(سبین علی)
cyber cultureقدیم وادی سندھ کی تہذیب تھی یا میسوپوٹیمیا کی، فراعین مصر کا تمدن تھا یا اہل فارس و روم کا، امریکہ کا نیو ورلڈ آڈر رہا یا طالبان کا شدت پسند بیانیہ، مشرف کا سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ تھا یا انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے متعصبانہ بیانات، مودی کے جے شری رام کے نعرے رہے یا مشرق وسطی کے کروٹ لیتے حالات اور نئے سماجی خدوخال- یہ ساری تہذیبیں سارے تمدن وقت کے دھارے کے ساتھ بہتے نئی شکل میں ڈھلتے چلے جا رہی ہیں- تہذیبوں کے عروج و زوال کا سفر اتنی تیزی سے کبھی اپنی راہ نہیں بدلتا رہا جتنی تیزی سے اس سائبر تہذیب cyber culture نے دنیا بھر کو بدلا ہے- ہم لوگ یہیں پیدا ہوتے ہیں یہیں پروان چڑھتے ہیں- لوگ اپنی خوشیاں غم بانٹتے ہیں ،نعرے لگاتے ہیں، رومان پروان چڑھتے ہیں، فلرٹ کیے جاتے ہیں، دوست بنائے جاتے ہیں دشمن پیدا ہوتے ہیں ہیرو بنے اور بنائے جاتے ہیں اور پھر یہیں مر کھپ جاتے ہیں- اس سائبر تہذیِب cyber culture نے ہر تمدن ہر ثقافت کو ایک الگ طرز کی شکست سے دوچار کیا ہے-
لیکن ابھی تک ہم الجھے ہوئے لوگوں کی مانند اس بدلاؤ کو تسلیم نہیں کر سکے- ابھی تک اس نئی تہذیب کے خدوخال پوری طرح ابھرے بھی نہیں کہ باڑھ کی مانند یہ سیلاب سارے بند توڑتا ہوا ہمارے گھروں اور بند کمروں میں آن گھسا ہے- لوگ دور بسے انسانوں سے جڑے ہیں مگر اپنے قرب و جوار میں موجود شخص سے بے خبر ہوتے جا رہے ہیں. سوشل میڈیا social media نے عام آدمی کی نفسیات، طرز تکلم اور طرز حیات پر بھی اپنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ـ اجتماعات اور تقریبات پر لوگ ایک دوسرے سے کٹے اپنے اپنے سیل فون پر کھوئے نظر آتے ہیں. روزمرہ کے کام کاج نپٹاتے، ڈرائیونگ کرتے، بازاروں میں گھومتے اور سیرگاہوں جیسی عوامی جگہوں پر بھی لوگ دوسروں لوگوں سے کٹے انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس سے رابطہ استوار کیے نظر آتے ہیِں- ایک طرف تو سوشل میڈیا پر ہر شخص بلا روک ٹوک بلا جھجھک کچھ بھی پوسٹ کر دیتا ہے خواہ وہ کسی کی دل آزاری کا ہی باعث ہی کیوں نہ ہو لیکن دوسری طرف اسی سوشل میڈیا نے دنیا بھر سے ہم خیال اور ذہنی ہم آہنگی رکھنے والے باشعور لوگوں کو قریب لانے میں بھی بہت مدد کی ہے-
سیاسی بخار ہوں یا آرٹ اور ادب کی سرگرمیاں دونوں کوسوشل میڈیا پر ایک وسیع پلیٹ فارم ملا ہے جہاں محدود رسائی رکھنے والے یا کم آمیز قسم کے لوگ بھی اسکالرز کے ساتھ تبادلہ خیال کر سکتے ہیں. اپنی آراء لکھ سکتے ہیں اور بہت سے لوگوں کو متاثر بھی کر سکتے ہیں-
سیاسی مذہبی اور لبرل تنظیمیں بھی پوری طرح میدان میں موجود کہیں طعن و تشنیع ہے اور کہیں کفر کے فتوٰی- کہیں سیاسی پوسٹ پر دشنام طرازی ہے تو کہیں گالم گلوچ بھی- فیک آئی ڈیز کی بھرمار میں جہاں بلیک میلر اور ہیکرز موجود ہیں وہاں آپ کو بہت اچھے اور راہنمائی کرنے والے سچے لوگ بھی ملیں گے – غرضیکہ سوشل میڈیا social media ایک ایسا چراغ کا جن ہے جسے آپ اپنی مرضی سے استعمال کر سکتے ہیں خواہ وہ منفی مقاصد ہوں یا مثبت-
چند دہائیاں قبل جب ذرائع ابلاغ نے پرنٹ میڈیا اور سلور اسکرین سے بڑھ کر الیکٹرانک میڈیا کی شکل اختیار کی تو سمجھ نہیں آتا تھا کہ ریاستی اور بڑے مالیاتی اداروں کی چھتری تلے پروان چڑھتے اس میڈیا کو کون پیچھے چھوڑے گا- اور اب سوشل میڈیا social media کے بعد تقریبا ہر شخص کے ہاتھ میں ٹچ اسکرین میں سمٹا جام جہاں نما موجود ہے جو اپنے صارف کو نہ صرف ایک کلک پر بے شمار معلومات فراہم کر رہا ہے بلکہ اسی صارف کو براہ راست دنیا بھر سے مخاطب ہونے یا ایک نئے ٹرینڈ سے روشناس کروانے کا آلہ بھی بن سکتا ہے – اسی سوشل میڈیا نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو نہ صرف پیچھے چھوڑ دیا بلکہ عام آدمی کے ٹرینڈز اور فیصلوں نے ارباب اختیار سمیت بڑے میڈیا ہاؤسز کو دباؤ کا شکار بھی کیا ہے –
سوشل میڈیا کے ان مثبت ٹرینڈز کی سب سے عمدہ مثال امریکی طالب علم احمد ہے – جو اپنے سکول میں ایک ڈیجیٹل کلاک بنا کر لے گیا تو اسکول ٹیچر نے اس بچے کے مذہبی پس منظر سے منفی تاثر لیتے ہوئے پولیس کو بلا لیا- پولیس نے کلاک کو تحویل اور بچے کو حراست میں لے لیا- ٹویٹر پر اسی علاقے کی ایک لڑکی نے احمد کی حمایت میں ٹویٹ کی- چند گھنٹوں میں کلاک کے ہیش ٹیگ اور تصاویر کے ساتھ یہ ٹرینڈ دنیا بھر میں پھیل گیا- پولیس نے نہ صرف احمد کو رہا کیا بلکہ صدر ابامہ نے بھی احمد کے لیے ٹویٹ لکھ کر اسے وائٹ ہاؤس آنے کی دعوت دی-
پچھلے دنوں ایک پاکستانی چائے والے کی تصویر انسٹاگرام پر پوسٹ ہوئی اور دنیا بھر میں اسے مقبول کر گئی- چائے والے کا ٹرینڈ نچلے طبقہ کے اس نوجوان کی زندگی بدلنے اور نئے روزگار کا باعث بنا اس کے بعد ترکاری بیچنے والی ایک نیپالی لڑکی بھی ٹاپ ٹرینڈ پر رہی- سوشل میڈیا social media پر عام آدمی کی آواز ظلم و جبر کے خلاف کیا اہمیت رکھتی ہے اس کا اندازہ خواجہ سرا پر تشدد کرنے والے شخص ججا بٹ کی گرفتاری سے بھی لگایا جا سکتا ہے –
سوشل میڈیا کے ابتدائی دور میں سائبر سیکورٹی نسبتا کمزور تھی بے شمار فیک آئی ڈیز اور آئی ڈی ہیک ہوجانا عام تھا – کئی لوگوں کو مشکلات سیکیورٹی خدشات، دھمکیوں اور بلیک میلینگ کا سامنا بھی کرنا پڑا. فیک آئی ڈیز کے ہاتھوں اغوا اور قتل جیسے افسوسناک واقعات بھی ہوئے – اب جیسے جیسے سوشل میڈیا کا استعمال بڑھ رہا ہے لوگ زیادہ چوکنے ہو چکے ہیں وہ ہر آئی ڈی کو شامل کرنے کی بجائے زیادہ بہتر و ہم خیال اشخاص کا انتخاب کرنا سیکھ گئے ہیں – سوشل سائٹس نے اپنی سیکیورٹی بھی بہتر بنائی ہے اور کئی ممالک نے مختلف سائبر قوانین بھی متعارف کروائے ہیں – جس سے نہ صرف منفی واقعات کی روک تھام مقصود ہے بلکہ سوشل میڈیا پر کنٹرول رکھنے کی بھی سعی کی گئی ہے –
ان قوانین سے قطع نظر سوشل میڈیا social media پر عام صارف کا شخصی ضبط بہت ضروری ہے تاکہ وہ اس ٹیکنالوجی جن کو منفی سے زیادہ مثبت مقاصد کے لیے استعمال کر سکے- اپنی ترجیحات کا تعین اور وقت کا بہترین استعمال کرے – اپنی صحت ، آرام اور خانگی و سماجی تعلقات کو نظر انداز کیے بغیر نئی سائبر سماجیات cyber society اور تہذیب سے مستفید ہو سکے – سماجی رابطوں کے صارف کو یہ خود طے کرنا ہوگا کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کی معلومات پر کس حد تک سب کو رسائی دینا چاہتا ہے- اسے کونسی معلومات یا تصاویر کن لوگوں سے شئیر کرنا ہیں – یہاں یہ بات کی قابل ذکر ہے کہ اس سائبر تہذیب نے جہاں عام آدمی کو دنیا کے مقابل لا کھڑا کیا ہے وہیں اس شخص کی نجی و ذاتی معلومات پر بڑے سائبر اداروں cyber مثلا گوگل فیس بک اور ایپل کی بلا روک ٹوک رسائی نے صارف کی پرائیوسی کے حوالے سے بڑا سوالیہ نشان بھی لگا دیا ہے-
بہت عمدہ مضمون ہے