ہیں۔ امریکہ میں اعلیٰ ٰتعلیم کا بہت زیادہ مہنگا ہونا بہت بڑا سیاسی مسئلہ ہے۔ اس سال ہونے والے صدارتی انتخاب کے لئے ڈیموکریٹک امیدوار برنی سینڈرز نے اسی نعرے کو بنیاد بنایا ہے کہ بہت سے یورپی ممالک کی طرح امریکہ میں بھی سرکاری یونیورسٹیاں مفت تعلیم فراہم کریں۔ اسی بنا پر برنی سینڈرز ملک کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بیس پچیس سال پہلے جو قدر و قیمت ہائی ا سکول کی ڈگری کی تھی وہ اب کالج کی ہے۔ اس لئے اعلیٰ تعلیم کی مفت فراہمی بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
دنیا میں چین اور جنوبی کوریا کی طرح کے ممالک نے معاشی ترقی حاصل کرنے کے لئے تعلیم کے شعبے میں بہت زیادہ ریاستی سرمایہ کاری کی۔ ان ممالک میں تعلیم کو عام کرکے آبادی کو نئے طرز پیداوار کے لئے تیار کیا۔ اگرچہ ان ممالک میں صرف تعلیم ہی نہیں دی گئی بلکہ زرعی اصلاحات کے ساتھ ساتھ دوسری بہت سی سماجی تبدیلیاں بھی کی گئیں۔ یہ نکتہ اس لئے اہم ہے کہ بہت سے عرب ممالک میں شرح خواندگی سو فیصد ہے لیکن آبادی نہ توجدید دور کی روشن خیالی کو اپنا سکی ہے اور نہ ہی پیداواری عمل میں آگے بڑھ سکی ہے۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تعلیم معاشی اور سماجی ترقی کے لئے لازمی ہے لیکن کافی نہیں ہے۔ بہت سے ممالک میں خود معاشی ترقی تعلیم کے پہیے کو آگے دھکیل رہی ہے۔
پاکستان کے ان علاقوں میں جہاں جاگیرداری طرز پیداوار اور کلچر ابھی تک قائم ہے تعلیم کو معاشرتی ترجیحات میں سب سے نچلا درجہ دیا جاتا ہے۔ مگر اب تو یہ جاگیرداری کلچر شہروں اور پڑھے لکھے علاقوں تک میں سرایت کرچکا ہے کیونکہ وزارتوں اور شعبے کے سربراہان تک وڈیرے اور ان کے تنخوا ہ دار ہیں – اگر حکومت سنجیدہ ہو تو ۔ اان علاقوں میں تعلیم عام کردیتی ، مگر اصل سوال حکمرانوں کی سنجیدگی کا ہی تو ہے – وہ جانتے ہیں کہ اگر تعلیم عام اور سستی کردی جائے تو جاگیرداری کلچر اپنی موت آپ مر جائے گا
پاکستان کے ان علاقوںمیں جہاں جاگیرداری اور قبائلی نظام تقریباً ختم ہو چکا ہے ان علاقوں میں تعلیم سماجی ترجیحات میں اولین حیثیت رکھتی تھی ۔ لیکن ان علاقوں میں بھی ریاست عوام کی تعلیم کی طلب کو پوری نہیں کر سکی۔ جہاں جہاں تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ بھی ہوا ہے اعلیٰ معیار کی تعلیم مفقود ہے۔ بلکہالٹا یہ ہوا کہ ریاست کے فراہم کردہ تعلیمی معیار میں خطرناک حد تک زوال آیا ۔ پھر اس اس خلا کو نجی تعلیمی اداروں نے پُر کرنے کی کوشش کی ۔ اور اس خدمت کے عوض نجی تعلیمی اداروں نے مہنگا ئی کی وہ گند مچائی کہ الامان !
اب صرف خوشحال طبقات ہی اپنے بچوں کو ان تعلیمی اداروں میں بھیج سکتے ہیں۔ یعنی تعلیم کا نظام بنیادی طور پر طبقاتی بن چکا ہے۔ پاکستان ان چند ملکوں میں سے ہے جہاں عوام اور خواص کی تعلیم کے بالکل علیحدہ علیحدہ ادارے ہیں۔ اس طرح کے طرز تعلیم سے طبقاتی خلیج اور بھی گہری ہو رہی ہے۔
اور جو خالصتا عوام کے ادارے تھے وہاں بھی ستر اور اسی فیصد تک کا اضافہ کردیا گیا ہے
دنیا میں کیا ہورہا ہے ایک نظر اس پر بھی ڈالیں – جرمنی کو دیکھیں
یہاں کا تعلیمی منظرنامہ یہ ہے کہ جرمنی بین الاقوامی سطح پر معروف اور درجہ بندی رکھنے والی یونیورسٹیوں پر مشتمل ہے، ان میں سے کچھ کو خصوصی فنڈز بھی حاصل ہوتے ہیں، اس لیے کہ حکومت ان کو بہترین ادارے سمجھتی ہے۔اب اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ آپ جرمنی سے گریجویشن یا انڈرگریجویٹ کی ڈگری، جرمنی زبان کا ایک لفظ ادا کیے بغیر اور ٹیوشن فیس کی مد میں ایک ڈالر ادا کیے بغیر حاصل کرسکتے ہیں۔
خاص طور پر انگریزی زبان میں انجینئرنگ سے لے کر سوشل سائنس تک کے کورسز کے ساتھ تقریباً 900 انڈرگریجویٹ یا گریجویٹ کی ڈگریاں پیش کی جاتی ہیں۔ کچھ جرمن ڈگریوں کے لیے آپ کو باضابطہ طور پر درخواست دینے تک کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر آپ جرمنی کے اعلٰی تعلیمی نظام میں طالبعلم کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں تو جرمنی کی حکومت بہت خوش ہوگی، انگریزی زبان میں بڑی تعداد میں ڈگری کی پیشکش کا ارادہ ہے، تاکہ جرمن طالبعلموں کو غیرملکی زبان میں بات چیت کے لیے تیار کیا جائے۔ اس لیے کہ اس ملک کو بہت زیادہ ہنرمند کارکنوں کی ضرورت ہے۔
شمالی یورپ کے ملک فن لینڈ میں کوئی ٹیوشن فیس نہیں لی جاتی، اور یہاں انگریزی زبان میں یونیورسٹی پروگراموں کی بڑی تعداد کی پیشکش موجود ہے تاہم فن لینڈ کی حکومت دلچسپی رکھنے والے غیرملکیوں کو خوش مزاجی کے ساتھ یہ بات یاد دلاتی ہے کہ وہ اپنی رہائش کے روزانہ اخراجات کو خود پورا کریں گے، دوسرے الفاظ میں فن لینڈ آپ کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرے گا لیکن آپ کے طعام و قیام کا نہیں۔
فرانس میں انگریزی زبان کے کم از کم 76 انڈرگریجویٹ پروگرام ہیں۔ لیکن زیادہ تر کی پیشکش نجی یونیورسٹیوں کی جانب سے کی گئی ہے اور وہ خاصے مہنگے ہیں، تاہم بڑی تعداد میں گریجویٹ سطح کے کورسز انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے لیے تیار کیے جارہے ہیں اور ہر تین میں سے ایک فرنچ ڈاکٹریل ڈگری کسی غیرملکی طالبعلم کو دی جاتی ہے، سرکاری یونیورسٹی کے پروگراموں میں سے زیادہ تر پروگراموں کے لیے نہایت مختصر ٹیوشن فیس یعنی تقریباً 200 امریکی ڈالرز وصول کیے جاتے ہیں۔
سوئیڈن اسکینڈے نیوین ملکوں میں سے یہ دنیا کا دولت مند ترین ملک ہے اور یہاں کے خوبصورت قدرتی مناظر اس کی انفرادیت ہیں۔یہاں بھی دنیا کی سب سے قیمتی کالج کی ڈگریاں پیش کی جاتی ہیں۔ یہاں پینتیس یونیورسٹیوں میں 900 سے زیادہ پروگرام انگریزی میں سکھائے جاتے ہیں۔ تاہم یہاں صرف پی ایچ ڈی کی ڈگری کی سطح کی تعلیم مفت میں دی جاتی ہے۔
ناروے کی یونیورسٹیاں بین الاقوامی طالبعلموں سے ٹیوشن فیس وصول نہیں کرتیں، یہاں کا اعلیٰ تعلیم کا نظام امریکی تعلیمی نظام کی طرز کا ہے، جہاں کلاس میں طالبعلموں کی تعداد مختصر اور پروفیسر تک ہر ایک طالبعلم کی رسائی آسان ہوتی ہے۔لیکن ناروے میں آپ رقم بچانے کی توقع نہیں کرسکتے، اس لیے کہ یہ دنیا کے سب سے زیادہ مہنگے ملکوں میں سے ایک ہے۔یہاں تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ بہت سوچ بچار کے بعد کیا جائے، اس لیے کہ اس ملک کے زیادہ تر حصوں میں موسمِ سرما انتہائی شدید ہوتا ہے۔
سلوانیہ تقریباً 150 پروگرامز انگریزی میں دستیاب ہیں، اور غیرملکی شہریوں کو صرف داخلے کے وقت رجسٹریشن فیس کی مد میں معمولی سی رقم ادا کرنی پڑتی ہے، سلوانیہ کی سرحد اٹلی اور کروشیا سے ملحق ہے، جو یورپ کے سب سے زیادہ مشہور سیاحتی مقامات ہیں۔تاہم سلوانیہ کی کسی ایک یونیورسٹی کو عالمی رینکنگ کی فہرست میں جگہ نہیں مل سکی ہے۔
برازیل میں کچھ کورسز انگریزی زبان میں سکھائے جاتے ہیں اور سرکاری یونیورسٹیاں صرف معمولی رجسٹریشن فیس وصول کرتی ہیں۔ساؤ پالو یونیورسٹی اور کیمپیناس کی سرکاری یونیورسٹی دنیا کی چار سو بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل ہیں تاہم ساؤپالو یونیورسٹی کی زیادہ تر سرگرمیاں پرتگالی زبان میں کی جاتی ہیں، اس لیے یہ زبان جاننا از حد ضروری ہے۔
پاکستان بھی ان ممالک کی فہرست میں آسکتا ہے مگر اس کے لئے جاہل رہنماؤں اور نااہل انتظامیہ سےجان چھڑانی ہوگی – اور یہ کب ہوگا جب میں اور آپ اپنے حق کو پہچانیں گے –