دانش ور کے نام ایک خط

(خرم شہزاد)
________________________________________
ملتان
۱۹دسمبر۲۰۱۶ء
سفیرِ خرد!

ہیلو!
امید ہے کہ میں آپ کے بیش قیمتی وقت کا کچھ حصہ حاصل کر سکوں گا۔ہمارے سماج میں عوامی منطقے کی تشکیل میں کتاب کا کردار( تقریباً) غائب ہو چکا تھا لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ ایک خاص کتاب( فیس بُک) کے ذریعے اب آپ کو بھی عوامی منطقے تک رسائی کا اہم موقع فراہم ہوا ہے۔میرے نزدیک یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ جس سے آپ (اگر مناسب سمجھیں تو) عام آدمی کی ذہن سازی کا بہتر موقع فراہم ہو سکتا ہے۔اس موقع سے صحیح طور پر مستفید ہونے کے لیے لازمی ہے کہ آپ پر یہ واضح رہے کہ آپ کا منصب کیا ہے ۔آپ کا وجودانسانی تاریخ کے اہم موڑ( جدید کاری)کا مرہون ہے ۔اگرچہ خرد ور طبقہ کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے مگر جدید دور میں اسے علمی حلقوں میں جو اعتبار ملا ہے پہلے نہیں تھا۔ چناں چہ (اگر آپ خودکو ذمہ دار سمجھیں تو)پاکستان ایسے سماج میں آپ کا کردار نہایت اہم ہے۔ آپ سماج کیسنجیدہ مطالعہ کے بعد بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے برعکس بیانیہ (Counter Narrative)ترتیب دے سکتے ہیں۔ منضبط فکر پیش کر کے آیندہ نسلوں پر احسانِ عظیم کر سکتے ہیں۔اس احساسِ ذمہ داری کی پاکستانی سماج کو بہت ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ اپنی ذمہ داری سے بالکل بے بہرہ ہیں۔لیکن یہ ضرور ہے کہ آپ نے دانشورانہ مخاطبے کی بنیادسہل پسند ی پر استوار کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ سماج میں زوال کے اسباب تک کامل رسائی حاصل کرنے کی بجائے فقط نتائج سے الجھ رہے ہیں۔
کسی بھی سماج میں زوال کے اسباب جاننا در اصل ایک کثیر الجہت مطالعے کی دعوت دیتا ہے ۔جس میں عوامی منطقے کی زیریں سطحوں تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔جو کہ آسان کام نہیں ہے۔البتہ سماجی مطالعے کے نام پرعوامی منطقے کی بالائی سطحوں تک رسائی حاصل کرنا ؛ شخصی رویوں پر کڑھتے ہوئے نفرت و حقارت کا اظہار کرنا؛ان پڑھ طبقے میں تشکیل پانے والی ذہنیت کو ’’دوسرا‘‘ تصور کرتے ہوئے بڑی سہولت کے ساتھ تمام تر ردِ عمل پیش کرنا؛ایک آسان فارمولاہے جو آپ کے ہاں(عموماً) مستعمل نظر آتاہے۔جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔اگر آپ غور کریں تو وہ ’’دوسرا‘‘ جسے آپ نے رد عمل کا آسان حدف بنا رکھا ہے۔ قابلِ رحم ہے۔ایک طرف آپ ہیں جو ملحد کا اوور کوٹ پہنانے پر مصر ہیں اور دوسری طرف ایک اور طبقہ آہنی ٹوپی پہنانا چاہتا ہے۔ہر دو صورتوں میں عام آدمی(جسے اپنے مستقبل سے غرض ہے)پریشان ہے۔ موخرالذکر آفر میں بہر حال کسی’’ جہان‘‘ میں بہتری کی کوئی امید تو ہے آپ کے خشک بیانیے میں دلچسپی کا وہ سامانِ فراواں بھی نہیں۔میری اس بات کا مطلب ہر گز یہ نہ سمجھیے گا کہ اب آپ بھی قوتِ متخیلہ کی مدد سے رنگ آمیز جہان سجائیں البتہ طاقِ نسیاں میں سجائے گئے تہذیبی و ثقافتی گل دان کی بازیافت ضرور چاہتا ہوں ۔کہ اس طرح عام آدمی کو آپ کی فکر میں کچھ تو اپنائیت محسوس ہو۔ورنہ ریاستی سر پرستی کا حامل طبقہ سبقت لے جائے گا۔
آپ سیکولرازم کے مسخ شدہ چہرے پر اٹی گرد کو صاف کر کے عام آدمی کے لیے اس میں جاذبیت پیدا کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ ’’پاکستان کے نام ایک خط‘‘از:کیرن آرم اسٹرونگ۔میں پیش کردہ بیانیہ ،بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کی جڑوں کو خشک کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔اس بیانیے کی تشکیل میں مندرج متون کو (بہر حال) آپ کو بھی کھلے ذہن کے ساتھ قبول کرنا ہو گا۔ کیوں کہ اگر برطانیہ میں مقیم(یعنی فاصلے سے دیکھنے والی) خاتون کی نظر میں ایسے متون پاکستان کی ذہنی تربیت میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں تو اس سوسائٹی سے متعلق دانش ور کو بھی حقیقت کے اثبات میں پس و پیش سے کام نہیں لینا چاہیے ۔یقیناًآپ کی نظر سے وہ خط گزرا ہو گا۔کہیں ایسا تو نہیں آپ اس سے بدک گئے ہوں کہ اس میں موجود حوالے آپ کی نظر میں غیر اہم ہیں۔اگر ایسا ہی ہے تو میں آپ کے ردِ عمل کو سمجھ سکتا ہوں۔پاکستانی تاریخ سے جناح صاحب کی گیارہ اگست والی تقریر غائب کرنے والی ذہنیت؛ تھیوکریسی کے پے در پے ادواراور پھرتقریباً ۱۱ سال تک پاکستانی تاریخ کی اسکرین پر مسلسل نظر آنے والا داغ ۔ آپ کے اندر ایک رد عمل کو ابھار سکتا ہے لیکن اگر آپ اپنے منصب کو صحیح طور پر سمجھیں تو ہیجان انگیز ردعمل آپ کی توجہ کو ایک ہی ایشو پر مرکوز ہونے نہ دے گا اورنہ ہی اس طرح اور بہت سے مسائل آپ کی نظروں سے اوجھل رہیں گے۔
آخر میں عام آدمی کے الفاظ میں بدھ مت کی ایک قدیم دعا آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔’’تمام مخلوقات کو اسی طرح عزیز رکھو جیسے ایک ماں اپنی اکلوتی اولاد کو عزیز رکھتی ہے۔‘‘امید ہے اس دعا کے بدلے سے زیادہ آپ کو اس بات میں دلچسپی ہو گی کہ ’’دوسرے‘‘ کو بھی مخلوقات میں شامل سمجھ کر عزیز رکھا جائے۔ اگر آپ غور کریں تو معلوم ہو گا یہ دوسرا واقعی قابل’’ رحم‘‘ ہے کیوں کہ ریاستی سطح پر کبھی نصابی کتب کے ذریعے اور کبھی ’’پہاڑوں پر اگنے والی مہیب داڑھیوں‘‘ کے ذریعے اسے پہلے ہی طرح طرح کے فکری مسائل کا سامنا ہے۔اس تناظر میں اگر آپ سنجیدگی سے اپنا کردار ادا نہیں کریں گے تو۔۔۔۔۔۔۔۔

خیر اندیش
خرم شہزاد