(شکور رافع)
ریاست کو بہرحال قواعد و ضوابط کے تحت چلنا چاہیے۔
ہاں..اس قواعد ساز ہئیت مقتدرہ کا چناؤ کتنا آزادانہ اور منصفانہ ہے… عوامی شعور اور خالص مزاحمتی تحریکوں کی مقبولیت تک اس بحث سے قطع نظری ہی مناسب ہے۔
یہ تسلیم کہ ملکی قوانین کے تحت کسی بھی فرد پر تعصب، خوف، نفرت اور دہشت پھیلانے کا الزام ہو تو اسے بنائے گئے ان احتسابی قوانین سے گزرنا چاہیے۔ چاہے ان رائج قوانین کے ثمرات سے جھنگ کے کوئی جھنگوی پارلیمان میں پہنچ جائیں یا اپنی بے باکی کے عوض کوئی بے باک قلم کار سائبر کرائم کا مجرم ٹھہرے۔
ہم سائبر کرائم قانون کی پیچیدگیوں سے نا بلد ہیں سو ان سماجی فلاحی اور قانونی تنظیموں کے منتظر ہیں جو ان حساس معاملات میں ریاست اور عوام میں متوازن اور کسی قابل قبول راستے کی سفارشات پیش کریں لیکن یہ بات تو انتہائی سادہ ہے کہ کسی بھی “ملزم” کو بنا کورٹ کچہری ایسے غائب کر لینا ریاست اور اس کے قوانین پر طمانچہ ہے.. اور ملزم بھی وہ جو قلم سے، ضمیر سے اور لفظ سے نسبت رکھتے ہوں۔
ہم بنا کسی وارنٹ، کسی تحریری آرڈر اور پیشگی الزام کے سلمان حیدر. احمد وقاص گورایہ سمیت کئی سماجی موضوعات پر لکھنے والوں کی پراسرار گمشدگی پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں اور تمام قلم بردار اور قلم نواز دوستوں سے اظہار و ابلاغ کے اس بنیادی حق کو یوں اٹھا لیے جانے پر احتجاج کرنے کی دعوت دیتے ہیں. بقول شاعر
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں!
زیر نظر ویڈیو میں بنیادی انسانی حقوق کے دعوے کے باوجود ریاست میں سطحی، ہیجانی اور جنسی و تعصباتی مواد کی قبولیت مگر تجسس، سوال اور مباحثہ پر ناپسندیدگی بلکہ گمشدگی کو موضوع بنایا گیا ہے. اداکاری رابعہ شکور کی ہے جبکہ سکرپٹ اور صداکاری شکور رافع کی ہے۔