کیا لاہور مر گیا ہے؟
از، قاسم یعقوب
ایک وقت تھا جب لاہور سے نکلتے ہی مضافات کا گھیرا پھیلنے لگتا۔ نیچے ملتان اور پھر کراچی تک کوئی ایسا مرکز نظر نہیں آتا تھا جسے مرکز کہا جا سکتا۔ شمال کی طرف پنڈی اور پھر پشاور اہم شہر ہُوا کرتے۔ چھوٹے چھوٹے شہروں کا کلچر جم کے ٹھہرنے ہی نہ پاتا کہ اہم لوگ لاہور کا رُخ کر لیتے۔ لاہور کا کلچر پورے پنجاب کا کلچر سمجھا جاتا تھا۔ ادب، ثقافت، تعلیم، تفریح اور سیاست میں لاہور کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ایک لاہور اور دوسرا کراچی____ پورا ملک انھی دو شہروں پر کھڑا تھا۔ ایک اس کونے پر اور دوسرا اُس کونے پر۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں اپنے عہد کے ہی چیدہ چیدہ لوگوں کو دیکھ لیجیے۔ کسی بھی کمپنی، کسی بھی فرم کا ہیڈ آفس دیکھ لیجیے، آپ کو لاہور کی نمائندگی ضرور ملے گی۔ مرکزوں کا یہی معاملہ ہُوا کرتا ہے۔ سب اہم لوگ گھروں سے اپنا سرمایہ اٹھاتے ہیں اور قدردانوں کا رُخ کرتے ہیں۔
لاہور ہمیشہ سے بادشاہوں کا مرکز رہا یا بادشاہ کو اس شہر کی سب سے زیادہ فکر رہی۔ مغلوں کو تو یہ شہر بہت عزیز تھا۔ جہانگیر نے تو دفن بھی ہونے کے لیے لاہور کو چن لیا۔ نور جہاں بھی اسی خاک میں آسودہ ہوئی۔ صوفیا بھی دریا دریا چلتے اسی شہر میں ڈیرہ لگانے پہنچ گئے۔ اسی شہر سے فیض پہنچا یا جاتا۔ لوگ بیل گاڑیوں، ٹرینوں اور پھر بسوں کے ذریعے دوڑتے ، بھاگتے آتے امیدوں ، آسروں اور خواہشوں کی تجوریاں بھرکے لوٹتے۔
مجھے یاد ہے میں ایک دفعہ احمد ندیم قاسمی کے آفس کلب روڈ اُن سے ملنے گیا تو وہ مجلس ترقی ادب کے معمول کے کاموں میں مصروف تھے۔ میں نے انھیں باتوں باتوں میں اپنے والد کے شہر خوشاب کاتعارف کروایا اور کہا کہ ہم بھی آپ کے شہر سے ہیں مگر میرے والد جلد خوشاب سے لاہور آ گئے تھے اور انھوں نے ایف ایس سی، بی ایس سی اور ایم ایس سی اسی شہر کے ایک شاندار دارے ’’ایف سی کالج‘‘ سے حاصل کی۔وہ مجھے کہنے لگے مگر آپ لاہور کیوں نہیں آئے۔ میں نے کہا لاہور سے زیادہ مجھے فیصل آباد سے مل گیا۔ جی ہاں احمد ندیم قا سمی جیسے صحافی، ادیب اور لکھاری بھی لاہور آ گئے اور لاہوری بن گئے اور یہیں دفن ہوئے۔
نوے کی دہائی تک لاہور واقعی لاہور تھا۔ میں لاہور کو اپنا دوسرا محلہ کہتا تھا۔ اپنے شہر کے بعد ایک ہی شہر ہوتا جہاں اپنے شہر سے زیادہ بہتر دکھائی دیتا ۔ مگر پھر رفتہ رفتہ لاہور نے کہرا پہن لیا۔ ’’جو بادہ کش تھے پُرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں‘‘ احمد ندیم قاسمی، سے لے کر سہیل احمد خان تک سب جید ادبا چلے گئے۔ رونقیں اجڑ گئیں۔ پاک ٹی ہاؤس ایک ٹی سٹال بن گیا۔ انتظار حسین نگر نگر گھومنے لگے۔ اب انتظار حسین اور سلیم الرحمن لاہور کا کلچر نہیں اپنا بچا کھچا کلچر لیے پھر رہے ہیں۔ مگر کتنی دیر؟ پیچھے لاہور ناصر باغ اور ٹی ہاؤس میں ویران پڑا اونگھ رہا ہے۔
لاہور سے ادبی کلچر رخصت ہو گیا۔ اب لاہور کے ساتھ ملتان، فیصل آباد، اور پنڈی اسلام آباد بڑے ادبی مراکز بن کے سامنے آئے ہیں۔ تعلیم کی Hub کبھی لاہور تھی مگر اب اسلام آباد بن چکی ہے۔ سیاست، ٹی وی، اہم تجارتی سرگرمیوں کا مرکز اب لاہور نہیں اسلام آباد ہے۔
لاہور میں ادبی سرگرمیاں ادنیٰ درجے میں ڈھل گئی ہیں۔ نہایت سوقیانہ مسئلوں پر انار کلی کی مجلسیں برپا ہوتی ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ لاہور سے ایک بھی ایسا رسالہ نہیں نکلتا جو پورے ادبی مرکز کی نمائندگی کر رہا ہو۔ فنون اور اوراق کی ہم سری کا دعویٰ تو بہت دور کی بات______آپ ڈھونڈنے سے بتا دیں کوئی نقاد___کوئی افسانہ نگار____کوئی اہم نظم نگاروں کا جھرمٹ___ غزل کے چند اہم نام_____اختصاص کے علاوہ یہاں کوئی اہم ادبی سرگرمی نہیں ہو رہی۔ ناصر عباس نیر اور اس سطح کے دوسرے ادبا لاہوری نہیں اور نہ ہی لاہور کے کلچر میں یہ لوگ شامل ہیں۔ ’’سویرا‘‘ سلیم الرحمن صاحب کی آخری یادگار ہے جو لاہور کے مٹتے ادبی کلچر کی یاد بن گیا ہے۔ لاہور کب تک تبسم کاشمیری، خورشید رضوی اور تحسین فراقی صاحبان کے سہارے سندہ رہ سکتا ہے۔ ضیاالحسن، امجد طفیل، عامر فراز، غافر شہزاد، رشید مصباح کب تک اس کلچر کی آگ کو دھونی دیں گے۔ جس کلچر نے سارا بوجھ الحمرا آرٹس کونسل کے عطا الحق قاسمی اور ہر دل عزیز شاعر امجد اسلام امجد پر ڈال رکھا ہو۔ جوکلچر دو’’ حلقوں‘‘ کی حلقہ بندیوں میں ہلکان ہو چکا ہو۔ جہاں اب اختر حسین جعفری نہیں رہا۔ جہاں سید عبداللہ نہیں موجود اور نہ اب وزیر آغا کی ریلوے روڈ کی رونقیں______
جی ہاں! لاہور اب وہی شہر ہے جہاں پبلشرز اور کتب فروشوں نے جنسی تلذذ سے ’’لبریز‘‘ کتابوں کی ریکارڈ فروخت سے ایک نیا کلچر بنا لیا ہے جہاں اب ہماری اور آپ کی ضرورت نہیں۔ جن کتابوں پر بانو آپا اور انور سجاد آ کے کتابیں خریدا کرتے اب وہاں پکوان کتب خانوں کے دستر خوان پڑے ہیں۔ پریس مارکیٹ میں جوتے کے اشتہار چھپتے ہیں، برگر اور پیزا کے کلر ڈبے بن رہے ہیں۔
لاہور کے کلچر میں اتنی جان ہے کہ اس کے باسیوں سے کوئی وزیر آغا یا احمد ندیم قاسمی پیدا ہو گا۔ کیا س مٹی کی بودو باش لے کے کوئی ایسا شخص سامنے آیا گا جو لاہور کو زندہ کر دے؟ یا پھر باہر سے لاہور کے خاکے میں رنگ بھر نے کے لیے لوگ درآمد ہوتے رہیں گے اور واپس لوٹتے رہیں گے؟
کاش ایسا بھی ہو اجا ئے تو غنیمت ہے!
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.