(صفدر رشید)
پچھلے دنوں’’ ایک روزن‘‘ کے لکھاری وقاص احمد نے پاکستانی سیاست میں سرگرم جماعتوں کے ووٹرز پہ بہت اچھا تبصرہ پیش کیا۔ عموماً سیاسی جماعتوں کی سیاست بصیرت یا اُن کی سیاسی حماقتوں کو ہی موضوعِ بحث بنایا جاتا ہے۔یہ میری نظر میں پہلا موقع تھا جب میں نے سیاسی جماعتوں کی بجائے اُن کے ووٹرز کو زیرِ بحث لاتے دیکھا۔وقاص احمد صاحب نے گو صرف تین جماعتوں کے ووٹرز پر اظہارِ خیال کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا ووٹرز نظریاتی وجذباتی وابستگی رکھتا ہے اس لیے بری الذمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔تحریکِ انصاف کے ووٹرز مخلص اور دل کے صاف ہونی وجہ سے قابلِ معافی ہیں مگر نون لیگ کا ووٹر ایک مفاداتی گروہ کو نجانے کیوں سینے سے لگائے بیٹھا ہے۔
اگر اس لسٹ کو کچھ لمبا کر دیا جائے تو اس میں اے این پی، ایم کیو ایم اور جماعتِ اسلامی وغیرہ بھی شامل کی جا سکتی ہیں۔ اب ہم فرداً فرداً ان جماعتوں کے ووٹرز پر گفتگو کرتے ہیں۔ قارئین کو معلوم ہی ہوگا کہ پیپلز پارٹی ابھی تک ’’بھٹو کرزما‘‘ سے نہیں نکل پائی۔ بھٹو کے نام کو آج بھی بیچا جا رہا ہے۔ بھٹو ازم اصل میں ایک نظریہ یا جذباتی رشتے کے طور پر منسلک ہو گیا ہے پیپلز پارٹی کا ووٹر سیاسی جماعت سے زیادہ ایک عقیدت، محبت، اور نظریے وغیرہ کے نام پر بھٹو کو ووٹ دیتا ہے۔ پی پی پی کوئی کام کرے یا نہ کرے، بھٹو کا ووٹر عجیب قسم کی ’’خونی رشتگی‘‘ سے منسلک رہتا ہے۔ پی پی پی ایک ’’ازم‘‘ کا نام ہے جو اپنے کام یا اپنی کارکردگی پہ نہیں اپنے بھٹو ازم‘‘ کے نام پہ آج بھی زندہ ہے، حتی کہ ایسے ووٹرز جو پی پی پی کو ووٹ نہیں بھی دیتے وہ بھی ’’بھٹو ازم‘‘ کی لافانی ’’محبت اور جذباتیت‘‘ سے نکل نہیں پاتے۔بھٹو کا نام آتے ہی بی بی شہید اور اُن کے بچے وغیرہ وغیرہ ایک مذہبی رشتوں کی طرح دہرائے جانے لگتے ہیں۔
عمران خان کا ووٹر بھی عمران خان کی’’ کرشماتی‘‘ شخصیت کے سحر سے نہیں نکل پاتا۔ وہ کہتا ہے کہ عمران ہمارا قائد اور لیڈر ہے، ’’کپتان‘‘ جیسا لقب اسی جذبے کے تحت دیا گیا ہے ۔ عمران خان کا ووٹر بھی عمران کے کرشماتی حصار میں ووٹ دیتا ہے اور ہر غلط سہی بات کو درست قرار دیتا آ رہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بقول وقاص احمد ’’دل کے صاف‘‘ ووٹر صرف عمران خان کے پاس ہی ہیں۔
جماعت اسلامی کو ایک مسلک کا ووٹ پڑتا ہے۔ یہ مسلکی گروہ بندی ہے جو نسل در نسل چلتی آ رہی ہے۔ اسی طرح ایم کیو ایم بھی مہاجر کارڈ کھیلتی ہے اور اپنے لیڈر کو قائدِ تحریک کہتی ہے اور اُس کے پیچھے اس قدر اندھی ہو جاتی ہے کہ ملک کی خلاف اقدام اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتی۔یہ مہاجر ووٹ ہے جو اپنے تمام جذبات کے ساتھ قائد تحریک کو یاد کرتا اور اُسے ووٹ دیتا آ رہا ہے۔
اے این پی ایک نظریاتی پارٹی ہے جس نے قوم پرست سیاست سے ایک قدم آگے بڑھایا ہے اور اب کچھ کچھ قومی دھارے میں شمولیت اختیار کی ہے۔ باچا خان نظریے کا نام ہے جس کے ماننے والے آج بھی اے این پی کو ووٹ دیتے ہیں۔ وہ ’’باچا خان‘‘ کواپنا قائد کہتے ہیں اور اے این پی کی مقامی قیادت کو باچا خان کا تسلسل یا امانت سمجھتے آ رہے ہیں۔
نون لیگ کسی نظریے کا نام نہیں، نہ ہی نون لیگ کے ووٹر کی نون لیگ یا اس کے سربراہ نواز شریف سے کوئی’’ عقیدت‘‘ نامی وابستگی ہے۔ یہ بڑی مضحکہ خیز سی بات ہے کہ نواز شریف کو قائد کہا جائے اور نون لیگ کو کسی نظریے کا پابند کیا جائے۔نون لیگ کا ووٹر نون لیگ سے ہرگز کسی ’’جذباتی‘‘ لگاؤ کی کوئی وابستگی نہیں رکھتا اور نہ ہی نون لیگ کا ووٹر نواز شریف کا نام ’’احترام‘‘ سے لینا فرض سمجھتا ہے۔ نون لیگ چند افراد کا گروہ ہے جو ملک میں کچھ ترقیاتی کاموں اور انفراسٹکچر کے نام پر لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا اور ووٹ لیتا ہے۔ اگر آپ حقیقی طور پر پوچھیں تو نون لیگ کوئی جماعت وغیرہ نہیں ہے جو اپنے نظریاتی اور عقیدائی حصار میں جکڑی ہوئی ہو۔یہی اس کی بڑی خامی بھی ہے۔آپ کو نون لیگ کا حمایتی کوئی سیاست دان تو نظر آسکتا ہے مگر ’’جیالا‘‘ طرز کا ووٹر عوامی سطح پر بہت کم نظر آئے گا۔
نون لیگ کا ووٹ اپنی پارٹی کے خلاف ہوتے دیر نہیں لگاتا اور پالیسیوں پر کھل کے بات بھی کر لیتا ہے۔ نظریاتی جماعتوں میں ایسا ممکن نہیں ہوتا۔
یہ بڑی مضحکہ خیز سی بات ہے کہ نون لیگ کا مڈل کلاس ووٹراس قسم کے نعرے لگائے:
’’نواز شریف تیرے لیے جان بھی حاضر ہے‘‘
’’جب تک سورج چاند رہے گا، نواز شریف تیرا نام رہے گا‘‘
’’چاروں صوبوں کی زنجیر شہباز شریف، نواز شریف‘‘
’’ہمارا کپتان ہمارا قائد نواز شریف‘‘
’’ہمیں نواز شریف سے محبت ہے‘‘
لہٰذا نون لیگ کا ووٹر سیاسی جماعتوں کے گناہِ مسلسل میں صرف اتنا قصور وار ہے کہ حماقت کر بیٹھتا ہے ، مگر حماقتوں کو نظریاتی یا جذباتی وابستگی دینے سے ڈرتا ہے۔