مارک ٹوین کی کچھ ان مِٹ شگفتہ باتیں

مارک ٹوین کی کچھ ان مِٹ شگفتہ باتیں

مارک ٹوین کی کچھ ان مِٹ شگفتہ باتیں

از، ڈاکٹر غلام سرور

mark-twain مارک ٹوین
مارک ٹوین

مارک ٹوین، امریکہ میں ۱۸۳۵ء میں پیداہوئے اور دریائے مسوری کے کنارے کشتیوں کو دیکھتے ہوئے جوان ہوئے، حتیٰ کہ خود کشتی کے کپتان بن گئے۔ ۱۸۶۱ء میں سول وار کی وجہ سے جب دریائی تجارت مند ی ہوئی تو انھوں نے اخباری رپورٹر کا کام شروع کیا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں ۲۸ کتابیں اور بہت سی کہانیاں ، سکیچز اور خطوط لکھے اور شائع کیے۔ وہ طنز ومزاح میں اپنا مخصوص انداز رکھتے تھے جو آج بھی مزہ دیتا ہے۔ گو کہنے کو تووہ ۱۹۱۰ء میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے مگر ان کے چاہنے والے آج بھی ان کی یاد تازہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ کارٹون اور چند چٹ پٹی باتوں کا ترجمہ ،  ایک چھوٹا سا خراج تحسین ہے۔

* وہ آدمی جو اپنے آپ کو چھوٹا کہتا ہے، یقیناًسچ بول رہا ہے ۔
*
وہ آدمی جو ایک بلی کو دم سے پکڑتا ہے ، ایسا سبق سیکھتا ہے جو وہ کسی اور طریقے سے نہیں سیکھ سکتا۔
*
ایک آدمی جو مطالعہ نہیں کرتا ، اس آدمی سے بہتر نہیں،جو ان پڑھ ہے۔
*
اگر آپ کے پاس کوئی نیا آئیڈیا ہے تو بھی آپ اس وقت تک خبطی سمجھے جاسکتے ہیں جب تک کہ آپ کا آئیڈیا کامیاب ثابت نہ ہو۔
*
آپ کسی گول آدمی کو لے کر ایک چوکور سوراخ میں نہیں گھسیڑ سکتے جب تک کہ اس کی شکل نہ بدلیں۔
*
ہنسی کی یلغار کے سامنے کچھ نہیں ٹھہر سکتا۔
*
اچھی بات ہے ، چلو مان لیا ، میں جہنم میں جاؤں گا__تو ؟
*
اگر آپ کسی بات سے ناواقف ہیں تو کامیاب یقیناًپھر بھی ہوسکتے ہیں۔
*
ہرچیز کی حد ہوتی ہے ، لوہے کو تعلیم یافتہ بناکے سونا نہیں بنایا جاسکتا ۔
*
حقیقت اڑیل ہوتی ہے ، مگرجسے ’’ شماریات ‘‘ یعنی ’’ سٹاٹسٹکس‘‘ کہا جائے ، اسے منایا جاسکتا ہے۔
*
پہلے تو تم ، حقیقت کو جانو ، پھر اسے توڑ مروڑ سکتے ہو۔
*
سگریٹ چھوڑنا بہت آسان کام ہے ، مجھ سے پوچھو، میں نے ہزار بار کیاہے۔
*
اچھے دوست، اچھی کتابیں اور ایک اونگھتا ہوا ضمیر ، اسے کہتے ہیں ایک ’’ آئیڈیل لائف ‘‘۔

* افسوس خود اپنے کو سنبھالا دے سکتا ہے ، مگر خوشی جب تک بانٹی نہ جائے ، اپنی پوری قیمت نہیں دیتی۔
* ’’
ایمانداری‘‘ جو ہے وہ سب سے اچھی پالیسی ہے خصوصاً جب اس میں ’’ پیسہ ‘‘ ہو۔
*
مزاح انسانیت کے لیے سب سے بڑی رحمت ہے۔
*
میں جاؤں تو کدھر کو ،جنت یا جہنم ؟ دونوں طرف میرے یار ہیں۔
*
اپنے خواب مت چھوڑنا ، خوابوں کے بغیر آدمی زندہ تو رہ سکتا ہے ، جی نہیں سکتا۔
*
اگر تم سچ بولو تو کوئی ’ کہانی ‘ رٹنے کی یا ، یاد رکھنے کی ضرورت نہیں ۔
*
مہربانی اور شفقت وہ بولی ہے جو بہرہ سن سکتا ہے اور اندھا دیکھ سکتا ہے۔
*
زندگی کتنی مزے دار ہوجائے اگر ہم اسی برس کی عمر میں پیدا ہوں اور آہستہ آہستہ اٹھارہ سال کے ہوجائیں۔

* وہ کام کل پر مت چھوڑ ، جو پرسوں کرسکتے ہو۔
*
شور مچا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہو ؟ اس مرغی کی طرح جس نے فقط ایک حقیر سا انڈہ دیا ہو مگر دڑوکتی ایسے ہے جیسے کوئی بڑا سا ’’ سیارچہ ‘‘ جنا ہو۔
*
اگر اپنی خوشی چاہتے ہو تو آسان طریقہ یہ ہے کہ کسی اور کو خوش کردو۔
*
جب چیزوں پر پابندی عائد کی جائے تو وہ اور پاپولر ہوجاتی ہیں ۔
*
بچوں سے بڑی دل چسپ معلومات حاصل ہوتی ہیں کیونکہ وہ اتنا ہی بتاتے ہیں جتنا وہ جانتے ہیں __ اور پھر چپ ہوجاتے ہیں۔
*
لوگوں کی رائے ہر نقاد کی تنقید پر بھاری ہے۔
*
میری موت کی خبریں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی ہیں ۔
*
تقریر میں اپنے نپے تلے ، لفظ کا استعمال جادو کا اثر رکھتا ہے ، مگر اتنا نہیں جتنا ایک’وقفہ‘ جو نشانے پر بیٹھا ہو۔
*
ہماری زمین پر ہمارے مزاح کا سرچشمہ غم ہے خوشی نہیں۔
*
بھٹی مشکل یہ نہیں کہ دنیا میں احمقوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ، مشکل یہ ہے کہ بجلی غلط جگہوں پر گرتی ہے۔

* روشنائی کا انتخاب ہی تاریخ کو ’’ رنگ ‘‘ دیتا ہے۔
*
لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو کچھ کردکھاتے ہیں اور دوسرے وہ جو دعوے کرتے ہیں کہ انھوں نے بہت کچھ کیا ہے ، پہلی قسم کے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔
*
کبھی کبھی تو جی میں آتی ہے کہ اس نسل انسانی کو ہی لٹکا دیا جائے تا کہ خس کم اورجہاں پاک ہو۔
*
امریکہ میں کوئی مخصوص مجرمانہ ’’ کلاس‘‘ نہیں ہے ، سوائے امریکی کانگریس کے۔
*
ہزاروں جینئس یونہی مرجاتے ہیں ، کوئی انھیں دریافت نہیں کرپاتا ، وہ خود بھی نہیں۔
*
سچ بڑا ہے اور ہمیشہ قائم رہتا ہے ، کاش واقعیایسا ہی ہوتا
*
جب پیار کی چڑیا پکڑنے کی کوشش کرو تو دل سے دانہ ڈالو ، دماغ سے نہیں۔
*
جب بھی تم یہ دیکھو کہ تم اکثریت کی رائے سے متفق ہو رہے ہو تو پھر سوچو اور غور کرو۔
*
اگر تمہارا تصور ہی دھندلا گیا ہے تو آنکھوں سے کیا دیکھو گے۔