منیر نیازی کی شاعری میں تنہائی اور خوف کا مطالعہ
از، قمر الدین خورشید
منیرنیازی کی شاعری میں جگہ جگہ ڈر جھانکتا نظر آتا ہے جو اس کی کلیات(۱) پڑھیں تو سامنے آتا ہے، یہ ڈر، یہ خوف اُس کے تنہا رہ جانے کی وجہ سے ہے، سب میں ہوتے ہوئے بھی وہ اکیلے پن کا شکار رہا اور اسی باعث چڑیلوں، سانپوں جیسے تصوراتی حصار سے خود کو ایک عمر تک باندھے رکھا۔ ویران جگہوں، ٹھکانوں کا ذکر، اُن میں پائی جانے والی ویرانی، گھپ اندھیرا، طوفانِ بادوباراں، اس کی اپنی تنہائی کی تصویر کشی کے علاوہ اور کیا ہیں، اس کی نظم صدا بصحرا، اس کی جیتی جاگتی مثال ہی تو ہے (۲):
چاروں سمت اندھیرا گھپ ہے اور گھٹا گھنگھور
وہ کہتی ہے ”کون…؟”
میں کہتا ہوں ”میں…”
کھولو یہ بھاری دروازہ
مجھ کو اندر آنے دو…”
اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور(صفحہ۹۷)
اشفاق احمد(۳) نے منیر کی اس چھ سطری نظم کو Walter De La Mareکی نظم The Listeners(۴) جوکہ چھتیس سطروں پر مشتمل ہے، سے بڑھ کر بتایا ہے۔ یہی اشفاق احمد (۵) منیر نیازی کی بستی کا حلیہ اس طرح بیان کرتے ہیں ”قبرستان کے ارد گرد کبڑی کھجوروں کے جھنڈ میں مدھم سرگوشیاں ہوتی ہیں، کالی سیاہ ڈرائونی راتوں میں …کبھی یوں بھی ہوتا …کوئی دیوانہ چاند کی تلاش میں ادھر آ نکلتا ہے اور رات بھر سانپوں بھرے جنگل کی آوازیں سنتا رہتا ہے۔” آگے (۶)وہ لکھتے ہیں ”… بچے رات کو نانی اماں سے چڑیلوں کی کہانیاں سنتے ہیں اور انھیں مکانوں کے ہر چھجے کی اینٹ خون دکھائی دیتی ہے جیسے کچے لیبل کا رنگ… یہ منیر نیاز ی کی بستی تھی جو اس کے ارد گرد کم اور اس کے ذہن کی گہرائیوں میں طلسمی رنگوں میں بھیگے ہوئے گھر بسا کر بستی جاتی تھی۔” آگے (۷) وہ لکھتے ہیں ”وہ اپنے گھرانے کاایک بگڑا ہوا بچہ تھا جس کی شکایتیں لے لے کر اب لوگ دور دور سے آنے لگے تھے اور گھر کے کچھ افراد تنہائی میں بڑی ایمانداری سے یہ بھی سوچنے لگے تھے کہ اگر منیر نہ رہے تو کتنی مصیبتوں سے ایک ہی بار نجات مل جائے …گھر کے لوگوں نے خاموشی کا حربہ استعمال کر کے اس سے قطع تعلق کر لیا، لوگ بہت تھے اور وہ اکیلا…۔”
منیر نیاز ی نے اپنی اس تنہائی کو کس طرح سے جھیلا وہ اس کا اس طرح اظہار کرتا ہے:
آس پاس کوئی گائوں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے
شام بھی جیسے کسی پرانے سوگ میں ڈوبی آئی ہے
پل پل بجلی چمک رہی ہے اور میلوں تنہائی ہے
کتنے جتن کیے ملنے کو پھر بھی کتنی دوری ہے
چلتے چلتے ہار گیا میں پھر بھی راہ ادھوری ہے
گھائل ہے آواز ہوا کی اور دل کی مجبوری ہے (صفحہ۱۹۵)
مجید امجد(۸) جو اس کے دوست تھے اور جو اس کے قریب اور ایک ہی شہر میں رہے اس کے بارے میں کہتے ہیں ”…مجھے سب سے زیادہ اس کی شاعری کی وہ فضا پسند ہے … جو اس کی زندگی کے واقعات، اس کے ذاتی محسوسات اور اس کی شخصیت کی طبعی افتاد سے ابھرتی ہے، اس نے جو کچھ لکھا ہے جذبے کی صداقت کے ساتھ لکھا ہے اور اس کے احساسات کسی عالم بالا کی چیزیں نہیں ہیں بلکہ اس کی اپنی زندگی کی سطح پر کھیلنے والی لہریں ہیں۔” اس سلسلہ میں دیکھیے منیر کیا کہتا ہے:
میرے سوا اس سارے جگ میں کوئی نہیں دل والا
میں ہی وہ ہوں جس کی چتا سے گھر گھر ہوا اجالا
میرے ہی ہونٹوں سے لگا ہے نیلے زہر کا پیالا
میری طرح کوئی اپنے لہو سے ہولی کھیل کے دیکھے
کالے کٹھن پہاڑ دکھوں کے سر پہ جھیل کے دیکھے
(صفحہ ۸۹)
منیر نیازی کی تنہائی اس کے لیے سوہان روح بنی رہتی اور وہ کالے کٹھن پہاڑ دکھ سہتا رہتا لیکن اللہ نے اس پر یہ مہربانی کی کہ اُس نے فطرت (نیچر) کو منیر نیازی کا دوست، ساتھی بنا دیا، ایک جگہ وہ کہتا ہے:
گھٹا دیکھ کر لڑکیاں خوش ہوئیں
چھتوں پر کھلے پھول برسات کے
اور دوسری جگہ فطرت کا یوں اظہار ہوتا ہے:
صحن کو چمکا گئی بیلوں کو گیلا کر گئی
رات بارش کی فلک کو اور نیلا کر گئی
(صفحہ ۳۰۲)
منیر نیازی نے اپنے اکیلے پن کو نیلی اور دلدار، گھٹائوں کے حوالے کر دیا، یہ گھٹائیں کبھی چھتوں پر پھول کھلاتیں تو کبھی صحنوں کو چمکاتیں، بیلوں کو گیلا کرتیں اور فلک کو اور نیلا کر جاتیں، منیر کی شاعری میں نیلی اور دلدار گھٹائوں کی گلکاریاں آپ کو جگہ جگہ نظر آئیں گی جو اس کی شاعری کو منور کیے ہوئے ہیں:
بہت دن ہوئے
میں نے اک بادلوں سے بھری صبح کو
خوابگاہ کے دریچے سے جھانکا
تو پائیں چمن کا ہر ایک پھول
حیرت زدہ لڑکیوں کی لجائی ہوئی آنکھ کی طرح
میری طرف تَک رہا تھا (صفحہ ۱۴۳)
انسان خواہش کرتاہے اور خواہشوں کے خواب بھی دیکھتا ہے، منیر کی بھی خواہش اور خواہشوں کے خواب تھے، وہ ان میں بھی نیچر کی ہی باتیں کرتا ہے جیسے ”ایک انا ر کا پیڑ باغ میں اور ہوا متوازی تھی۔” کالی گھور گھٹا، بوندوں کی رم جھم کو منیر نے کس طرح اپنے کلام میں باندھا ہے ذرا دیکھیے:
گھر کی منڈیروں پہ گِھر آئی کالی گھور گھٹا
بوندوں کی رم جھم میں سارے شہر کا شور مٹا
چھت پر پازیبوں کے سُر کا اُجلا پھول کھلا
منیر نیازی کا واسطہ گو تنہائی اور اس کے دکھوں سے رہا لیکن وہ اُن کے باوجود شعروں کے گلزار کھلاتا رہا:
میں جو نہ ہوتا
میری طرح پھر کون
جہاں کے
اتنے غموں کا بوجھ اٹھاتا
دوزخ کے شعلوں میں جل کر
شعروں کے گلزار کھلاتا (صفحہ ۲۰۵)
اسے اُس کے دل کا درد وہاں لے گیا جہاں پر طلسمات کے دَر کھُلے تھے:
مجھے درد دل کا وہاں لے گیا
جہاں دَر کھلے تھے طلسمات کے
پھر تو منیر نیازی تھا اور طلسمات تھے گلابی ہونٹوں کے، کاجل آنکھوں کے ، کالی زلفوں کے، رنگِ حنا سے سجے ہاتھوں کے، چاند چہرہ اور پھول جھڑتی باتوں کے:
مرے پاس ایسا طلسم ہے جو کئی زبانوں کا اسم ہے
اُسے جب بھی سوچا بلا لیا اسے جو بھی چاہا بنا دیا
(صفحہ ۲۳۲)
اس کے حسن کا بیان منیر کس طرح کرتا ہے یہ بھی دیکھیے:
چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی
اک باغ ساساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا
اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے
اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا
(صفحہ ۴۷۰)
ہے شکل تیری گلاب جیسی
نظر ہے تیری شراب جیسی
(صفحہ۶۱۲)
موسم کی مستیوں میں اسے دیکھنا ذرا!
ٹھنڈی ہوا کی زد پر ہے پیپل کا اس کا جسم
(صفحہ ۵۰۴)
یہ آنکھیں ہنسنے کے لیے بنی ہیں
خُمار کی فضا میں
یہ زلفیں اڑنے کے لیے بنی ہیں
بہار کی ہوا میں
یہ باتیں کہنے کے لیے بنی ہیں
وصال کی فضا میں
یہ راتیں رہنے کے لیے بنی ہیں(صفحہ ۶۹۶)
فراق کی ہوا میں
منیر ہمیں اس صبح کی جھلکیاں بھی دکھاتا رہتا ہے جو ہمارا بچپن تھی جب رنگ زندہ، ہوا تازہ اور آنکھیں روشن تھیں اور اس خوبصورتی اور صداقت کی جھلکیاں بھی، جو بڑھتی ہوئی کمینگی اور بے حسی کے باوجود اب بھی کہیں کہیں دلوں میں، چہروں پر، باتوں میں اور فطرت کے مظاہر میں باقی ہیں۔ … وہ ماضی کی را ہ سے مستقبل کو پہنچا ہے اور ہوا اُس کی رہنما ہے، کیونکہ ہوا ہی خوشبوئوں کو پھیلاتی … ہے(۹)
منیر تنہائی کے غم سے اَٹ ضرور گیا تھا لیکن وہ دنیا سے کٹ نہیں گیا:
غم سے لپٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
دنیا سے کٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
(صفحہ ۶۸۱)
روشنی دکھا دوں گا ان اندھیر نگروں کو
اک ہوا ضیائوں کی چار سو چلا دوں گا
(صفحہ ۵۱۳)
اور پھر اُس کی یہ دعا ”ایک دعا جو میں بھول گیا تھا”
اے طائرِ مسرت
اُڑ کر کسی شجر سے
آ بیٹھ میرے گھر پر
تیری صدائے خوش سے
خوش ہو یہ گھر ہمارا
دیکھے خوشی سے اس کو
غمگین شہر سارا(صفحہ ۶۸۷)
اور اس کی آخری خواہش:
چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
(صفحہ ۶۹۲)
اور آخر میں حضورؐ کی شان میں اس کا یہ شعر:
شامِ شہر ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے توؐ
یاد آ کر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے توؐ
منیر نیازی چلا گیا لیکن ہمیں زندہ رہنے کا طریقہ سکھا گیا۔
کتابیات/حوالہ جات
۱۔ کلیاتِ منیر نیازی، منیر نیازی، گورا پبلشرز (پرائیویٹ) لمیٹڈ، ۲۵۔ لوئر مال، لاہور، ۱۹۹۷ء
۲۔ حوالہ بالا صفحہ ۹۷۔
۳۔ اشفاق احمد، ایضاً، صفحہ ۱۲۸۔
4. De La Mare, Walter, The Listeners, Poetry Festival, edited by Bettenbender, John, Dell Publishing Co.,Inc.,1966, pp. 115-116.
۵۔ اشفاق احمد، کلیاتِ منیر نیازی صفحہ ۱۲۳۔
۶۔ اشفاق احمد، ایضاً صفحات ۱۲۶۔۱۲۵۔
۸۔ مجید امجد، کلیات منیر نیازی، صفحہ ۱۳۵۔
۹۔ سلیم الرحمن، محمد، ایضاً، صفحات ۲۵۳۔ ۲۵۲۔
٭٭٭٭
1 Trackback / Pingback
Comments are closed.