(نجیبہ عارف)
۲۵ نمبر بس کی کھڑکی سے
ایسٹ لندن کا علاقہ ایک طرح سے ایشیائی ملک ہی لگتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا اعلیٰ نظام تو ضرور موجود ہے اور انڈر گراؤنڈٹیوب لائنوں، ٹرینوں اور بسوں کا جال بچھا ہے لیکن ہر طرف ایشیائی پن بکھرا ہوا ہے۔ الفرڈ (Ilford) اور گرین سٹریٹ (Green Street) کے علاقے میں آکر تو لگتا ہے کہ انارکلی یا اچھرے پہنچ گئے ہیں۔ میں شاہدہ باجی کے گھر سے نکل کر رومفرڈ روڈ (Romford Road) پر صبا اور ثاقب کے گھر میں منتقل ہو گئی تھی۔ شاہدہ باجی کا گھرپبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کے حوالے سے زیادہ آرام دہ نہیں تھا۔ ہرروز، سنٹرل لندن تک پہنچنے کے لیے سوا سے ڈیڑھ گھنٹہ درکار ہوتا۔ پھر ان کا اصرار رہتا کہ میں اتنی سردی میں بس اسٹاپ پر کھڑے رہنے کی بجائے، ان کی اسٹیشن چھوڑ آنے کی دعوت قبول کر لوں۔ مجھے روزصبح صبح انھیں یہ تکلیف دینا گوارا نہ تھا۔ اس لیے ان کی اور تمام گھر والوں کی محبت اور خلوص کے باوجود، میں نے اسد سے کہا کہ میرے لیے کوئی اور کمرہ ڈھونڈ دے۔ اس نے مجھے یہاں ٹھہرا دیا تھا۔ ثاقب اسد کے پرانے دوستوں میں تھااور ان کے ہاں ایک کمرہ خالی بھی تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہ جگہ پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے انتہائی عمدہ تھی۔ گھر کے دروازے سے نکلو تو چند گز کے فاصلے پر دائیں اور بائیں دونوں طرف بس اسٹاپ تھے، جہاں سے ۲۵ نمبر بس سیدھی سنٹرل لندن تک جاتی تھی۔ اور اگر زیر زمین ٹرین پکڑنا چاہو تو دو بسیں ہر تین تین منٹ کے بعد یہاں سے گزرتی تھیں جو پانچ منٹ میں سٹریٹفرڈ اسٹیشن پہنچا دیتی تھیں۔سٹریٹفرڈلندن کے بڑے ریلوے اسٹیشنوں میں سے ایک تھا جہاں سے ٹرینیں، ٹیوب اور بسیں شہر کے کونے کونے میں جاتی تھیں۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے یہاں لندن کا سب سے بڑا شاپنگ مال ویسٹ فیلڈ بھی تعمیر ہوا تھا جو لندن اولمپکس ۲۰۱۲کی یادگار ہے۔ یہ جدید ترین شاپنگ مال پورے لندن کی باسیوں کو یہاں کھینچ لاتا ہے۔ اسی سے منسلک سٹریٹفرڈ سنٹر بھی ہے ، جہاں سے کم قیمت اشیا بھی خریدی جا سکتی ہیں۔
رومفرڈ روڈ ایک خاصی کشادہ سڑک ہے جس کے دونوں طرف کبھی گھر ہوں گے لیکن اب ان میں سے بیشتر گھر کسی نہ کسی کاروباری مرکز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ کئی ایک تومہمان خانے بن چکے ہیں، کچھ نجی اسکولوں میں تبدیل ہو چکے ہیں،مثلاً ہماری بلڈنگ سے چند گز آگے مسلم لڑکیوں کا ایک بہت مشہور اسکول ہے۔تھوڑا سا اور آگے جائیں تو گرین اسٹریٹ نامی بازار ہے جہاں دکانوں کے نام اور بورڈ بھی اردو یا ہندی میں ہیں۔شیشوں کے اندر ڈمیوں نے شلوار قمیض، غرارے، پاجامے اور ساڑھیاں زیب تن کر رکھی ہیں۔ریستورانوں میں حلوہ پوری اور پائے نہاری کے بورڈ لگے ہیں۔ شام کے بعد تکے کبابوں کی خوشبو پورے علاقے میں پھیل جاتی ہے اور ہر چار قدم کے فاصلے پر کوئی نہ کوئی ’’حلال بچر‘‘ مل جاتا ہے۔ فٹ پاتھ پر چلنے والوں میں کوئی ’’فارنر‘‘ کم ہی نظر آتا ہے۔ ایشیائی اور نیگرو چہرے ہی ہر طرف دکھائی دیتے ہیں اور اگر آپ کو انگریزی نہیں آتی تو فکر کی کوئی بات نہیں، اردوے معلّیٰ، ہندی، لاہوری، امرتسری، حیدر آبادی، تیلگو، جس لہجے میں چاہیں، بات کریں۔ راستہ پوچھیں، کھانے پینے کی معلومات حاصل کریں، خریداری کے بارے میں ہدایات لیں۔ شاید کسی زمانے میں یہ اعزاز صرف ساؤتھ ہال کو حاصلؒ تھا، اور بلاشبہ اب بھی ایشیائی، خصوصاً سکھ برادری کے افراد کی سب سے زیادہ تعداد وہیں ملتی ہے لیکن ایسٹ لندن کا یہ علاقہ بھی ایشیائی اور افریقی برادری کا گڑھ بن چکا ہے۔
اسی سڑک کے شروع میں یونی ورسٹی اوف ایسٹ لندن کی عمارت بھی ہے۔ یہ وہی یونی ورسٹی ہے جہاں کبھی عارف زیر تعلیم رہے تھے۔ مجھ سے میرے نئے پتے کے بارے میں سنتے ہی وہ مضطرب ہو گئے۔ گوگل کر کے انھوں نے اس سڑک کا سارا احوال دیکھ لیا اور حیران ہوتے رہے کہ اکیس بائیس برس میں یہ جگہ کس قدر بدل گئی تھی۔
میں جس اپارٹمنٹ میں منتقل ہوئی تھی،وہ یونی ورسٹی اوف لندن سے ذرا آگے واقع ایک بلڈنگ کی چوتھی منزل پر تھا۔ اس کے بالکل متصل ایک نرسنگ ہوم تھا جو دراصل متروک بوڑھوں کی جائے پناہ تھی۔ آتے جاتے میں اس نرسنگ ہوم کے کشادہ صحن میں ضرور جھانکتی، جہاں ہر وقت ایک نہ ایک ایمبولینس گاڑی کھڑی رہتی تھی، مگر کبھی کسی مکین کی شکل نظر نہ آئی۔ ثاقب نے بتایا کہ کرسمس یا کسی اور تہوار کے علاوہ، یہاں کبھی کسی کو آتے جاتے نہیں دیکھا گیا۔ بس یہ ایمبولینس ہی یہاں حرکت اور زندگی کی واحد نشانی ہے۔
’’پتا نہیں ، زندگی کی یا زندگی کے اختتام کی۔۔۔‘‘۔ سہم کر میں نے سوچا۔
بلڈنگ کی سیڑھیوں کی دائیں جانب والی کھڑکی سے کئی بار میں نے اس عمارت کے اندر جھانکنے کی کوشش کی مگر مجھے کبھی کوئی چہرہ دکھائی نہ دیا۔ روز میرا جی چاہتاکہ دروازہ کھٹکھٹا کر اندر چلی جاؤں اور جا کر ان بوڑھوں سے باتیں کروں، ان کی کہانیاں سنوں۔ ان کی زندگی کے تجربوں کا نچوڑ کیا ہے؟ عمر بھر کی جدوجہد، بھاگ دوڑ اور تگ و دو کا حاصل کیا ہے؟ اگر انھیں دوبارہ موقع ملے تو وہ کیسے جیناچاہیں گے؟ یہاں ان کا دن کیسے گزرتا ہے اور رات کس طرح کٹتی ہے؟ کس کس کا انتظار رہتا ہے؟ کون کون سے چاند ان کی یادوں کے آسمان پر دمکتے ہیں؟ وہ سب کہاں ہیں جن سے انھوں نے محبت کی تھی؟ جنھوں نے ان سے محبت کے د عوے کیے تھے؟دنیا اب انھیں کیسی لگتی ہے؟
یا پھر کچھ بھی نہ پوچھوں، شاید یہ سب ان کی آنکھوں میں پہلے ہی سے لکھا ہوا ہو۔ میں بس ان کے پوپلے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر انھیں احساس دلاؤں کہ وہ ابھی زندہ ہیں۔ ان کی لٹکتی ہوئی جھریوں کو انگلی کی پوروں سے چھوؤں اور چپ چاپ ان کے پاس بیٹھی رہوں۔ یہاں تک کہ وہ مجھے اپنا ساتھی سمجھ لیں۔
’’لیکن کب تک۔۔؟ اگر تمھیں وہ اپنا ساتھی سمجھ بھی لیں تو کیا، تمھیں بھی تو جانا ہے۔ تمھارے بھی تو سو کام ہیں۔ کب تک بیٹھی رہو گی، آخر اٹھ جاؤ گی۔ پھر وہ اور تنہا ہو جائیں گے۔ تمھیں یاد کریں گے۔ کہیں گے، ایک ایشیائی آئی تھی، بڑی ہم درد تھی، بڑی محبتی تھی، تمھاری انا کو تسکین مل جائے گی مگر ان کے درد کا مداوا نہیں ہو گا۔ چھوڑ دو یہ ڈھونگ۔۔۔۔اب تو تم خود اس نرسنگ ہوم میں رہنے والی عمر کے کنارے پہنچ گئی ہو بی بی!کارِ جہاں میں مداخلت کے ارادوں سے باز آجاؤ۔ زندگی کو اپنی رفتار، اپنے انداز سے چلنے دو۔ یہ کائنات تمھارے خیالوں، تمھارے عزائم کی پرواز تک محدود نہیں ہے، اس کی منطق کو سمجھنے کی خواہش رکھناتو جرم نہیں ہے، کوشش کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں، لیکن اپنی حدود سے باخبر رہنا بھی تو ضروری ہے۔‘‘
یکے بعد دیگرے، اندر والے سے کئی طمانچے کھا کر میں نے سیڑھیوں کی دائیں ہاتھ والی کھڑکی سے نظر ہٹا لی۔ بائیں جانب گاڑیوں کی ورکشاپ تھی جہاں ہر وقت استعمال شدہ گاڑیاں فروخت کے لیے کھڑی رہتیں۔ ان میں نہایت قیمتی اور عمدہ گاڑیاں بھی ہوتیں اور بالکل کھٹارہ، چوں چوں کا مربہ قسم کی کاریں بھی۔ یہاں کار خریدنا مشکل نہیں ہے، کار رکھنا مشکل ہے۔ پٹرول کی قیمت تو جو ہے سو ہے، سب سے بڑا مسئلہ پارکنگ کا ہے۔ نہ تو آپ ہر جگہ گاڑی کھڑکی کر کے جا سکتے ہیں، نہ ہر جگہ پارکنگ لاٹ موجود ہیں اور جہاں ہیں، وہاں بھی گھنٹے کے حساب سے پیسے دینے پڑتے ہیں۔ غلط پارکنگ کر کے تو دیکھیں، یا پھر ٹکٹ لیے بغیر گاڑی پارک کر جائیں۔ واپسی پر آپ کی گاڑی پر چالان کا ٹکٹ چسپاں ہو گا۔ سپاہی منتظر ملے گا ، نہیں تو ڈاک کے ذریعے گھر کے پتے پر چالان کا نوٹس موصول ہو جائے گا۔ مقررہ مدت کے اندر جرمانہ جمع نہ کروایا تو جرمانے کی رقم دگنی ہو جائے گی اور پھر بھی نہ جمع کروایا تو بس سمجھ لیجیے کہ برے دن آگئے۔ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا ویسے ہی انتہائی دشوار ہے۔ میرے وہاں ہوتے ہوئے، میں نے کئی نوجوانوں کو تیسری تیسری بار ڈرائیونگ ٹسٹ میں ناکام ہوتے دیکھا۔ اور یہ ناکامی معاشی طور پر بھی بہت مہنگی پڑتی ہے۔ ٹسٹ کی فیس ، پھر اگر مشق کرنی ہو تو تربیت کی فیس، اور یہ سب ہو جائے تو ٹسٹ کی تاریخ لینا ایک اور مرحلہ ہے۔ اگر آپ کام کرتے ہیں، اور تقریباً سبھی کام کرتے ہیں تو اپنی چھٹی کے دنوں میں تربیت لینے اور ٹسٹ دینے کے لیے کئی کئی ہفتے انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی لیے جب ایک دفعہ ڈرائیونگ لائسنس مل جائے تو ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہوجائے جس سے لائسنس پر زد پڑتی ہو۔ قانون کی پابندی کی دوسری بڑی وجہ جرمانے کی رقم ہے جس سے جان چھڑانا ناممکن ہے۔ سزا میں بغیر کسی معقول وجہ کے، نرمی ہوتی ہے نہ کوئی استثنا ملتا ہے۔ بعض اوقات لوگ کسی جرمانے کے فیصلے کے خلاف اپیل کر دیتے ہیں لیکن ایسی اپیلیں بھی صرف اس وقت کا میاب ہوتی ہیں جب ملزم کے مؤقف میں واقعی صداقت ہو، جسے ثابت بھی کیا جاسکے۔ بصورت دیگر، جرمانہ بھرنا ہی پڑتا ہے۔
مغرب میں قانون کے احترام کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہاں قانون کے نفاذ میں کوئی رو رعایت روا نہیں رکھی جاتی۔ غلط موڑ کاٹ کر، ٹریفک کا اشارہ توڑ کر، یک طرفہ سڑک کے قاعدے کی خلاف ورزی کر کے، کوئی بچ نہیں سکتا۔ خودکار کیمرے جگہ جگہ نصب ہیں، اس لیے یہ خیال کہ سپاہی کو جل دے کر نکل جائیں گے، وہاں کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ سزا کا خوف ہی ہے، جس نے وہاں کے شہریوں کو قانون کے احترام کی عادت ڈال دی ہے۔ انھیں یقین ہے کہ جہاں قانون توڑیں گے، وہیں اس کی سزا مل جائے گی۔
ہمارے ہاں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایشیائی لوگوں میں شایدکوئی پیدائشی نقص (manufacturing fault) ہے جس کی وجہ سے ہم قانون کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور ان مغربیوں کی اس قابلِ قدر ادا کے
پس پشت ان کی شخصی عظمت اور برتری پنہاں ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ انھیں قانون کے احترام کی ایسی تربیت دی جاتی ہے کہ یہ ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے اور یہ عادت مکافاتِ عمل یا جزا وسزا کے قانون کے نفاذ سے پیدا ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں قانون سرے سے بے نیاز ہے اور اگر کبھی حرکت میں آئے بھی تو کمزور کی گردن دبوچ کر ہی نہال ہو جاتا ہے۔ اس لیے قانون کی پابندی فخر کی بجائے، کمزوری کا اظہار سمجھی جاتی ہے۔ وہاں قانون کی حکم رانی ہے اور ہر شخص کو معلوم ہے کہ قانون توڑنے کی سزا مل کر رہے گی۔ ہمارے ہاں بھی، جہاں جہاں قانون کی بالادستی یکساں طور پرتسلیم کی جاتی ہے، وہاں قانون شکنی عادت نہیں رہتی، شرمندگی بن جاتی ہے۔پاکستان میں اب ایسے کچھ ہی ادارے رہ گئے ہیں ؛ لیکن جو ہیں، ان کا نظم و ضبط کسی طرح بھی مغربی معاشرو ں سے کم تر نہیں۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ مغرب، خاص طور پر انگلستان جا بسنے والے ہمارے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ، قانون کی اس سخت گیری کے باوجود، کسی نہ کسی طرح چور راستے ڈھونڈنے میں لگی رہتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں، روزمرہ کے معاملات میں ، معاشرتی اقدار کی پاس داری میں، ایشیائی اور افریقی برادری کی اکثریت اپنے مغربی ہم وطنوں سے اب بھی پیچھے ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایسے خاندان جو نصف صدی سے انگلستان میں رہ رہے ہیں اور جن کی تیسری چوتھی نسل یہاں جوان ہو رہی ہے، ان میں سے بھی بیشترابھی تک اس معاشرے کی اقدار سے ہم آہنگ نہیں ہوئے۔ یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور الجھا ہوا معاملہ ہے جس کی کئی جہتیں ہیں اور جس کا مظاہرہ قدم قدم پر دیکھنے کو ملتا ہے۔
الفرڈ اور ایسٹ لندن کے دوسرے علاقوں کو جانے والی ٹیوب سب سے زیادہ گندی اور بدحال نظر آتی ہے۔ گھستے ہی احساس ہوجاتا ہے کہ کوئی مسئلہ ضرور ہے۔اگر ڈبے میں زیادہ تعداد میں افریقی بیٹھے ہیں تو ایک تیز بو بھی دماغ کو پریشان کرنے کے لیے موجود ہوتی ہے۔ بو نہ ہو تو بھی، ایشیائی اور افریقی دونوں طرح کی سواریاں پاؤں پھیلا کر بیٹھتی ہیں، اونچی آواز میں باتیں کرتی ہیں، خواتین اور بزرگ شہریوں کی مخصوص نشستوں پر ڈھٹائی سے براجمان رہتی ہیں، ٹشو پیپر، ڈبے اور خالی بوتلیں وہیں پھینک دیتی ہیں۔ دیواروں پر کچھ لکھنے یا خالی لکیریں کھینچنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ شاید لندن ٹرانسپورٹ والے بھی اب عادی ہو گئے ہیں اور انھوں نے ان ٹرینوں اور ان کے مسافروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ سب سے سست رفتار اور پرانی ٹرینیں ، انھی علاقوں میں بھیجی جاتی ہیں۔
بسوں کا حال بھی زیادہ مختلف نہیں ہوتا؛ پرانی یا خستہ حال تو نہیں ہوتیں لیکن سٹریٹ فرڈ سے جوں ہی آپ ۲۵ یا ۸۶نمبر کی بس میں سوار ہوتے ہیں، آپ کو علم ہوجاتا ہے کہ معاملات اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ سب سے پہلے تو بس سٹاپ پر وہی دھکم پیل دیکھنے کو ملتی ہے جو شاید پیر ودھائی کے کسی ویگن اسٹینڈ پر ملتی ہو گی۔ نہ کسی بوڑھے کا لحاظ، نہ خواتین کا احترام، ہر ایک کہنی مار کر دوسرے سے پہلے بس میں سوار ہونا چاہتا ہے اور اچھی نشست پر قبضہ جمانا چاہتا ہے۔مصروف اوقات میں تو خاص طور پر تہذیب اور شائستگی کا فقدان نظر آتا ہے۔پھر بس کے اندر کا ماحول۔ اگر کوئی شخص دو نشستوں میں سے ایک پر بیٹھا ہے تو دوسرے مسافر کے آنے پر اسے بیٹھنے سے روکنے کے لیے کھڑکی کے ساتھ والی نشست پر کھسکنے کی بجائے، باہر والی نشست پر پھیل کر بیٹھ جاتا ہے۔ اب دوسرا یا تو اس کے گھٹنوں سے رگڑ کھا کر اگلی نشست تک پہنچے یا کوئی اور نشست تلاش کرے، ورنہ کھڑے رہنے میں ہی عافیت خیال کرے۔بعض گورے بھی ایسی حرکتیں کر جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد نسبتاً بہت کم ہوتی ہے۔بس میں سوار ہونے کا قاعدہ یہ ہے کہ سب مسافر اگلے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں، ڈرائیور کو اپنا پاس دکھاتے یا ٹکٹ خریدتے ہیں اور جب اپنا اسٹاپ آجائے تو پچھلے دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں۔لیکن میں نے کئی بار دیکھا کہ کوئی مسافر موقع پاکر چپکے سے پچھلے دروازے سے اندر داخل ہو گیا اور اگر سفر کے دوران انسپکٹر سے بچ نکلا تو اپنے اسٹاپ پر اتر گیا۔ البتہ اگر انسپکٹر کے ہاتھ لگ جائے تو اگلے پچھلے سب حساب پورے ہو جاتے ہیں۔ایسی حرکتیں بھی عموماً ایشیائی یا افریقی ہی کرتے ہیں۔ ان میں ہندوستانی، پاکستانی، بنگالی اور سر ی لنکن سب شامل ہیں۔
ایک اور عجیب بات ،جو میں نے خاص طور پر نوٹ کی ، ایشیائی بچوں کی طبیعت ہے۔ ان میں سے اکثر جب ضد پر آتے ہیں توزور زور سے روتے اور چلاتے ہیں، ہاتھ پاؤں مارتے ہیں ، حتیٰ کہ بس کے فرش پر لیٹ جانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ گورے بچے بھی ضد کرتے ہیں مگر ان کی ناگواری کا اظہار ان کے چہرے کے تاثرات سے ہوتا ہے، جسمانی حرکات سے نہیں۔ چیخنے چلانے اور ہاتھ پاؤں مارنے کی نوبت نہیں آتی۔ ان کی مائیں اپنے بچوں کو گھرکتی بھی ہیں اور محبت کا اظہار بھی کرتی ہیں۔ مگر ہم ایشیائیوں کی طرح ان دونوں باتوں میں حد سے نہیں گزر جاتیں۔ نہ ان کا لاڈ پیار اس قدر بلند آہنگ ہوتا ہے، نہ غصہ اور خفگی اتنی تیز اور شدت بھری۔
یہ کیا فرق ہے؟ میں دیر تک یہ سوچتی رہتی کہ ہماری اور ان کے مزاج میں آخر کیا فرق ہے اور اس فرق کا سبب کیا ہے؟ پہلے میرا خیال تھا کہ موسم اور آب وہوا کا فرق اس کا سبب ہے۔ ہم گرم علاقوں اور استوائی خطوں کے رہنے والے لوگ اپنے سبھی جذبوں میں شدت اور حدت کا اظہار کرتے ہیں ، وہ سرد اور برفیلی فضاؤں میں رہتے ہیں، اس لیے ان کے مزاج بھی ٹھنڈے ہیں مگر یہاں آکر ایک اور سوال سامنے آن کھڑا ہوا۔ یہ لوگ جو کئی دہائیوں سے یہاں کے باسی ہیں اور ان کی اولادیں جو یہیں پیدا ہوئیں، پلیں بڑھیں، آخر ان کے مزاج میں تبدیلی کیوں پیدا نہیں ہوئی؟ کیوں آج بھی ایسٹ لندن جانے والی بس کا ماحول ، چیچوں کی ملیاں جانے والی بس کے ماحول سے ملتا جلتا ہے؟ یہ لوگ اس مغربی معاشرے میں جذب کیوں نہیں ہوئے؟ کیوں کسی سخت کوکڑو کی طرح اب تک الگ تھلگ پڑے ہیں۔ دور سے نظر آجاتے ہیں، صاف پہچانے جاتے ہیں۔
رومفرڈ روڈسے ۲۵ نمبر بس میں سوار ہوں تو سنٹرل لندن کے ہولبورن اسٹیشن تک پہنچنے میں کم از کم پچاس منٹ لگتے ہیں۔ میں ہمیشہ ڈبل ڈیکر بس کی اوپر والی منزل میں سامنے کی نشست پر بیٹھ جاتی اورکسی ٹورسٹ بس کی سیر کا سا لطف لیتی رہتی۔ شروع شروع میں تو دھیان باہر ہی رہتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ دلچسپی کم ہونے لگی تو میں نے بیگ سے کتاب نکال کر اس کا مطالعہ شروع کر دیا اور جب اتنے لمبے سفر سے بالکل اکتا گئی تو سٹریٹفرڈ اتر کر سنٹرل لائن پکڑنے لگی جو صرف بیس منٹ میں ہولبورن پہنچا دیتی ہے۔لیکن شروع کے دنوں میں واقعی اس بس کی سیر کا لطف آیا۔ ایک دن میں نے یوں ہی وقت گزاری کے لیے بس کے مختلف اسٹاپوں کے نام نوٹ کرنے شروع کر دیے ، پھر دل ہی دل میں ان کا اردو ترجمہ کرنے لگی تو محسوس ہوا کہ یہاں بھی سڑکوں اور گلیوں کے نام اسی طرح خود رو پودوں جیسے ہیں، جیسے ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔ مثلاً
بشپس گیٹ یعنی مولوی دروازہ
بریڈ سٹریٹ، گلی ناناں والی
تھریڈ نیڈل سٹریٹ، سوئی دھاگا گلی
ایڈم کورٹ: آدم حویلی
بو روڈ، کمان والی سڑک
سوچتی ہوں ، یہاں کے ہوں یا وہاں کے، شہروں،گلیوں اور محلوں کے نام بھی ا یک باقاعدہ تحقیق کے متقاضی ہیں۔ہمارے ہاں بھی تو خوش آب، اب خوشاب بن گیا ہے۔کراچی کبھی کلانچی ہوتا تھا اور پشاور پخاور تھا۔غالب کے محلہ بَلّی ماراں، کو اکیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے، ولیم ڈیلرمپل جیسے محقق بھی بِلّی ماراں (cat-killers)پڑھنے اور لکھنے لگتے ہیں۔ زبان کی تبدیلی کا عمل سماجی ارتقا کا اشاریہ ہوتا ہے۔ اب لکڑی کے شہتیروں کوبَلّی کہنے کا رواج کم ہو گیا ہے اور بلیوں کی مدد سے کشتی کھینا تو بالکل ہی دور از کار بات لگتی ہے۔ کم از کم شہری اور صنعتی معاشروں میں تو اس کا تصور بھی مشکل ہے۔ اس کی نسبت بِلی مارنا جدید’’ phenomenon‘‘ہے۔ اس کی کئی توجہیات ہو سکتی ہیں۔ ادب ، فلسفے اور نفسیات کے حوالے سے بھی کئی علامتی مفاہیم زیر غور لائے جا سکتے ہیں۔اساطیری تناظر میں بلی کی اپنی ایک معنویت ہے اور عامل بابوں اورجادو ٹونے کے ماہر پروفیسروں کے ہاں اس کی افادیت کچھ اور ہے۔ویسے اب یہ بھی سننے میںآ رہا ہے کہ غالب کے محلے کا اصل نام بِلّی ماراں ہی تھا۔ وللہ اعلم بالصواب۔