(فارینہ الماس)
بھوک وہ نہیں جو ہم اور آپ دن بھرگاہے بہ گاہے اپنے بدن میں محسوس کرتے ہیں ۔ہمارے لئے تو یہ ایک ایسی طلب ہے جو اپنے مزاج ،لذت یا ذائقے کے تحت دن بھر ہمیں محظوظ کرتی ہے۔ ہم پر کبھی وہ نوبت نہیں آئی کہ بھوک کا اصل ذائقہ چکھ سکیں کیونکہ ہم اس کے احساس سے پہلے ہی اس کا درماں کر چکتے ہیں۔حقیقت میں بھوک تو وہ منظر ہے جو 1993ء میں کیون کارٹر کے ہاتھ میں تھامے کیمرے کے بد رنگ عکس میں محفوظ ہوا۔جب سوڈان کے قحط نے انسانی جسموں کو نحیف ہڈیوں اور ماس کے ذرہ برابر چیتھڑا سی پرت میں بدل دیا ۔ اک معصوم بچہ بھوک کے کالے سائے میں جکڑا اپنے سیاہ فام وجود کے کھنڈر کو گھسیٹتے ان کیمپوں کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں روٹی کے کچھ ٹکڑے ملنے کی آس تھی، لیکن اس کے لئے یہ سفر صدیوں پر محیط ہو گیا ۔وہ نکاہت کے مارے آدھے راستے میں ہی ڈھیر ہوگیا جب کہ اس کے عقب میں کچھ ہی فاصلے پر بیٹھا اک حریص گدھ ذرا برابر غافل نہ دکھائی دیتا تھا ۔وہ تو بس اس انتظار میں تھا کہ کب اس لاغر وجود سے روح قضا ہوجانے کا عندیہ ملے اور اسکے بھوجن کا سامان ہو۔یہ توپتہ نہیں کہ اس بچے کا کیا ہوا البتہ اس تصویر بنانے والے پر بھوک کا منحوس کالا اور گہرا سایہ ایسا پڑا کہ اس نے کچھ دن بعد خود کشی کر لی۔اس کی آخری تحریر یہ تھی
’’درد ،بھوک اور فاقوں سے مرتے بچوں کی لاشوں کا مجھ پر سایہ ہے ‘‘ یہ تھی بھوک کی منظر کشی۔آپ نے کبھی صحرا کی تپتی ریت پر ننگے پاؤں چلتے ہوئے ،آنکھوں میں ٹوٹے پھوٹے سپنوں کے سنگریزے اکٹھے کرتا وہ انسان دیکھا ہے جو دن بھر کی تشنہء کام حسرتوں کا شکستہ سا خیمہ تان کر بدن پر زخموں کی چادر اوڑھے رات کو سو جاتا ہے۔لیکن خالی پیٹ اسے رات بھر نیند آتی ہی کہاں ہے ۔۔۔وہ تو رات بھر سوچتا رہتاہے کہ کاش کوئی اس کی سبھی حسرتوں اور تمناؤں کے بدلے بس دوسوکھے ٹکڑے روٹی کے اسے دان کر دے۔اس کے بدن کی وہ کیفیت جو رات بھر اسے سونے نہیں دیتی۔ وہ ہے ایسی ظالم بھوک جو بدن کو اندر ہی اندر کاٹ کھاتی ہے اور انسان کی بے بس روح سپھل ہونے کے جتن کرنے لگتی ہے۔۔بھوک بہت ظالم شے ہے ۔صحرا سے اس کا بڑا پرانا واسطہ ہے ۔بلکل کبھی نہ اترنے والے کالے سائے کی طرح۔ اس کے آگے وہ انسان بے بس ہے جو ہر وقت ستاروں پر کمند ڈالنے کو پر تولتا رہتا ہے ،وہ انسان جس کی دسترس میں کائنات کے کئی راز ہیں وہ آج تک بھوک کو پچھاڑ نہیں پایا۔کیونکہ فطرت کی طاقتوں کے آگے بے بس ہے۔وہ بھوک اگاتے قحط کی جھاڑ جھنکاڑ کے آگے بے بس ہے۔وہ نہیں سمجھ سکا کہ کیوں بارشیں برسنا بند کر دیتی ہیں ؟کیوں فصلیں ناکام ہو جاتی ہیں؟ کیوں نہریں سوکھ جاتی ہیں ؟۔کیوں اس کرہء ارض کے 80 کروڑ انسان رات کو بھوکے سو جاتے ہیں جب کہ یہاں روزانہ پکی ہوئی خوراک کا 40فیصد حصہ ضائع ہو جاتا ہے ۔
بھوک سے بڑی ظالم شے اور کوئی نہیں اس کے لاحق ہونے کا خوف بھی انسان کی نیندیں اڑا سکتا ہے ۔بھوک سے بچنے کے لئے انسان کچھ بھی کر سکتا ہے ۔کئی صدیوں پہلے اہل مصر کو جب دریائے نیل کے خشک ہونے کا اھتمال ہو تا تھا تو وہ اسے خشک ہونے سے بچانے کے لئے ہر حربہ آزما دیکھتے تھے یہاں تک کہ زندہ اور جوان لڑکیوں کو نیل کے کم ہوتے پانیوں میں ڈبو کر ان کی قربانی پیش کیا کرتے کہ شاید دیوی دیوتا خوش ہو جائیں اور ملک خشک سالی سے بچ جائے۔
بھوک کا ٖخوف بڑوں بڑوں کی عقل کو آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔چین کے انقلابی رہنما ماؤزے تنگ نے چین کو قحط سے بچانے کے لئے 1958ء سے1962ء تک ایک تحریک چلائی۔جس کا مقصد مچھروں،مکھیوں ،چوہوں اور چڑیا کو صفحہء ہستی سے مٹانا تھا۔اس کی وجہ اپنی فصلوں کو ان حشرات و چرند پرند سے بچانا تھا جو ہر سال حملہ کر کے فصلوں کو تباہ کرتے اور لوگوں کو افلاس میں مبتلا کرتے ۔خیر بہت زورو شور سے مہم چلائی گئی ،چڑیا کے گھونسلے اجاڑ دئے گئے ۔ان کے انڈے تلف کر دئے گئے۔اگر کہیں ان انڈوں سے بچے باہر نکل آنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو انہیں اپنے پروں پر اڑنے سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا ۔یہاں تک کہ چڑیا کی نسل ناپید ہو گئی۔لیکن نتیجتاً چین زبردست قسم کے قحط کا شکار ہو گیا۔چاول تک کی فصل تباہ و برباد ہو گئی ۔معلوم ہوا کہ چڑیا تو ان فصلوں کے مضر اثرات کے حامل حشرات اور کیڑے مکوڑے کھا کر ان فصلوں کو تباہ ہونے سے بچاتی تھی۔آخر کار اپنی اس فاش غلطی کو مان لینے میں ہی ملک کے بڑوں بڑوں کو عافیت نصیب ہو سکی۔ بھوک کا قحط سے بہت پرانا تعلق ہے ۔ قحط اس وقت آتے ہیں جب بارشیں ہم سے روٹھ جاتی ہیں ۔قحط اس وقت بھی آتے ہیں جب سماج کے ایک بڑے حصے کو اس کا حق نہیں مل پاتا۔قحط کی وجہ ہمارے وہ سرمایہ دار اور جاگیر دار بھی ہیں جو اجناس سے اپنے گودام لبالب بھر کر اپنے مال اسباب کو بڑھاوا دینے اور مفلسوں کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جانے کے لئے مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں۔قحط میں محض بھوک ہی مرنے کا سامان پیدا نہیں کرتی بلکہ موت کا سبب وہ سبھی جان لیوا بیماریاں بھی بنتی ہیں جو انسان کو بھوک کی وجہ سے لاحق ہوتی ہیں ۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 87کروڑ افراد قلت خوراک کا شکار ہیں۔ان میں سے 24ہزار افراد بھوک اور افلاس سے روزانہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔دنیا میں ہر آٹھ افراد میں سے ایک فرد بھوک کا شکار ہے۔قلت خوراک کے شکار 87کروڑ کا نصف پاکستان ،بنگلہ دیش اور بھارت میں آباد ہے۔ ہر سال بھوک سے عالمی سطح پر تقریباً60لاکھ بچے مر جاتے ہیں ۔تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اسی دنیا میں سالانہ 1.3ارب ٹن خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔ خوراک کے قحط کی بڑی وجہ خشک سالی ہے ۔ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ 2010سے 2030ء کے دوران دنیا حیران کن قسم کی موسمی تبدیلیوں کا شکار ہو گی ۔ناسا کی تحقیق کے مطابق سورج کے مشرقی حصے پر ایک مقناطیسی قطب پیدا ہو چکا ہے جس سے ایسی طبعی اور کیمیائی تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں جو زمین سمیت نظام شمسی کے سبھی سیاروں کو متاثر کر رہی ہیں ۔اسی تبدیلی کے سبب گلیشئیرز پگھل رہے ہیں اور حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔حالیہ تحقیق کے مطابق 2016ء دنیا کا اب تک کا ریکارڈ کیا گیا سب سے ذیادہ گرم ترین سال ہے۔اس طرح کی موسمی تبدیلیاں دنیا میں قحط کی صورتحال کو مذید بڑھا رہی ہیں۔افریقہ اور صومالیہ کا غذائی بحران شدید صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے ۔صومالیہ ،کینیا اور ایتھوپیا میں تقریباً گیارہ ملین انسان بھوک کے بحران کا شکار ہیں۔رواں سال انڈیا کے کل 256اضلاع کے 33کروڑ لوگ قحط سے شدید متاثر ہوئے۔مون سون بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے 4ہزار دیہاتوں میں پانی کے ذخائر بلکل ناپید ہو چکے ہیں۔اتر پردیش انتہائی شدید غربت اور سوکھے کا شکار ہے۔بہت سے کسان بھوک سے تنگ آکر خودکشیاں کر چکے ہیں۔
جمہوریہ چارڈ میں 9ملین افراد کو غذا کی قلت کا سامنا ہے۔بھوک کے سائے گہرے ہونے میں حالیہ جنگوں اور خانہ جنگیوں نے بھی اپنا بھیانک کردار ادا کیا ہے۔شام میں جاری خانہ جنگی نے تقریباً5 لاکھ افراد کو غذائی قلت میں مبتلا کر رکھا ہے۔یمن میں20 لاکھ سے ذائد افراد بھوک کے روگ میں مبتلا ہیں۔ یوں تو پوری دنیا ہی موسمی تبدیلیوں کا شکار ہے لیکن شدید طرح کے تغیر و تبدل کا شکار بارہ ممالک میں پاکستان کا بھی شمار ہوتا ہے ۔بارشوں کی کمی سے اجناس کی مقدار میں کمی آنے کے علاوہ، مٹھی تھرپارکر قحط سالی کا شکار ہے ۔تھر کے ریگستان میں غذا کی شدید قلت کے باعث بھوک سے بلکتے معصوم بچوں کی ہلاکتیں بھی ہماری اشرافیہ اور حکمرانوں کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔یہاں پھوٹتی وبائی بیماریوں سے بھی بچے جان کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن ڈاکٹرز بنا ڈیوٹی دئے بھی تنخواہوں کے حق دار بنے بیٹھے ہیں۔ دنیا میں تیزی سے پھیلتی بھوک کی ایک وجہ سرمایہ دارانہ نظام بھی ہے ۔جس نے دنیا کی کل تین ارب پچاس کروڑ آبادی میں ایسے 80افراد پیدا کئے جن کی پوری دولت پوری دنیا کی کل آبادی کی دولت کے برابر ہے۔2005ء میں یہ دولت 388ارب پتیوں کے پاس تھی جو اب محض 80افراد کی ملکیت ہے۔اور رواں سال میں دنیا کے ایک فیصد امیر ترین افراد دنیا کی بیشتر دولت کے مالک ہو جائیں گے۔افراد اگر ان ارب پتیوں کی آدھی دولت بھی غربت کے خاتمے کے لئے وقف کی جائے تو شاید دنیا میں کبھی کوئی بھوک کی وجہ سے دم نہ توڑے ۔ ایسی ہی سرمایہ داری کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ افلاس کے مارے افریقہ کی مجموعی دولت کا 30فیصد افریقی دولت مندوں نے دوسرے ممالک میں محفوظ کر رکھا ہے جو14ملین ڈالر ہے۔اگر یہ افریقی اپنی دولت پر اٹھنے والا ٹیکس ہی ادا کر دیں تو افریقہ میں بھوک سے مرتے سالانہ 40لاکھ بچوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ غذائی بحران کی ایک وجہ وہ پیشن گوئی بھی محسوس ہوتی ہے جو کارل مارکس نے 150 سال پہلے کی تھی ۔یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر ترقی تو ہو گی جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ ذرائع پیداوار میں بھی ہو گی ۔لیکن اس پیداوار کی کھپت نہ ہونے کی وجہ سے شدید بحران جنم لے گا۔جس کی وجہ ذرائع پیداوار میں ذاتی ملکیت کا تصور ہے ۔جو استحصالی نظام کو جنم دیتا ہے ۔اس سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش طبقے کی قوت خرید بہت کم ہو جاتی ہے ۔جب کہ ایک مخصوص طبقہ ان ذخائر سے مستفید ہوتا ہے ۔
ہمارے ملک کے سرمایہ دار اور جاگیر دار اگر اپنے ذخیرہ کئے اناج سے بھرے گوداموں ہی کے منہ کھول دیں تو تھر کے بھوک سے بلکتے بچے اپنی جان کی بازی ہارنے سے بچ سکتے ہیں ۔
ہماری اس مہذب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک غریب ملکوں کوکم دام پر ہتھیار اور جدید جنگی آلات تو دے سکتے ہیں لیکن ان کی بھوک ننگ کو ڈھانپنے میں وہ جو کردار ادا کر سکتے ہیں وہ ادا نہیں کرتے یا شاید کرنا ہی نہیں چاہتے ۔ہماری حرص و ہوس نے خود ہمارے ہی ہاتھوں دنیا کو عدم مساوات کا شکار بنا ڈالا ہے ۔تاریخ کا مطالعہ کریں تو شاید ہی کسی تہذیب کے مطالعے میں بھوک کے باعث مرتے اور خودکشیاں کرتے ایسے رحجان کو ڈھونڈ پائیں جیسا آج کے جدید ترقی یافتہ دور میں ملتا ہے ۔دور قدیم میں جن علاقوں میں قحط سالی کی کیفیت ہو جایا کرتی تھی ، لوگ وہاں سے ہجرت کر کے دوسرے علاقوں کو نکل جاتے لیکن آج کی سرحدیں اور باڑیں اس کی اجازت نہیں دیتیں ۔آج اگر لوگ ایک افریقی ملک سے دوسرے افریقی ملک یا فلسطین کے قحط ذدہ علاقے سے نکل کر مصر کو کوچ کرنے لگیں تو انہیں یا تو گولی مار دی جاتی ہے یا راستے میں ہی روک دیا جاتا ہے ۔اسی طرح ایتھوپیا ،صومالیہ اور سوڈان سے جب لوگ قحط کی وجہ سے ہجرت کر کے دوسرے ممالک کی سرحدیں پھلانگنے لگے تو ان کے بچوں،بوڑھوں اور جوانوں کو گولیاں مار دی گئیں ۔
ہمارے جیسے ملکوں میں تو مصنوعی غذائی بحران ہی غریب کے منہ سے نوالے چھین لیتا ہے ۔شکم پرستی، عیش پرستی ہماری بے حسی اور لاتعلقی کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہے ہم جرمن شیفرڈ یا رشین اور پرشین بلیوں کو پالنے اور ان کی امپورٹڈ خوراک پر تو ماہانہ ہزاروں خرچ کر سکتے ہیں لیکن کسی بھوکے کو چار یا پانچ دن سے زیادہ کھانا کھلانا ہمیں وبال دکھائی دیتا ہے ۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں یہ بحران بہت ذیادہ بڑھنے والا ہے اب ایک طرف اس عالمی سماج اور دوسری طرف اس بحران کا شکار ملکوں بشمول پاکستان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بحران سے نپٹنے کے لئے کسی حکمت عملی کو مرتب کریں اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو سن 1900ء میں ہندوستان میں آئے قحط پر جو پالیسی نوآبادیاتی انتظامیہ نے اٹھائے رکھی اسی پر اکتفا کریں۔اس وقت مشہور ماہر معاشیات ’’میلتھس‘‘کے اس نظریے کو تسلیم کر لیا گیا تھا کہ ’’بڑے پیمانے پر انسانی اموات دراصل قدرت کا نظام ہے جس کے تحت جب بھی آبادی بہت ذیادہ ہو جاتی ہے تو لوگوں کی اجتماعی اموات واقع ہو جاتی ہیں‘‘