(اورنگ زیب نیازی)
گولی اور گالی بے دلیل معاشرت کی نشانی ہے۔عقل کی الماری منطق سے خالی ہو جائے تو منہ سے غلاظت بہتی ہے،دلیل ختم ہو جائے تو آنکھوں سے آگ نکلتی ہے۔باب العلم نے فرمایا تھا:کلام کرو تاکہ پہچانے جاؤ۔مکالمہ اختلاف کو جنم دیتا ہے۔اختلاف کشادہ دلی کے ساتھ،تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں رہ کر ہو تو سلجھاؤ کی سبیل نکالتا ہے۔ ضد اور اکھڑ پن سے ہو توجھگڑے کو ہوا دیتا ہے۔اپنے نظریے کی حقانیت پر اصرار اور اپنے نقطئہ نظر کا جبراََ مسلط کرنے کی خواہش اس رویّے کو جنم دیتی ہے جسے ہم شدت پسندی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
وہی شدت پسندی جو آج ہمارے سماج کی رگوں میں بارود بن کر دوڑ رہی ہے۔شدت پسندی،ملائیت اور طالبانیت کا اظہار آغاز میں ایک مخصوص گروہ کی طرف سے ہوا ہے لیکن راقم ’’ایک روزن‘‘ کے صفحات پر پہلے بھی عرض کر چکا ہے کہ موجودہ تناظر میں یہ اصطلاحیں نئی تعریف کا تقاضا کر رہی ہیں۔اب ان اصطلاحوں کو ہم کسی ایک گروہ سے مخصوص نہیں کر سکتے۔اب یہ اصطلاحیں ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی نمایندگی کر تی ہیں۔ہر وہ فرد اور گروہ،جس کا تعلق خواہ کسی بھی مکتبِ فکر سے ہے،وہ شدت پسند،ملا اور طالبان ہے اگر وہ اپنا نقطئہ نظر جبراََ دوسروں پر مسلط کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔اور اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے بندوق،جتھہ بندی،قلم،اخبار،فیس بک،ٹویٹر یا بلاگ جیسا کوئی بھی میڈیم استعمال کر رہا ہو۔
یہی معاملہ ظاہری شناخت کے ساتھ ہے۔مُلّا بندوق اور داڑھی والا بھی ہو سکتا ہے اور نیکر اور جام والا بھی۔ اکثریتی گروہ طاقت پر اجارہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے،اکثریت کے بل پر کامیاب بھی ہوتا ہے۔اسے اپنے نظریے کے پرچار کا حق حاصل ہے لیکن کسی اقلیتی گروہ پر تسلط کا نہیں۔بعینہٖ اقلیتی گروہ کو یہ استحقاق حاصل ہے کہ وہ اپنے عقیدے کا پرچار اور دفاع کرے۔ یہ انسان کا بنیادی حق ہے اور دنیا کے تمام مہذب معاشرے اس حق کو قبول کر چکے ہیں۔کسی مذہب نے بھی فرد کے اس حق سے انکار نہیں کیا۔درحقیقت مسابقت کی خواہش اور رد عمل کی نفسیات بگاڑ کا باعث بنتی ہے۔جب ایک گروہ عقل اور منطق کے بجائے طاقت کے ذریعے اپنے نظریے کا اجارہ چاہتا ہے تو دوسرا گروہ دلیل کا دامن چھوڑ کر تضحیک کا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ایک عمل کے رد عمل اور رد عمل در رد عمل کا نتیجہ عدم برداشت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔یوں دونوں گروہ متشددانہ راستہ اختیار کرتے ہیں اور سماج کی رگوں میں وہ ساینائیڈ بھرتے جو سماج کی تنظیم اور ترتیب کو تہس نہس کردیتا ہے۔
گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پرہر دو بیانیوں کا اظہار ہولناک صورت اختیار کر چکا ہے۔وہ جو تاریک راہوں میں اٹھا لیے گئے،ان کا جرم کیا تھا،کسی کو یقین نہیں۔جو جرم بتایا جا رہا ہے،اس کا ثبوت نہیں۔جب تک جرم ثابت نہیں ہو جاتا،فرد جرم کیوں کر عائد کی جا سکتی ہے؟اگر جرم یہی ہے جو بتایا جا رہا ہے تو سنگین جرم ہے۔کوئی بھی مذہب،مسلک اور عقیدہ اختیار کرنا آپ کا حق ہے۔کسی دوسرے مذہب،مسلک سے اختلاف رکھنا بھی آپ کا حق ہے لیکن کسی دوسرے مذہب،مذہب کے شارع یا مذہبی کتاب تو کجا کسی دوسرے مذہب و مسلک کے پیرو کار کی انفرادی تضحیک و توہین کا بھی آپ کو اختیار حاصل نہیں۔
اگر آپ کو قانون کی کسی شق سے اختلاف ہے تو دلیل کی طاقت سے رد کریں۔چند افراد کے انفرادی افعال کی سزا کروڑوں انسانوں کے جذبات کو نہ دیں آج سوشل میڈیا کارزار کا منظر پیش کر رہا ہے۔مشعل بریگیڈ اور موم بتی بریگیڈ پوزیشنیں سنبھال چکے ہیں۔ میمنہ ،میسرہ مستعد ہیں۔ زہر بجھے تیروں کی بارش جاری ہے۔تضحیک و توہین کی انتہا ہے۔ فیس بک سے لیا گیا ایک تازہ مکالمہ ملاحظہ کریں:
مشعل: پچیس سے تیس آنٹیاں اور چلغوزے ۔۔۔ان بے غیرتوں۔۔۔کے حق میں احتجاج کو نکلے ہیں۔
موم بتی:کسی ۔۔۔۔ کے زہر مار ہونے کے بعد تو پانچ کندھے بھی جنازے کے لیے نہیں تھے۔ (نعوذ باللہ)
مشعل بردار تو اپنی جتھہ بندی کی طاقت کے نشے میں اپنے مؤقف پر قایم رہیں گے۔موم بتی والے لازماََ کہیں گے کہ یہ کسی کا انفرادی فعل ہے۔ اگر انفرادی فعل ہے تو آپ میں اتنی اخلاقی جرأت ہونی چاہیے کہ لائیکس اور سمائیلیز دے کر اس طرز فکر کی حمایت کرنے کے بجائے لا تعلقی کا ااظہار اور مذمت کریں۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ شدت پسندی،ملائیت اور طالبانیت کی اصطلاحوں کا اطلاق موم بتی و الوں پر بھی اسی قدر ہوتا ہے جس قدر بندوق والوں پر۔ کیوں کہ دونوں ہی معاشرے میں شدت پسندی کا زہر پھیلا رہے ہیں۔ یہ دونوں گروہ چند ہزار افراد پر مشتمل ہیں، اس ملک اور سماج کی غالب اکثریت نہیں ہیں۔ اس ملک میں غالب اکثریت وہ ہے جو وارث شاہ، بلھے شاہ اور شاہ حسین کی حقیقی لبرل سوچ کی وارث ہے۔ افسوس کہ وہ اس وقت لحافوں میں گھس کر پاکستان اور آسٹریلیا کا میچ دیکھ رہی ہے۔