(قاسم یعقوب)
کتاب کلچر کا زوال ہمارے معاشرے کا اہم سانحہ ہے۔ کتاب سے دوری اصل میں اُس تہذیبی سرگرمی کی موت ہے جس نے انسانی قدروں کی اعلا شکل کو محفوظ کیا ہوا تھا۔ ہمارے معاشرے میں کتب بینی اب ضرورت کے جبر (Coercion)سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ ضرورت تہذیبی نہیں بلکہ ترسیلی ہے۔ کتاب ایک Tool ہے جومعلومات کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر کتاب اِس میکانیاتی عمل کا حصہ نہیں تو یہ بے کا ر شے ہے۔ ہم نے اِس ’’آئیڈیالوجی‘‘ کا عملی مظاہرہ لائبریریوں میں براہِ راست مصرف نہ بن سکنے والی کتابوں کو گرد پہنا کے کیا ہے۔ ہماری نئی نسل لائبریریوں یا کتابوں کا رُخ ’’دو اور لو‘‘کے فارمولے پر کرتی ہے، یعنی کتاب کی طرف رجوع کرنے سے پہلے یہ سوچا جائے کہ یہ ہمیں کیا دے سکتی ہے ؟اس تقسیم کے تحت وہی کتابیں منظر پر رہ گئیں جو ہمارے سماجی تناظر کے معروضی سطح کا حل پیش کر رہی تھیں۔
گویا کتاب پڑھی توجا رہی ہے مگر کمرشل بنیادوں پر۔۔۔ کیا یہ زوال یا تبدیلی صرف ہمارے ہاں ہی آئی ہے یا ساری دنیا میں اسی صارفیت کا رونا رویا جا رہا ہے ؟ اس کا جواب تلاش کرتے ہوئے ہمیں حیرانی ہوتی ہے کہ یہ تبدیلی دنیا بھر میں آئی مگر ہمارے ہاں یک طرفہ آئی۔ اگردنیامیں کتاب کی کمرشل قیمت (Value) بڑھی ہے تو ساتھ ہی اِس کی تہذیبی قدر و قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تہذیبی سرگرمی جو پہلے ہی کچھوے کی چال چل رہی تھی، اس ’’کمرشلزم‘‘ کے ہاتھوں بالکل ہی Dump ہو کے رہ گئی ہے۔ یورپ میں اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں صورتِ حال یک سر مختلف ہے۔ اورہان پامْک کے ناول اور حال ہی میں نوبیل انعام پانے والی ادیبہ ڈورنگ لیسنگ کا سائنس فکشن دنیا بھرمیں لاکھوں کی تعداد میں بک رہا ہے۔ پایلو کولہو، سٹیفن ہاکنگ، اوشو، گبریل گارشیا مارکیزاورڈیل گانیگی کی کتابیں روزانہ ہزاروں میں فروخت ہوتی ہیں۔ یہ تو خیر نوبیل انعام یافتہ اور مشہور لکھاریوں کی بیسٹ سیلر کتابیں ہیں، اِن ممالک میں کم درجہ تخلیقی کتابی تجربہ بھی ایک ایڈیشن ایک دو ہزار میں شائع ہو ہی جاتا ہے۔
یہ بڑا اہم سوال ہے کہ کتاب کلچر کو کس طرح فروغ دیا جائے؟ فروغِ کتاب بینی کے لیے کس طرح کے اقدامات سود مند ہو سکتے ہیں ؟
کتاب کلچر اصل میں تعلیمی سرگرمی ہے مگر افسوس کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں کتب بینی محض ضرورت ہے کلچر نہیں۔ ہمارا ٹیچر کتاب کے ترسیلی مفہوم سے آگے نہیں بڑھتا،اُسے ا س کی ضرورت ہی نہیں۔ تعلیمی اداروں میں کتاب کلچر کو تہذیبی ضرورت کے تحت اپنایا جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مذہبی کتب بینی اُتنا ہی فروغ پا رہی ہے جتنا غیر مذہبی میدانوں میں کتاب زوال کا شکار ہے۔ شاید وہاں اِسے ایک ’’روحانی‘‘ ضرورت کے تحت قبول کروا لیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے کتاب کو سستا کرنے کا مطالبہ ہونا چاہیے۔ کتاب اِتنی مہنگی ہے کہ عام قاری کی پہنچ سے دور ہے۔ چند پبلشرز جس طرح لوٹ کا بازار گرم رکھے ہوئے ہیں ان کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ لکھاری خود بھی اس سلسلے میں ذمہ دار ہے جو اپنی کتابوں کی زیادہ قیمت رکھ کر یا رکھوا کر کتاب کلچر کے زوال کا باعث بن رہا ہے۔ دوسرے نمبر پر کتاب کی دستیابی کا عمل بھی ناگزیر ہے۔ درسی کتب کے علاوہ کتنی کتب بک سٹال تک رسائی رکھتی ہیں ؟ہمارے بک سٹالز محدود اور سطحی موضوعات کے علاوہ ایسے آئٹمز کو ترجیح دیتے ہیں جو کسی کلچر سازی میں معاون بننا تو دور کی بات کتاب کی ترسیلی ضرورت بھی پوری کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
کچھ سال پہلے زاہدہ حنا نے اپنے ایک کالم میں ادبا کے کتب خانوں کو مرکزِ گفتگو بنایاتھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ مشفِق خواجہ صاحب نے اپنی زندگی ہی میں اپنے مشہورِ زمانہ کتب خانے کو شکاگو یونیورسٹی کی ساؤتھ ایشیا لائبریری کے حوالے کر دیا تھا۔ وہ لکھتی ہیں:
’’مشفِق خواجہ صاحب کی زندگی میں اُن کا بیش بہا علمی ذخیرہ شکاگو یونیورسٹی کے حوالے ہوا۔ اِس کام میں مشہور ادیب سی ایم نعیم اور پروفیسر محمد عمر میمن بھی جناب انور نعیم کے شریکِ کار رہے۔ خواجہ صاحب کی شرط تھی کہ اُن کا علمی ذخیرہ کراچی شہر میں ہی رہے۔ سو اُن کی شرط مان لی گئی اور اِس نادر ذخیرہ کی ڈیجیٹل کیٹلاگنگ ہو رہی ہے۔ شکاگو یونیورسٹی نے کراچی میں ہی ایک بڑا گھر کرایے کا لے لیا ہے۔۔۔ چند مہینوں بعد یہ علمی ذخیرہ شہر اور برصغیر کے عالموں اور محققین کے کام آئے گا۔ اِس ذخیرے کی ملکیت شکاگو یونیورسٹی لائبریری کی ہو گی اور استفادہ ہم کریں گے۔‘‘
کتاب کلچر کے فروغ میں ادبا کی ذاتی لائبریریوں کا ذخیرہ بہت کام آتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کتاب کی دستیابی بھی کتب بینی کو فروغ دیتی ہے یہ امر بھی اپنی جگہ ایک نیا سوال ہے کہ اب ہمارے ذاتی کتب خانے جس طرح نہیں ہوتے اُسی طرح نابغۂ روزگار اپنے کتب خانوں کو پاکستانی لائبریریوں کے حوالے کرنے سے کترا رہے ہیں۔ کتاب کلچر کے زوال کی زد میں صرف تہذیبی عمل نہیں آیا ہوا بلکہ وہ کتب خانے بھی اپنا رونا رو رہے ہیں جو کبھی علم پرور احباب میں ایک زندگی کا درجہ رکھتے تھے۔ زاہدہ حنا لکھتی ہیں:
’’میرے بعد میری کتابوں کا کیا ہو گا ؟ ایک بہت اہم سوال ہے جو اُردو ادیبوں کے ذہنوں کو پریشان رکھتا ہے خواہ وہ برصغیر میں رہتے ہوں یا یورپ، امریکہ یا کینیڈا میں۔ پشاور کے خاطر غزنوی سے، ہندوستان کے علی سردار جعفری، کیفی اعظمی اور ٹورنٹو کے بے دار بخت تک سب کی ایک کہانی ہے۔ وہ عالم و ادیب جنہوں نے اپنی خواہشوں اور اپنے گھر والوں کی آسائشوں کو قربان کر کے کتابیں خریدیں، انہیں سینے سے لگا کر رکھا، اب پریشان پھرتے ہیں کہ ان کے بعد ان کی کتابیں کس کے گھر جائیں گی؟ کہیں وہ ردّی کے بھاؤ نہ بکیں، یا فٹ پاتھ پر نہ رکھ دی جائیں کہ جس کا جی چاہے انہیں اٹھا کے لے جائے۔ یہ وہ دِل دوز واقعات ہیں جن میں اپنی ادیب دوستی اور علم پروری کا ’’چہرہ‘‘ نظر آتا ہے۔‘‘
کتاب کلچر کے زوال میں ہمارے ذاتی کتب خانے بھی ہیں۔ ہم کتاب جمع کرنا بھول گئے ہیں یا ہمیں کتاب پڑھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ دوسری طرف جمع کی ہوئی کتابوں کا کیا کیا جائے کون دوبارہ اِس کلچر کو اسی جذبے کے ساتھ جاری رکھے گا جس جذبے کے ساتھ یہ جمع کی گئی تھیں۔
خوب۔ یہ کالم تو میرے بھی حسبِ حال ہے۔ آپ تو عمر رسیدہ ادیبوں کا دکھ بیان کر رہے ہیں مگر ایک نوجوان طالب علم اور قاری کے طور پہ یہ میرا بھی دکھ ہے۔ دو تین الماریوں میں موجود کتابیں بڑھتی جاتی ہیں۔ کتاب پڑھنے سے زیادہ تو کتاب خریدنے کی ہوس ہے۔ میرے بعد ان کا کیا ہوگا؟َ مجھے نہیں معلوم۔ مگر پھر سوچتا ہوں کہ باقی وراثت کا بھی تو ورثا کچھ کرتے ہی ہیں نا! اس کا بھی کچھ کر لیں گے۔ یہ دکھ مجھے کتاب خریدنے سے باز نہیں رکھ سکتا۔