مابعد نائن الیون مغرب میں مطالعہ اسلام

حصہ اول

Dr Najeeba Arif

(نجیبہ عارف)

امریکا میں لفظ ’اسلام‘ اور اس کے بنیادی تصورات کے بارے میں جاننا چاہیں تو کتابوں کی کسی دکان میں داخل ہو جائیں۔ خون خشک کردینے والے عنوانات اور سرورق فوراً آپ کو اپنی طرف متوجہ کرلیں گے۔ یہ سنسنی خیز ، صحافیانہ ادب مسلمانوں کی امریکا دشمنی اور اس کے خلاف دہشت گردی کے لرزا دینے والے منصوبوں کو طشت از بام کر تا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ الماریوں میں ایسی کتابیں بھی موجودہیں جن میں نہایت سنجیدہ اور محققانہ انداز میں مسلم تہذیب کی ناکامی اور اسلام اور مغرب کے درمیان تصادم کی پیش گوئیوں کی تصدیق کی گئی ہے۔ وہیں کسی گوشے میں، اسلام کے فلسفۂ مذہب اور تاریخ سے متعلق ، بیزار کن اور پیچیدہ نثرمیں نصابی مباحث پر مبنی کچھ جائزے اور مطالعات بھی مل جاتے ہیں۔ شاید چند ایک مسلمان مصنفین کی اسلام کے خلاف الزام تراشیوں کے جواب میں دفاعی نقطۂ نظر سے لکھی گئی ،معذر ت خواہانہ انداز کی تحریریں بھی مل جائیں اورآخر میں دو تین تراجمِ قرآن۔۔۔ ایک اجنبی زبان کا پر اسرار اور ناقابل فہم متن۔ تو پھر اسلام سے شناسائی کیسے ہو؟ ۱؂

یہ وہ سوال ہے جو کارل ارنسٹ (Carl Ernst) نے اپنی کتاب Following Muhammad: Rethinking Islam in the Contemporary World (بر نقشِ کف پاے محمدﷺ) کے مقدمے میں، اپنی تصنیف کا جواز پیش کرتے ہوئے اٹھایاہے۔ کارل ارنسٹ کا نام امریکا میں مطالعات اسلامی کے پروفیسر کی حیثیت سے نیا نہیں۔ وہ کئی برس سے نارتھ کیرولینا یونی ورسٹی میں مطالعۂ اسلام کے پروفیسر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور کیرولینا مرکز براے مطالعۂ مشرقِ وسطیٰ اور تہذیب اسلامی کے ڈائرکٹر ہیں۔ ان کی زیرمطالعہ کتاب ۲۰۰۳ء میں پہلی بار نارتھ کیرولینا یونی ورسٹی پریس سے شائع ہوئی اور عربی، فارسی، ترکی، جرمن اور کورین زبانوں میں اس کے تراجم شائع ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ ہندستان اور برطانیہ سمیت کئی ممالک میں طبع ہوچکی ہے۔ اس کتاب نے علمی حلقوں میں غیر معمولی پذیرائی اور کئی عالمی ایوارڈ بھی حاصل کیے ۔۲؂

کتاب کے مقدمے ہی میں انھوں نے چند ذاتی تجربات کے ذریعے اس پس منظر سے واقف کر دیا ہے جس میں نہ صرف اس کتاب کی ضرورت اور اہمیت اجاگر ہوتی ہے بلکہ نائن الیون کے بعد امریکا میں تیزی سے ابھرنے اور پھیلنے والے اسلام مخالف جذبات کی شدت اور نوعیت بھی ظاہرہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ کتاب انھوں نے ۲۰۰۲ء میں تصنیف کی تھی جب نائن الیون کا واقعہ رونما ہوئے ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا ۔ اس تصنیف کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کی متعصبانہ اور بنیاد پرستانہ تفہیم سے دور رہتے ہوئے اس کی مذہبی روایت اور عصری تاثر کا، ایک مختلف اور ہم دردانہ مگر تجزیاتی اور استدلالی مطالعہ پیش کیا جائے ۔

یہ کتاب دراصل اس خصوصی دل چسپی کا مظہر ہے جو نائن الیون کے بعدپیدا ہونے والے حالات میں، اسلام اور اس کے عقائد، نظامِ معاشرت اور فکری اساس کے بارے میں مغرب، بالخصوص امریکا میں پیدا ہوئی ہے جہاں اسلام کا سنجیدگی، دل چسپی اور فکری آزادی سے مطالعہ کیا جارہا ہے۔ کارل ارنسٹ نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں (ارنسٹ،ص xix) اور اس کتاب کی تصنیف کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کے اس انسان دوست تاثر کو اجاگر کیا جائے جوصوفیہ کی تعلیمات کا عطر ہے اور انسانیت کے تحفظ کی خاطر،بین المذاہب ہم آہنگی، برداشت اور تحمل کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگرچہ انھیں اپنے اس مقصد کی راہ میں حائل دوطرفہ دشواریوں کا بھی احساس ہے جن کا ایک پہلو تو یورپ اور امریکا میں اسلامی نظریات و نظام حیات سے لاعلمی کا نتیجہ ہے، اور دوسرا خود مسلمانوں کے انتہا پسندعناصر کی سرگرمیوں کا ردعمل ہے جو اسلام کواپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ تاہم ان کا یہ اعتراف کہ اسلام کا غیر جانب دارانہ مطالعہ اس لیے ضروری ہے تاکہ امریکیوں کو معلوم ہو سکے کہ مسلمان بھی انسان ہیں اور انسانیت کے کل کا ایک جزو ہیں (ایضاً، ص xvii)، اصل صورت حال کا چشم کشا اشارہ ہے۔

کتاب کل چھے ابواب پر مشتمل ہے جس میں اسلام کابطور مذہب اور نظام حیات مطالعہ کیا گیا ہے۔کئی مقامات پر یہ مطالعہ اس قدر جامع اور گہرا نہیں مگر مجموعی طور پر مصنف کا نقطۂ نظر بے تعصبی اور غیر جانب داری پر مبنی ہے۔ تاہم اس کتاب کا پہلا باب جسے، اس مضمون میں موضوعِ بحث بنایا گیاہے،کئی حوالوں سے اس لائق ہے کہ اس کے مندرجات کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے اور ان کی روشنی میں مغرب میں پھیلنے والے اسلام کے منفی تاثر کے اسباب و محرکات پر غور کیا جائے۔ اس باب کا عنوان ہے ’’اسلام :مغرب کی نظر میں‘‘۔

 

(جاری ہے)