(سرور الہدی)
فراق کے اس خیال کی معنویت وقت کے ساتھ روشن ہوتی جاتی ہے۔
مٹا ہے کوئی عقیدہ تو خوں تھوکا ہے
نئے خیال کی تکلیف اٹھی ہے مشکل سے
اس شعر میں فراق کا ذاتی دکھ کتنا ہے یہ ہمارا بنیادی مسئلہ نہیں ۔ اچھا شعر دوسروں کی پریشانی کا سبب بنتا ہے۔ لیکن پریشانی ان کے لیے ہے جس کا کوئی عقیدہ ہو۔ عقیدہ کا مٹنا اور اس کے نتیجے میں خون تھوکنا ایک داخلی کیفیت کا اظہار ہے، اسے محسوس کرنے کے لیے احساس کی دولت چاہئے۔ شعروادب کی نہ جانے کیسی کیسی تعریف کی گئی مگر مجموعی طور پر احساس ہی وہ دولت ہے جو فکرخیال کو پرقوت بناتی ہے۔ کبھی فکر غالب آجاتی ہے اور کبھی احساس۔ فراق کے یہاں تو احساس ہی خیال بن جاتا ہے۔ ’’مٹا ہے کوئی عقیدہ‘‘سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایک ہی عقیدہ نہیں، اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ یوں بھی عقیدہ تو داخلی ہی ہوتا ہے بعض اوقات عقیدہ کمزور ہوتا ہے مگر اس کی نمائش زیادہ کی جا تی ہے۔ عقیدہ کا ایک تعلق غالب کے اس خیال سے بھی ہے
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
عقیدے کو خطرہ نئے خیال ہی سے رہا ہے۔ نئے خیال کو
عقیدے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اسی سے قدامت اور جدت کے درمیان مکالمے کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ اس سیاق میں فسانۂ آزاد کے کردار خوجی اور آزاد کو دیکھا جاسکتا ہے۔ فراق کے شعر میں ایک بیان واقعہ ہے مگر وہ وقت کو عبور کرلیتا ہے۔متکلم کوئی بڑا دعوی نہیں کرتا۔ بلکہ بڑے انکسار کے ساتھ کہتا ہے کہ ’’نئے خیال کی تکلیف اٹھی ہے مشکل سے‘‘۔ گویا ایک طرف عقیدے کے مٹنے کا افسوس ہے تو دوسری طرف نئی صورتحال سے خود کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش بھی۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ متکلم عقیدے کے مٹنے سے دکھی ہے اور عقیدہ اس کے لیے زندگی موت کی طرح ہے۔ لیکن یہ ایک مژدہ بھی ہے، ان لوگوں کے لیے جو پرانے خیال کی گرفت میں ہونے کے باوجود نئے خیال کی طرف آنا چاہتے ہیں۔ نئے خیال کی تکلیف مشکل ہی سے سہی لیکن اٹھ جاتی ہے۔ ’’خون تھو کا ہے‘‘ کا ٹکڑا عقیدے کے احترام اور راس راسخیت کے سیاق میں کس قدر بامعنی ہے۔ ’’خون تھوکنا‘‘ اظہار کی سطح پر بہت مانوس ہے۔ فراق نے ایک داخلی کیفیت کے اظہار میں صناعی کا دوسرا زاویہ اختیار کیا ہے۔ کلیم عاجز کا شعر یاد آتا ہے۔
جو اس نے حال دل زخم خوردہ پوچھا
دکھا دی خون میں ڈوبی ہوئی زمانے میں نے
حال دل زخم خوردہ کا سبب معلوم نہیں۔ خون تھوکنے اورخون میں ڈوبی ہوئی زبان دونوں کا رشتہ داخل سے ہے۔ یہ مضمون مستقل ایک باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ فراق نے اس کے اظہار میں احساس کی سطح پر جوندرت پیدا کی ہے وہ فراق کا حصہ ہے لیکن فراق کا شعر پرانابھی ہے اور نیابھی۔ ہم جسے نیا خیال کہتے ہیں، وہ پرانے خیال سے کتنا مختلف ہوتا ہے۔ نیا خیال کب ہمیں پرانا معلوم ہونے لگتا ہے، نئے خیال کے درمیان پرانی روایت کیوں کر کبھی حوصلہ دیتی ہے اور اچھی معلوم ہوتی ہے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو نئے خیال کو رد یا قبول کرنے کے عمل میں بار بار سامنے آتے ہیں۔ ان سوالات کو فکری سطح پر دیکھنا، سمجھنا اور ان کے جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ بعض ایسے سوالات بھی ہیں جو نئے اور پرانے خیال کی آمیزش اور ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ سفر کرتے رہتے ہیں اوراسی طرح ادب کا سفر جاری رہتا ہے۔ کسی بات پر اصرار کرنایا کسی بات کو بار بار اٹھانا غلط نہیں مگر فکری اورنظری طور پر ذہن کا رک جانا یا ایک ہی سمت میں مرکوز ہوجانا بھی ٹھیک نہیں۔ باذوق اور ہوشمند قاری فکری مسائل سے گھبراتا نہیں ہے۔ فکری مسائل سے گھبرانا ایک معنی میں نئے خیال سے گھبرانا اور بھاگنا ہے۔ مسائل کے تعلق سے مسلسل غوروفکر کرنا ادبی نقطۂ نظر سے خود کو تازہ اور با خبر رکھنا ہے۔ فکروخیال کی دنیا اس صورت میں سمٹنے لگتی ہے جب ہم نئے میلانات کا استقبال نہیں کرتے، فراق کے شعر کا متکلم ادب کی اسی بہتے ہوئے پانی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پرانا خیال بھی اسی وقت نیا اور بامعنی معلوم ہوتا ہے، جب اسے دیکھنے کا زاویہ نیا ہو۔ نئے میلانات سے قدیم سرمائے کی نئی تعبیر ممکن ہے ۔ نئے خیال کا تعلق تخلیق سے بھی ہے اور تنقید سے بھی۔ فراق نے اگر نئے خیال کی بات اپنے تعلق سے کہی تھی، تو بھی اس میں ہمارے لیے عبرت کا سامان موجود ہے۔ فراق کا خوف فراق کی طاقت بن گیا۔
فراق کی شاعری اور فراق کی تنقید میں نئی حسیت کی تلاش مشکل نہیں لیکن اس کی موضوعاتی خانہ بندی دشوار ہے۔ نئی حسیت کا رشتہ پرانی حسیت سے کہاں اور کتنا ہے، اسے سمجھنے کے لیے سنجیدہ مطالعہ کی ضرورت ہے۔ فراق کے یہاں نئے خیال کا مطلب پرانے خیال کو اپنی نظر سے دیکھنا ہے۔ اگر اپنی یہ نظرنہ ہوتی تو فراق کے نئے خیال کو ترقی پسندی اور جدیدیت کے خانہ میں رکھ کر ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا جو دوسروں کے ساتھ کیا گیا۔ فراق کی نئی حسیت کا ایک حوالہ ان کا یہ شعر بھی ہے۔
ہر نظارے میں ہر حقیقت میں
نظرآتا ہے کچھ تضاد مجھے
فراق کے جس شعر سے گفتگو کا آغاز کیا گیا ہے، اسے انیسویں صدی کے نوآبادیاتی فکر کے سیاق میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سرسید اور ان کے رفقا کے لیے نیا خیال تکلیف کا سبب نہیں تھا۔ جتنی آسانی سے ان حضرات نے نئے خیال کا بوجھ اٹھایا ہے، اس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ۔ مابعد نوآبادیاتی مطالعہ دراصل انگریزوں کے ذریعہ لائے گئے نئے خیال کی طرف اردو دانشوروں اور قلمکاروں کی مرعوبیت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا نیا ادب ہے۔ حالی کا مقدمہ، سرسید کی تحریریں، محمد حسین آزاد اور نذیر احمد وغیرہ کی تحریریں نئے خیال کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے کی مثالیں ہیں۔ لیکن ایک قاری کی حیثیت سے ہمیں اس داخلی کرب کو بھی محسوس کرنا چاہئے جس سے یہ حضرات گزرے تھے۔ اپنی ادبی اورتہذیبی روایت کے تعلق سے انتخابی رویہ اختیار کرنا بظاہر جتنا آسان دکھائی دیتا ہے، اتنا آسان نہیں ہے، اسی لیے نوآبادیاتی فکر کبھی دوہرے شعور کو جنم دیتی ہے۔ نئے اور پرانے خیال کے درمیان ایک جنگ جاری رہتی ہے۔ لہٰذا ایک معنی میں سرسید اور ان کے رفقا کے لیے بھی فراق کا یہ شعر پڑھا جاسکتا ہے۔
فراق کے اس شعر سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہر نئے عہد کا حساس ادیب و فنکار کہہ رہا ہو کہ’’ نئے خیال کی تکلیف اٹھی ہے مشکل سے‘‘ یہ ایک شعر مختلف ادوار کی ادبی، علمی اور تہذیبی تاریخ کا استعارہ بن جاتا ہے۔ سرسید کی جدیدیت کا مطالعہ مختلف زاویوں اور حوالوں سے سامنے آچکا ہے۔ ان مطالعات میں فراق کی یہ آواز بھی سنی جاسکتی ہے۔ روایت کو رد کرنا بظاہر آسان معلوم ہوتا ہے جیسا کہ اس کا ذکر آچکا ہے۔ ایک قاری کی حیثیت سے اس کرب کو بھی محسوس کرنا چاہیے جو عہد سرسید کے ادیبوں اور قلم کاروں کے یہاں کہیں پوشیدہ ہے تو کہیں واضح۔ نئے اور پرانے خیال کے ٹکراؤ سے فائدہ تو ادب ہی کا ہوتا ہے۔ تضاد، تخالف، کشمکش اچھے اور بڑے ادیب کا وسیلہ تو بنتا ہے مگریہ بات بہت اہم ہے کہ ا ن کیفیات سے گزرنے والی شخصیت کون ہے۔ فراق کے اس شعر کو ذرا مرکز سے ہٹا کر تو دیکھئے۔ مرکز اکثر اوقات ذہنی و فکری آسودگی کا اعلامیہ بن جاتی ہے۔ ایک مرکز کا رشتہ دیگر مراکز سے بھی ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے۔مانوس اشیا کو ذرا فاصلے سے دیکھیے تو وہ کچھ مختلف نظر آئیں گی۔ کسی مفکر نے کہا تھا کہ جو شئے جتنی قریب ہوتی ہے اتنی کم دکھائی دیتی ہے۔ مانوس اشیا، خیالات اور تصورات سے تھوڑی سی نامانوسیت کا احساس پیدا ہوجائے تو نئے خیال کی معنویت روشن ہوجائے گی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ پرانے متن کو اگر آپ نئی نظر سے نہیں دیکھ سکتے تو یہ دیکھنے والے کی محرومی ہے اور اس کے نتیجے میں متن کی بھی ۔ساسر اور دریدہ کے تصور انسان اور تصور معنی سے بھی اسی صورت میں استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔اردو میں اس کی روشن مثال ضمیرعلی بدایونی کی کتاب ’’ جدیدیت اور مابعد جدیدیت‘‘ اور ناصر عباس کی تازہ ترین کتاب ’’ اردو ادب کی تشکیل جدید‘‘ ہے۔