(وحید مراد)
یہ جھوٹ ہے کہ لبرل ازم ختم ہو رہا ہے۔ لبرل ازم خطرے میں ہے۔ ٹرمپ کے لبرل ازم نے امریکہ میں مرتے ہوئے جمہوری نظام کو نئی زندگی، نئی طاقت دی ہے۔ 89 فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالے جو امریکی تاریخ میں نیا ریکارڈ ہے۔ اس نے ہر نسل،گروہ،کا جمہوریت پر ایمان زندہ کر دیا ہے۔ ہر گروہ نے جمہوری عمل کے ذریعے ہی اپنے تحفظ کی کوشش کی لہٰذا ٹرمپ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا لبرل ہے جس نے مرتے ہوئے جمہوری نظام کو اپنی نسلی،جنگی مہم جوئی، نفرت، امریکی قوم پرستی،سیفد فام نسل پرستی، غیر سفید فام نسل دشمنی، امریکیوں کو خطرات کی دنیا دکھا کر اپنی شناخت اور حفاظت کا داعیہ پیدا کرکے، اپنی خطابت، انتخابی مہم، تیزی و طراری سےلبرل ازم کو تازہ روح مہیا کر دی۔
لبرل ازم ختم نہیں ہو رہا بلکہ اپنی اصل شکل میں دوبارہ سامنے آ رہا ہے۔ جان لاک کا خونی لبرل ازم جو دنیا کو خاک و خون میں نہلا کر اور نہا دھو کر، صاف ستھرا ہو کر شریف بن گیا تھا اب اپنے خونی رنگ میں سامنے آ رہا ہے۔ یہ جھوٹ ہے کہ لبرل ازم تنوع diversity پید اکر رہا ہے۔ وہ تنوع کے نام پر آزادی کے نام پر تنوع اور آزادی دونوں کو ختم کرتا ہے۔یہ کیسا تنوع ہے کہ پوری دنیا میں ایک نظام تعلیم، ایک معیشت، ایک نظام ثقافت،ایک جیسا لباس،ایک جیسی خوراک،ایک جیسے مشروبات،ایک جیسے کھیل میڈیا اور کارپوریشنوں کے ذریعے مسلط کر دیا گیا ہے۔صدر مرسی،صدر طیب اردگان،صدر احمدی نژاد،صدر اوباما،صدر ٹرمپ ،صدر پیوٹن،صدر چین سب ایک جیسا لباس پہنتے ہیں، پتلون ایڑھی کے نیچے تک، آخر یہ کیسا تنوع ہے؟
لبرل ازم نے امریکہ کے دس کروڑ ریڈ انڈین قتل کئے۔ لبرل ازم اپنی تاریخ دہرا رہا ہے۔ یہ سب کچھ پرانا ہے۔ کچھ نیا نہیں ہے۔ ٹرمپ نے امریکیوں کو بتایا ہے کہ ان کی نسلیں نشہ کرکے، میری وانا پی کر تباہ و برباد ہو رہی ہیں، وہ عیش و عشرت اور نشے کے باعث کام کرنے کے قابل نہیں رہے۔ اس لئے غیر ملکی اور مسلمان جو محنتی ہیں ،تیزی سے امریکہ میں مختلف کاموں پر قابض ہو رہے ہیں لہذا امریکہ کو منشیات Drugs کے مسئلے سے بچانا ہے تاکہ ہماری نسل محفوظ رہے۔امریکہ کا مسئلہ اسلحہ ammunitions نہیں ہے۔
جیسا کہ اوباما نے رو رو کر قوم کو بےوقوف بنایا اس نے یہ بھی کہا کہ ہماری کچھ اقدار ہیں، ہم غیر اقداری نہیں ہیں، ہم deontological نہیں ہیں، ہم ontological ہیں۔ دنیا کی ہر تہذیب ،ہر ثقافت، ہر مذہب کا آدمی، جماعتیں ہمارے غیر اقداری ہونے کے غلط معانی لے کر اپنی اقدار ہم پر مسلط کر رہی ہیں ۔ہم غیر جانبدار نہیں رہ سکتے، امریکہ کو اپنی شناخت،اپنا تشخص بتانا ہوگا ۔امریکہ کا ریڈیکل اسلام سے کوئی مکالمہ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ دلیل کی زبان نہ سمجھتے ہیں۔ نہ دلیل سے بات کرتے ہیں لہٰذا ان کا خاتمہ میری اولین ترجیح ہے۔
ٹرمپ نے لبرل ازم کے چہرے سے جان رالس کی پہنائی ہوئی نقاب نوچ کر پھینک دی اور بتایا کہ لبرل ازم ontological ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے طلال اسد نے بھی یہی لکھا ہے کہ لبرل ازم نے اپنے آغاز میں قتل عام ہی کیا۔ اب وہ اس طرح سامنے آتا ہے جیسے اس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے نہیں، بالکل صاف ہیں۔ یہ آج کا لبرل ازم ہے جو امن کی بات کرتا ہے مگر اس کی تاریخ تو یہ نہیں ہے۔ ٹرمپ نے جب یہ کہا کہ وہ ریڈیکل اسلامسٹوں کو سور کی چربی کی گولی سے ماریں گے تو کوئی نئی بات نہیں کی۔ 1857، میں بھی انگریزوں نے سپاہیوں کو سور کی چربی کے کارتوس دئے تھے۔ دس کروڑ ریڈ انڈین کو پچاس سال میں امریکی قوم نے اس سے زیادہ بدترین طریقے سے ہلاک کیا۔ The Dark Side of democracy میں اسکی پوری تاریخ موجود ہے۔
اسے شکوہ ہے کہ باہر والے میکسیکو والے یہاں آکر جرائم کرتے ہیں rape کرتے ہیں،ان کو برداشت نہیں کیا جا سکتا مگر یہ سب کچھ تو freedom کے عقیدے کا اثر ہے۔ ٹرمپ اس عقیدے کے خلاف نہیں۔ ژی ژیک نے ٹرمپ کی حمایت اسی لئے کی کہ وہ منافق نہیں ہے، وہ سیاست میں نیا انداز لے کر آیا ہے، وہ زیادہ آزاد ہے ،اس نے نقاب نہیں اوڑھی ،وہ گالیاں دیتا ہے،نیا کلچر متعارف کرا رہا ہے،مذاق اڑاتا ہے،براہ راست حملہ کرتا ہے، نسل پرستی کے اظہار میں شرم محسوس نہیں کرتا۔
تمام پوسٹ اسٹرکچرلسٹ اور پوسٹ مارکسسٹ بھی ٹرمپ کے حامی ہیں کہ کم از کم یہ آزادی میں اضافہ کر رہا ہے۔ نئی آزادیاں، نئے رنگ لا رہا ہے۔ سرمایہ میں بھی اضافہ ہوگا، کاروبار بھی بڑھے گا۔ وہ ماحولیاتی قوانین کے سخت خلاف ہے۔ جس سے کارپوریشنوں کے منافع میں اور امریکیوں کے روزگار کے مواقع میں زبردست اضافہ ہوگا۔ ژی ژیک کہتا ہے ہلیری بھی برائی ہے ،ٹرمپ بھی برائی ہے مگر دونوں میں سے ٹرمپ اچھا ،برا (Very Good, bad) ہے۔
ٹرمپ کو سفید فام ووٹروں کے دو تہائی ان پڑھ سفید فاموں نے ووٹ دئے یہ ان پڑھ ان معنوں میں کہ دو تہائی سفید فام ووٹر یونیورسٹی ڈگری نہیں رکھتے۔ مذہبی Evangelical برادری کے 80 فیصد سفید فاموں نے بھی ٹرمپ کو ووٹ دئیے۔ MARK LILLANOV نے Pre Identity liberalism اور Post identity liberalism کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ دھوکہ دہی ہے۔ Pre اور Post لبرل ازم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ خونی ،بدمعاش، دہشت گرد، ظالم، شقی اور عفریت ہے۔ اس کی تاریخ مائیکل مین کی کتاب The Dark Sides of Democracy اور گلین ڈی پیج کی کتاب Politics of non killing میں پڑھئے۔ اس کتاب کا ترجمہ اردو میں زاہدہ حناء نے کیا ہے وہ پڑھ لیجئے اور لبرل ازم کی بدمعاشی دیکھ لیجئے۔
جس طرح عالم اسلام میں قاضی القضاۃ آخری اتھارٹی تھا۔ لبرل ازم میں امریکی عدلیہ آخری اتھارٹی ہے۔ یہ ارتقائی فریڈم، General will ہیومن رائٹس، ڈیمو کریسی، کیپٹل ازم کی محافظ ہے اور ٹرمپ کے کسی بھی غلط فیصلے کو رد کر سکتی ہے۔ لہٰذا لبرل ازم بالکل محفوظ ہے اسے کوئی خطرہ نہیں۔ یہ جھوٹ ہے کہ ٹرمپ لبرل نہیں ہے۔ لبرل ہی فاشسٹ ہوتا ہے۔ فاشسٹ ہی لبرل ہوتا ہے۔ یہ بھی جھوٹ ہے کہ لبرل ازم Celebrate our differences اور Diversity کا مسلک ہے۔ آزادی کے خلاف کسی کو بغاوت کی اجازت نہیں ۔اپنے عقیدے کو آزدی کے مطابق کرلینے کی اجازت ہے۔