(اصغر بشیر)
معاشیات کا سادہ سا اصول ہے کہ ایک کاروبار اس وقت تک چلایا جاتا ہے جب تک اس سے منافع حاصل ہوتا ہے لیکن جب منافع کے بجائے خسارہ ہونے لگے اور اس خسارے کو پورا کرکے منافع کی طرف لانے کی سکت بھی نہ رہے تو بہتر ہے کہ اس کاروبار کی سابقہ سرگرمیوں کو تبدیل کیا جائے۔ لیکن جب بات اپنی جان پر آجائے تو ایک لمحہ سوچنے سے بہتر ہے اس کو روک دیا جائے۔ یقیناً ہم اجتماعی طور پر اور پی آئی اے PIA انفرادی طور پر اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ اپنے عین وجود پر سوالیہ نشان بنا سکتے ہیں۔ پی آئی اے کا جائزہ بتائے گا کہ کیسے یہ ایک خواب تھا جو اب ہمارا خون کرنے پر تل گیا ہے۔
پی آئی اے کی موجودہ صورت حال دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں کرسکتا کہ یہ کبھی دنیا کی بہترین ائیر لائن سروس رہی ہوگی۔ مارچ 1962ء کی لندن میں کھینچی گئی پی آئی اے کے عملہ کی امریکی صدر جے ایف کینیڈی کے ساتھ تصویر ہماری قومی ائیر لائن کے اس شاندار ماضی کی طرف اشارہ کرتی ہے جو پوری دنیا میں ہمارے ملک کے نام کو روشن کرنے کے لیے کافی تھا۔ بچپن میں ہمارے لیے شان سے سینہ پھلانے کے لیے یہ بات کافی تھی کہ ہماری ائیر لائن دنیا کی پہلی کمپنی ہے جس کو فلموں میں انٹرنیشنل ائیر لائن کے طور پر پیش کیا گیا۔ پی آئی ائے کے ساتھ جڑنا اور اس کے ساتھ کام کرنا ترقی یافتہ اقوام کے لیے کتنا اہمیت کا حامل تھا اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے یہ حقیقت کافی ہے کہ 1975ء میں پی آئی اے کی وردی کے لیے چناؤ کے لیے کھلا مقابلہ کروایا گیا جس میں جیتنے والی انٹری سر ہارڈی ایمیز کی طرف سے تھی جو کہ ملکہ ازبتھ دوم کے ذاتی ڈیزائنر تھے۔ صرف یہی نہیں پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن PIAکا عملہ اس قابل تھا کہ دوسرے ترقی پذیر ممالک کو عملی تربیت مہیا کر سکتا تھا ۔ صومالی ائیر لائنز، فلپائن ائیر لائنز،ائیر مالٹا، اور یمنیا یہ وہ کمپنیاں ہیں جن کی ابتدائی تربیت پی آئی اے نے کی تھی۔ یہی نہیں متحدہ عرب امارات کی عرب ایمریٹس کی بنیاد اور عملی تربیت میں بھی پی آئی اے کا بنیادی ہاتھ تھا۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ وہ کون سی خصوصیات تھیں جن کی وجہ سے ہماری قومی ائیر لائن کو دنیا میں باوقار مقام حاصل تھا؟
اگر غور کیا جائے تو اس وقت پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کی عظمت کا راز اس سہولیات سے لدھے جہاز یا عیاشی کا سامان نہیں تھا بلکہ عملے کی وہ سروس تھی جس کی پوری دنیا دلدادہ تھی ۔یہی وہ چیز تھی جو پوری دنیا کو ہماری ائیر لائن سے باندھے ہوئے تھی۔سیاسی مداخلت، اقرباء پروری اور حکومت کی ادارے کی بنیادی ضروریات سے عدم دلچسپی سے جہاں سروس میں کمی واقع ہوئی ہے وہیں پر عملے کی لگن اور رویے بھی تبدیل ہوگئے۔ ہمارے دبئی سے آنے والے دوست بتاتے ہیں کہ پی آئی اے کا کرایہ دوسری کمپنیوں جتنا ہے مگر سہولیات نہیں ہیں۔ اوپر سے کھانا پھیکا اور بدمزہ ہوتا ہے۔ یہی نہیں عملے کا رویہ ایسے ہوتا ہے جیسے انہوں نے ہمیں ٹکٹ دے کر ہم پر احسان کیا ہے۔ اگر اس رویے کو دوسری سرکاری اداروں پر لیا جائے تو یہ بات بالکل حقیقت محسوس ہوتی ہے کہ کوئی دور تھا کہ ٹیلی فون کا کنکشن لگوانے کے لیے رشوت کےساتھ ساتھ منتیں کرنا بھی شامل تھا ۔ پھر بھی یہ لائن مین کی مرضی ہوتی تھی کہ وہ کس دن وقت نکال کر ٹیلی فون کا کنکشن لگانے کا احسان کرتا ہے۔ یہی بات سرکاری تعلیمی اداروں پر بھی فٹ نظر آتی ہے کہ پنجاب حکومت کا ایک بچے کی تعلیم پر اوسط خرچہ بارہ سو روپے ماہانہ آتا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں کسی پرائیویٹ ادارے کی کارکردگی دیکھی جائے جو کہ اتنی فیس لے رہا ہوتو یقیناً اس کی کارکردگی سرکاری سکولوں کی کارکردگی سے بہتر ہوگی۔
پی آئی اے PIA کی کارکردگی کا ترکش ائیر لائن سے تقابلی جائزہ لیا جائے یہ صورت حال نظر آئے گی۔
موازنہ ترکش ائیر لائن PIA پی آئی اے
ملازمین 18844 19000
فلیٹ 296 38
منازل 282 67
منافع 8.2بلین امریکی ڈالر 238 ملین امریکی ڈالر خسارہ
پی آئی اے کی اس حالت زار کی ذمہ دار یقیناً ہماری حکومتیں رہیں ہیں ۔ جن کی من مرضی کی بھرتیاں اور اس پر مستزاد یہ کہ فرضی بھرتیاں یعنی آسامی تو موجود ہے اس پر تنخواہ بھی جاری ہو رہی ہے لیکن وہ ملازم کسی نے نہ کبھی دیکھا اور نہ ہی اس کے بارے میں کسی کو علم ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر حکومت اس کو پرائیوٹائز کرنے کا سوچتی ہے تو یقیناً اس سے عوامی فلاح کا عنصر نکل جائے گا اور اس کا واحد مقصد پیسہ بنانا رہ جائے گا۔ یہ سفید ہاتھی ہے اس کو جنگل میں چھوڑ دینا بہتر ہوگا۔ وگرنہ ہمارے بوڑھے نہروں کے بارے میں مشہور کرتے تھے کہ وہ ہر سال ایک آدمی لیتی ہے، اسی طرح پی آئی اے کے متعلق یہ نہ مشہور ہو جائے کہ یہ انسانی خون کے بل بوتے پر چلتی ہے۔
ادارے تو ایک سال کے اندراندر سدھرسکتے ہیں ، افسوس یہ ہے کہ کسی کو سدھار سے دلچسپی نہیں ۔ اس کی ایک وجہ ذاتی مفاد بھی ہے ، اگر پی آںُی اے پھر سے نمبرون فضاںُی کمپنی بن جاے تو ایک وفاقی وزیر کی ذاتی کمپنی ایںُر بلیو کا کیا بنے گا ؟ بھوجا ایںُر لاںُن والابھی تو اپناہی بندہ ہے اس کی کمپنی بند ہوگںُی تو پارٹی الیکشن مہم کےلیے اربوں روپے فی سبیل للہ کون دے گا ؟ زرداری صاحب بھی انڈس ایںُر لاںُن سے جڑے ہیں ان کوناراض کردیاتو جمہوریت خطرے میں پڑ جاے گی ؟؟؟؟ اور تو اور ہمارے ازلی دوست ملک ترکی کی ترکش ایںُر لاںُن کو اگر domestic airports کے لیے پروازوں کی اجازت بھی اس سےمتاثرہونےکاشدید خطرہ ہے ، لہذہ بندے تو مرتےہی رہتےہیں ، بندوں کےمرنے سے ہم اپنی ہواںُی کمپنی کو ٹھیک کرکے اتنے زیادہ خطرات مول نہیں لےسکتے ۔