اسکندر جدید کی کتاب ’’انجیل اور قران میں شخصیت المسیح‘‘ کے ذیلی باب کا ایک حصہ
“لوگ مجھے کیا کہتے ہیں؟” یہ ایک سوال ہے جو مسیح نے دو ہزار سال پہلے اپنے شاگردوں کے سامنے رکھا تھا۔ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے جس کی صدائے بازگشت تب سے آج تک عالم میں گونج رہی ہے اور آج بھی یہ ہر شخص سے پوچھا جا رہا ہے۔ شاید اِس سوال سے زیادہ اہم اور بڑا سوال تاریخ میں کبھی پوچھا ہی نہیں گیا۔ اِس کی اہمیت اِس لئے ہے کہ اِس سوال میں ساری اِنسانیت سے تعلق رکھنے والا مسئلہ نہاں ہے۔ یہ سوال جب تک دُنیا قائم ہے جُوں کا تُوں بنا رہے گا۔ مذاہب و اعتقاد کے بیچ اِس سوال نے ایک خط فاصل کھینچ دیا ہے، اِسی کے جواب پر ہر شخص کا انجام منحصر ہے۔
مسیحیت کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے کہ جو کچھ سیدنا مسیح کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ اُس سے خوفزدہ نہیں۔ مسیح نے خود ہی اِس مذہب کی تعمیر اُس قوت پر کی ہے جس پر جہنم کے دروازے کبھی غالب نہیں آ سکتے۔ مسیح نے خود آزادی رائے کو بڑھایا اور سراہا ہے، اور کہیں پر بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ آپ نے زبردستی کسی بات کو کسی پر تھوپا ہو۔ مسیحیت کی تاریخ کے کسی بھی دور میں مسیح کی ذات و شخصیت کے بارے میں کبھی تلوار کا استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ اُس ایمان کو اہمیت دی گئی ہے جو یقین کامل پر قائم ہو اور جسے دل و دماغ دونوں تسلیم کریں۔ اِسی بنیاد پر ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ لوگ مسیح کی الوہیت کو زبردستی کیوں منظور کریں؟ یا ایسی رائے پیش کی ہی کیوں جائے اور لوگ ایسے اٹل ہو جائیں کہ اگر کوئی اُس کے خلاف کبھی کچھ کہہ بھی دے تو غیظ و غضب میں آ جائیں۔ اِس لئے ہم وہ تمام مختلف آرا قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں جو مسیح کے بارے میں رکھی گئی ہیں۔
الف- مسیح میں صرف کامل الوہیت تھی:
غناسطی فرقہ نے عام مسیحیوں کے عقیدہ کے خلاف یہ مانا کہ مسیح صرف ایک الوہی وجود تھے۔ یہ لوگ عقیدہ تجسم کے بھی قائل نہ تھے، جبکہ عام مسیحی یہ مانتے ہیں کہ مسیح میں الوہیت بھی تھی اور اِنسانیت بھی، لیکن غناسطی لوگوں نے اُن کی اِنسانیت کا انکار کیا۔ اُن لوگوں کا کہنا تھا کہ مسیح اِنسان کی شکل میں تو ضرور ظاہر ہوئے لیکن وہ اِنسانی جسم کوئی حقیقی جسم نہ تھا، نہ ہی اُن کی ولادت ہوئی، نہ اُنہوں نے دُکھ اُٹھایا، اور نہ حقیقی موت کا مزہ چکھا کیونکہ جو جسم اُن کے ساتھ نظر آ رہا تھا وہ اصل میں ایک ظل یا چھایا تھا۔ پھر بعد میں اِس فرقہ میں ایک اَور جماعت پیدا ہوئی جس نے یہ مانا کہ مسیح کا بدن اِنسانوں کے بدن کی طرح مادی نہ تھا بلکہ وہ ایک خاص آسمانی جوہر تھا۔
تاہم یہ رائے خدا کے الہامی کلام کی سچائی کی روشنی میں باطل ٹھہرتی ہے کیونکہ ہم 1۔ یوحنا 4: 1 -3 میں پڑھتے ہیں کہ:
“اے عزیزو! ہر ایک رُوح کا یقین نہ کرو بلکہ رُوحوں کو آزماﺅ کہ وہ خدا کی طرف سے ہیں یا نہیں کیونکہ بہت سے جھوٹے نبی دُنیا میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ خدا کے رُوح کو تم اِس طرح پہچان سکتے ہو کہ جو کوئی رُوح اقرار کرے کہ یسوع مسیح مجسم ہو کر آیا ہے وہ خدا کی طرف سے ہے۔ اور جو کوئی رُوح یسوع کا اقرار نہ کرے وہ خدا کی طرف سے نہیں اور یہی مخالفِ مسیح کی رُوح ہے جس کی خبر تم سُن چکے ہو کہ وہ آنے والی ہے بلکہ اب بھی دُنیا میں موجود ہے۔”
ب- مسیح صرف اِنسان تھے:
یہ عقیدہ بھی غناسطی عقیدہ سے کم تعجب خیز نہیں کیونکہ اِس خیال کے پیرو مسیح میں الوہیت کو نہیں مانتے اور صرف اُن کی اِنسانیت پر یقین کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسیح ایک کامل ترین اِنسان تھے، یعنی زمین پر پائے جانے والے سارے لوگوں میں سے سب سے اعلیٰ اِنسان تھے۔ اِس لئے اُن کی عظمت و بزرگی کو ایک عظیم رہنما اور سورما اور شہید کے طور پر ماننا چاہئے۔ غالباً اِس کا سب سے عمدہ جواب وہ ہے جو ڈاکٹر کونراڈ نے دیا ہے کہ: “جو لوگ اِس نتیجہ پر پہنچے ہیں بڑی غلطی پر ہیں کیونکہ اُن کےلئے مسیح کو کوئی رہنما یا ہیرو ماننا مشکل ہے، وجہ یہ ہے کہ جو کچھ خود مسیح نے اپنے بارے میں کہا ہے اُسی کو اِن لوگوں نے رد کر دیا ہے! ایسی حالت میں مسیح کی دو ہی حیثیتیں ہو سکتی تھیں یعنی یا تو وہ خود سب سے بڑے دھوکہ باز تھے اور یا وہ خود دھوکے میں تھے، اور اِن صورتوں میں وہ خود ایک بڑی قابلِ رحم ہستی ہوئے، پھر اُنہیں عزت و شرف دینا بےوقوفی ہے۔ حقیقت میں بات تو یہ ہے کہ اگر مسیح قابلِ پرستش نہیں تو اُنہیں عزت کا کوئی مقام دینے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ جس چیز کے متقاضی تھے یعنی عبادت و اجلال وہ تو اُنہیں دیا ہی نہیں جا سکا۔”
ج- مسیح کی شخصیت میں الوہیت اور اِنسانیت کی یگانگت:
یہ وہ رائے ہے جو مسیحی اُمّت یا کلیسیا میں شروع سے رائج ہے، اِس لئے اِسے قبولیت عام حاصل ہے اور اِسی کی منادی و بشارت کی جاتی ہے۔ اِس رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ مسیح میں دو کامل طبیعتیں تھیں، کیونکہ وہ کامل خدا اور کامل انسان ہے۔
شاید پوچھنے والا پوچھ بیٹھے کہ آخر کلیسیائی کونسلوں اور لوگوں کے سامنے آخر وہ کیا مجبوری تھی جس نے الوہیت مسیح کو تسلیم کرنے پر آمادہ کیا؟ اور یہ اعتقاد ایسا جڑ پکڑ گیا کہ لاتعداد اِنسانوں نے اِس کی حفاظت میں اپنی جان عزیز کو داﺅ پر لگا دیا اور شہادت حاصل کی؟ کیوں اِس اعتقاد کے ماننے والوں میں بڑے بڑے مفکّرین تھے جو ہر زمانہ میں رہے ہیں، اور آخر اُن کے پاس ایسی کون سی حُجّت اور دلیل قاطع تھی جس پر اُن کا تکیہ تھا؟
ایسے سوالات کے جوابات دینے ضروری ہیں۔ آئیے وہ ثبوت دیکھیں:
(1) نبوتوں پر مبنی ثبوت:
آغازِ تاریخ سے کتاب مُقدّس کی آخری کتاب کے قریباً چار ہزار سال کے درمیانی عرصے میں ہمیں نبوتوں اور پیشینگوئیوں کی متواتر اور مسلسل کڑیاں نظر آتی ہیں۔ اِن پیشینگوئیوں کو مسیحیوں کی ایجاد کہہ کر ٹال دینا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ مسیحیت کے جنم لینے سے بہت پہلے یہ نبوتیں الہامی کتابوں کے طوماروں پر لکھی تھیں۔ اِن میں سے آخری کتاب کا تعلق تقریباً مسیح کی آمد سے چار سو سال پہلے کے عرصے سے ہے۔ اِن نبوتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آسمان سے اِنسانی صورت میں ایک الہٰی شخص ظاہر ہو گا تا کہ دُنیا کا نجات دینے والابن سکے۔ یہ ہستی ابراہیم کی نسل سے اور عورت کے پیٹ سے جنم لے گی، یہاں تک کہہ دیا گیا کہ وہ یہوداہ کے قبیلے اور داﺅد کے گھرانے سے ہو گا۔ ایک کنواری سے پیدا ہو گا جس میں کسی قسم کا عیب یا گندگی نہ ہو گی، اور وہ شہر بیت لحم یعنی داﺅد کے شہر میں پیدا ہو گا۔ اِس کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ وہ ہستی خدائے قادر ابدی و سرمدی ہو گی۔ اب دیکھئے یہ باتیں اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک تجسم واقع نہ ہو اور لاہوت ناسوت کو لپیٹ میں نہ لے اور اُن کا اتحاد عمل میں نہ آئے۔ اِن باتوں کی تائید کرنے والی آیتیں یہ ہیں:
“ہمارے لئے ایک لڑکا تولُّد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہو گی اور اُس کا نام عجیب مشیر خدای قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شاہزادہ ہو گا۔” (یسعیاہ 6:9)
“خداوند آپ تم کو ایک نشان بخشے گا۔ دیکھو ایک کُنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا پیدا ہو گا اور وہ اُس کا نام عمّانُوایل رکھے گی۔” (یسعیاہ 14:7)
متی 23:1 میں بتایا گیا ہے کہ عمّانُوایل کا مطلب ہے ‘خدا ہمارے ساتھ ‘۔
“یہواہ نے میرے خداوند سے کہا تُو میرے دہنے ہاتھ بیٹھ جب تک کہ میں تیرے دُشمنوں کو تیرے پاﺅں کی چوکی نہ کر دوں۔” (زبور 1:110)
یہ عبارت بڑی اہمیت کی حامل ہے جس کی تفسیر ہمیں سوائے ایمان کے اَور کوئی نہیں مل سکتی کہ یہ مانا جائے کہ یہ باپ اور بیٹے کے درمیان ایک مکالمہ ہے اور اِس میں متکلم خود خدا ہے۔
“لیکن اے بیت لحم اِفراتاہ اگرچہ تُو یہوداہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کےلئے چھوٹا ہے تو بھی تجھ میں سے ایک شخص نکلے گا اور میرے حضور اِسرائیل کا حاکم ہو گا اور اُس کا مصدر زمانہ سابق ہاں قدیم الایّام سے ہے۔” (میکاہ 2:5)
(2) مسیح کے اقوال پر مبنی ثبوت:
سپرجن نام کے ایک مردِ خدا جو ایک مشہور واعظ تھے فرماتے ہیں کہ “مسیح دُنیا کی تاریخ میں ایسی مرکزی حقیقت ہیں کہ تاریخ کے سارے فیضان اور بہاﺅ آپ ہی کے دستِ قدرت کے تحت ہو کر بہتے ہیں اور زندگی کے سارے عظیم مقاصد اُن کی شخصیت ہی میں آ کر مکمل ہوتے ہیں۔”
اِس پر مستزاد یہ کہ آپ کے سارے معجزات، حیرت انگیز کام، آپ کے بولے ہوئے الفاظ کی تصدیق کرتے اور گواہ بنتے نظر آتے ہیں۔ مسیح نے بیسیوں حقائق اپنے بارے میں بتائے ہیں جو سوائے خدا کے کسی اَور کے ساتھ منسوب کئے ہی نہیں جا سکتے۔ کچھ اہم حقائق یہ ہیں:
(الف) آپ کا ازلی وجود
غالباً آپ کی زبان مبارکہ سے نکلا ہوا وہ جملہ بڑی اہمیت کا حامل ہے جو آپ نے یہودی مذہبی رہنماﺅں کے سامنے فرمایا تھا:
“میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ پیشتر اُس سے کہ ابرہام پیدا ہوا میں ہوں۔” (یوحنا 58:8)
“میں ہو ں” وہی الفاظ ہیں جو خدا نے خود اپنے لئے اور اپنی ذات کےلئے اُس وقت فرمائے جب موسیٰ نبی نے اُن سے پوچھا تھا کہ: “جب میں بنی اسرائیل کے پاس جا کر اُن کو کہوں کہ تمہارے باپ دادا کے خدا نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے اور وہ مجھے کہیں کہ اُس کا نام کیا ہے؟ تو میں اُن کو کیا بتاﺅں؟ خدا نے موسیٰ سے کہا میں جو ہوں سو میں ہوں۔ سو تُو بنی اسرائیل سے یوں کہنا کہ میں جو ہوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے” (خروج 3: 14،13)۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے اپنی ذات میں اُسی خدا کو ظاہر کیا جو حضرت موسیٰ پر کوہ حورب پر جلتی جھاڑی میں ظاہر ہوا تھا۔
اِنجیل مُقدّس یوحنا 5:17 میں یہ لکھا ہے کہ مسیح نے اپنی شفاعتی دُعا میں کہا: “اور اب اے باپ! تُو اُس جلال سے جو میں دُنیا کی پیدایش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنا دے”۔
اور پھر آیت 24 میں لکھا ہے کہ: “اے باپ! میں چاہتا ہوں کہ جنہیں تُو نے مجھے دیا ہے جہاں میں ہوں وہ بھی تیرے ساتھ ہوں تا کہ میرے اُس جلال کو دیکھیں جو تُو نے مجھے دیا ہے کیونکہ تُو نے بنایِ عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی”۔
یہ الفاظ مسیح کے ازلی وجود کا یقین دلاتے ہیں اور مسیح کو حادث یا نوپید اب کون سی زبان کہہ سکتی ہے۔
(ب) آپ کا آسمان سے آنا
یہودیوں کے ساتھ ایک اَور گفتگو کے دوران مسیح نے کہا: “تم نیچے کے ہو۔ میں اُوپر کا ہوں۔ تم دُنیا کے ہو۔ میں دُنیا کا نہیں ہوں” (یوحنا 23:8)۔
پھر نیکدیمس نام ایک یہودی مذہبی رہنما سے دورانِ گفتگو مسیح نے فرمایا: “آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سوا اُس کے جو آسمان سے اُترا یعنی ابن آدم (خود مسیح) جو آسمان میں ہے” (یوحنا 13:3)۔
مزید برآں مکاشفہ 13:22 میں ہم پڑھتے ہیں کہ: “میں الفا اور اومیگا، اوّل و آخر، ابتدا و انتہا ہوں۔”
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح نے آسمان سے نہ صرف اپنی آمد کے بارے میں بتایا ہے بلکہ یہ بھی کہ اُن کا وجود اور حضوری آسمان میں اُس وقت بھی برقرار تھی جب وہ اِس روئے زمین پر موجود تھے۔
(ج) آپ کی تمام جگہوں اور تمام زمانوں میں موجودگی
متی 20:18 میں آیا ہے کہ: “جہاں دو یا تین میرے نام پر اکھٹے ہیں وہاں میں اُن کے بیچ میں ہوں”۔
اور مسیح نے اپنے جی اُٹھنے کے بعد اپنے شاگردوں کو یہ حکم دیا کہ: “پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناﺅ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جنکا میں نے تم کو حکم دیا اور دیکھو میں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں” (متی 28: 19-20)۔
(د) آپ کا غیرمحدود اختیار
مسیح جب پتمس کے جزیرہ میں یوحنا پر رویا میں ظاہر ہوئے تو کہا: “خداوند خدا جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے یعنی قادر مُطلق فرماتا ہے کہ میں الفا اور اومیگا ہوں” (مکاشفہ 8:1)۔
(3) مسیح کے القابات اور الہٰی افعال پر مبنی ثبوت:
(الف) آپ کاخالق ہونا
مندرجہ ذیل آیات اِس حقیقت کو واضح کرتی ہیں:
“سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔ اُس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی۔” (یوحنا 1: 4،3)
“کیونکہ اُسی میں سب چیزیں پیدا کی گئیں۔ آسمان کی ہوں یا زمین کی۔ دیکھی ہوں یا اندیکھی۔ تخت ہوں یا ریاستیں یا حکومتیں یا اختیارات۔ سب چیزیں اُسی کے وسیلہ سے اور اُسی کے واسطے پیدا ہوئی ہیں۔” (کلسیوں 16:1)
“سب پر یہ بات روشن کروں کہ جو بھید ازل سے سب چیزوں کے پیدا کرنے والے خدا میں پوشیدہ رہا اُسکا کیا انتظام ہے۔” (افسیوں 9:3)
(ب) آپ کا مُردوں کو زندہ کر دینا
“جب وہ (یسوع) شہر کے پھاٹک کے نزدیک پہنچا تو دیکھو ایک مُردہ کو باہر لئے جاتے تھے۔ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا اور وہ بیوہ تھی اور شہر کے بہتیرے لوگ اُسکے ساتھ تھے۔ اُسے دیکھ کر خداوند (مسیح) کو ترس آیا اور اُس سے کہا مت رو۔ پھر اُس نے پاس آ کر جنازہ کو چھوا اور اُٹھانے والے کھڑے ہو گئے اور اُس (مسیح) نے کہا اے جوان میں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ (قُم)۔ وہ مُردہ اُٹھ بیٹھا اور بولنے لگا اور اُس نے اُسے اُس کی ماں کو سونپ دیا۔” (لوقا 7: 12-15)
“اُس نے بلند آواز سے پکارا کہ اے لعزر نکل آ۔ جو مر گیا تھا وہ کفن سے ہاتھ پاﺅں بندھے ہوئے نکل آیا اور اُسکا چہرہ رومال سے لپٹا ہوا تھا۔ یسوع نے اُن سے کہا اُسے کھول کر جانے دو۔” (یوحنا 11: 44،43)
(ج) آپ منصف عالم ہوں گے
“جب ابن آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اُس کے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا اور سب قومیں اُس کے سامنے جمع کی جائیں گی اور وہ ایک کو دوسرے سے جدا کرے گا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جدا کرتا ہے۔” (متی 25: 32،31)
“باپ کسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کیا ہے۔” (یوحنا 22:5)
(د) آپ لائق پرستش ہیں
“تا کہ سب لوگ بیٹے کی عزت کریں جس طرح باپ کی عزت کرتے ہیں۔ جو بیٹے کی عزت نہیں کرتا وہ باپ کی جس نے اُسے بھیجا عزت نہیں کرتا۔” (یوحنا 23:5)
یاد رہے باپ کی ساتھ بیٹے کی عبادت و پرستش مردانِ خدا کے بیچ عہد عتیق کے زمانے میں بھی رائج تھی۔ مثلاً داﺅد نبی نے کہا: “ڈرتے ہوئے خداوند کی عبادت کرو۔ کانپتے ہوئے خوشی مناﺅ۔ بیٹے کو چومو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ قہر میں آئے اور تم راستہ میں ہلاک ہو جاﺅ کیونکہ اُس کا غضب جلد بھڑکنے کو ہے۔ مبارک ہیں وہ سب جنکا توکل اُس پر ہے” (زبور 2: 12،11)۔
(ہ) آپ غافر الذنوب ہیں (گناہ بخشتے ہیں)
یہودی ہمیشہ یہ مانتے تھے کہ گناہوں کی معافی کا اختیار صرف خدا ہی کو ہے اور جب اُنہوں نے مسیح کو ایک معجزہ کرتے وقت مفلوج کو یہ خطاب کرتے سُنا کہ “بیٹا تیرے گناہ معاف ہوئے” (مرقس 5:2)۔ یہودی آپ کے اِس عمل و سلوک سے نہایت ہی مضطرب و پریشان ہو رہے تھے تو مسیح نے فرمایا “تم کیوں اپنے دِلوں میں یہ باتیں سوچتے ہو؟ آسان کیا ہے؟ مفلوج سے یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یا یہ کہنا کہ اُٹھ اور اپنی چارپائی اُٹھا کر چل پھر؟ لیکن اِس لئے کہ تم جانو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے۔ (اُس نے اُس مفلوج سے کہا) میں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ اپنی چارپائی اُٹھا کر اپنے گھر چلا جا۔ اور وہ اُٹھا اور فی الفور چارپائی اُٹھا کر اُن سب کے سامنے باہر چلا گیا۔ چنانچہ وہ سب حیران ہو گئے اور خدا کی تمجید کر کے کہنے لگے ہم نے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا” (مرقس 2: 8-12)۔
(و) آپ حیاتِ ابدی بخشتے ہیں
آپ نے فرمایا: “میری بھیڑیں میری آواز سُنتی ہیں اور میں اُنہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔ اور میں اُنہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی اُنہیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا” (یوحنا 10: 27-28)۔
(ز) آپ باپ کے مساوی ہیں
آپ نے فرمایا:
“میں اور باپ ایک ہیں۔” (یوحنا 30:10)
“جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا۔ تُو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھا؟ کیا تُو یقین نہیں کرتا کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ یہ باتیں جو میں تم سے کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے۔ میرا یقین کرو کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں۔ نہیں تو میرے کاموں ہی کے سبب سے میرا یقین کرو۔” (یوحنا 14: 8-11)
(ح) آپ نے سجود و تعبد قبول کیا
اِس میں تو شک ہی نہیں کہ یسوع نے پرستش و سجدہ کو قبول کیا جو کسی بھی بشر کےلئے جائز نہیں۔ یہ بات اُس وقت واقع ہوئی جب ایک جنم کے اندھے سے جناب مسیح نے پوچھا: “کیا تُو خدا کے بیٹے پر ایمان لاتا ہے؟ اُس نے جواب میں کہا اے خداوند وہ کون ہے کہ میں اُس پر ایمان لاﺅں؟ یسوع نے اُس سے کہا تُو نے تو اُسے دیکھا ہے اور جو تجھ سے باتیں کرتا ہے وہی ہے۔ اُس نے کہا اے خداوند میں ایمان لاتا ہوں اور اُسے سجدہ کیا” (یوحنا 9: 35-38)۔
(4) مسیح کے شاگردوں کی گواہی پر مبنی ثبوت:
یہ گواہی اُن لوگوں کی ہے جنہوں نے مسیح کی عظمت اور شان کو اعلانیہ طور پر دیکھا۔ یہ ساری شہادتیں مکمل اور سارے شکوک سے پاک ہیں۔ مثلاً کچھ آپ کے سامنے پیش کی جارہی ہیں:
(الف) توما کی گواہی
اِس شاگرد (توما) نے مسیح کے جی اُٹھنے کے بعد جب اُن کے ہاتھوں میں کیلوں سے چھیدے جانے کے نشان دیکھے اور پہلو پر اُس زخم کو دیکھا جسے چھیدا گیا تھا تو ایمان لایا اور پکار اُٹھا “اے میرے خداوند! اے میرے خدا!” (یوحنا 28:20)۔
(ب) یوحنا کی گواہی
اِس شاگرد نے خدا کے الہام سے کہا: “ہم اُس میں جو حقیقی ہے یعنی اُس کے بیٹے یسوع مسیح میں ہیں۔ حقیقی خدا اور ہمیشہ کی زندگی یہی ہے” (1۔ یوحنا 20:5)۔
(ج) پولُس کی گواہی
پولُس رسول نے گواہی دی کہ: “جسم کے رو سے مسیح بھی اُن ہی میں سے ہوا جو سب کے اُوپر اور ابد تک خدای محمود ہے۔ آمین” (رومیوں 5:9)۔