(علی اکبر ناطق)
جب انسان کچھ زیادہ ہی دانشور بن جائے تو اس کے قلم سے معقول بات نکلنا ممکن نہیں رہتا۔ شعر تو اس کی جمالیات کے زمرے میں آتا ہی نہیں کیونکہ شاعری آدھی یا مکمل گمراہی کا نام ہے۔ اس لیے شاعر کا گمراہ ہونا اس کی شاعری کی پختہ دلیل ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ شاعری، گمراہی، بغاوت اور بے راہ روی ایسے مترادفات ہیں جو ہمیشہ ، روایات کہنہ اور احترام جبر کو تمسخرانہ نگاہوں سے دیکھنے عادی ہیں۔ نتیجے میں
ایک صناد جنم لیتا ہے۔ جس میں ٹوٹ پھوٹ او رتخریب کاری کے لاوے اٹھتے ہیں۔ لہٰذا شاعر تن تنہا ہونے کی وجہ سے انھیں لاووں میں خاکستر ہو جاتا ہے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ شاعر جس قدر بڑا ہو گا اتنا ہی باغی، ہٹ دھرم، نامراد اور بے حیا ہو گاکہ اس بیچارے کی فطرت انہی اجزا سے تجسیم ہوئی ہے۔ ایک شریف ، پابندِ روایاتِ کہنہ کے بس کا یہ کام ہی نہیں۔ افضل ساحر سے میرا لمباچوڑا سلسلۂ ربط نہیں۔ نہ میں اس کے روز وشب کا گواہ ہوں، محض چند ملاقاتیں ہیں۔ ان ملاقاتوں میں بھی ہم کبھی ہم پیالہ نہیں ہوئے کیونکہ میں لسی پیتا ہوں۔ لہٰذا میں ان کے کارہائے ظلمت وگمراہی سے واقف تو نہیں مگر ہزار یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ شخص جمنا میں الٹا بہتا ہو گا۔ میرے دعوے کی دلیل اس کا پہلا شعری مجموعہ ’’نال سجن دے رہیے‘‘ میرے سامنے پڑا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے اپنے مجموعے کا یہ نام کیوں رکھا۔ کیونکہ محبوب کے ساتھ رہنے کے جتنے سلسلے اور رابطے ہو سکتے تھے انھیں اس کتاب میں ایک ایک کر کے افضل ساحر کاٹتا ہوا نظر آتاہے، کہیں مصلحت پسندی نظر نہیں آتی، کہیں نکاح خواہ ملا کا احترام نہیں، کسی جگہ بھی محبوب کے نام نہاد اب وجد کا قصیدہ دکھائی نہیں دیا۔ جس مصرعے کو اٹھا کے دیکھو ملامت کی کلکاریاں ہیں۔ جس نظم کو جانچو ہجو مبین کا سلسلہ ہے۔ نظمیں کیا ہیں۔ملامتوں کی کڑیاں ہیں کہ بغاوتوں کی زنجیر بنتی چلی جاتی ہیں اور اس خوبی سے کہ دھونکنی کی آنچ کم ہوتی ہے نہ زیادہ۔ یہ بات مجھے اچھی طرح معلوم ہے۔ ہر بڑا شاعر انتہائی سادہ یعنی الّو ہوتا ہے۔ اپنا نقصان اسے اتنا عزیز ہے کہ سانس سانس اسی کی خریداری کرتا ہے۔
مصرعے بناتا ہے جو بکتے نہیں، کیونکہ وہ ایسے پرندے ہوتے ہیں جو دم عیسیٰ کی روح اور یدِ عیسیٰ کا لمس چرائے ہوتے ہیں۔ بس بنتے ہی اُڑ جاتے ہیں۔
وہ بستی بستی آنکھوں میں رنگ بھرتے اور سماعتوں کو ترانے سناتے چلے جاتے ہیں۔ اگر مجھ پر فتوے کا ڈر نہ ہو تو کہہ دوں کہ افضل ساحر کی نظمیں دم عیسیٰ کی روح اور یدِ بیضا کا لمس لیے ہیں۔ جنھوں نے آب ِ حیات کا پانی پیا ہے۔ نہ ان پر بڑھاپا آئے ، نہ پرانی ہوں، نہ موت آئے، نہ ہڈیوں پہ نوحہ خوانی ہو۔
افضل ساحرمبارک ہو کہ تم نے صرف شاعری کی ہے۔ ایسی شاعری جس میں بازی گری نہیں، ڈرامہ بازی نہیں، استادی دکھانے کی کوشش نہیں کی۔ اپنے دل کے خون سے لفظوں کے شیشے بناتے ہو، کرچیوں میں پروتے ہو اور سامنے والے کے دل میں ترازو کرتے ہو۔ ایک پاگل کا دکھ پاگل نہ سمجھے گا تو کون سمجھے گا۔ افضل ساحر یہ تو پاگلوں کی بستی ہے اور آپ نے نظمیں پہ نہیں کہیں ہمارے دماغوں پہ پھاہے رکھے ہیں یہ کہہ کر
جندڑیے!
آ کھڑ کھڑ رویے
تے مار دو ہتھڑ سّیے
ایہ جیون نہیں ساڈا جیون
روح دی جونے ویسے
بس روح کی بستی میں رہنے کا یہی المیہ ہے کہ وہاں منافقت کا گزر نہیں۔ لہٰذا طہارتوں اور صداقتوں میں آپ کہاں تک گڑی ہوئی سولیاں ہٹاتے جائیں گے۔ ایک نہ ایک سولی ضرور آپ کا مقدر بنے گی۔ اگر افضل ساحر اسے بدعا نہ سمجھے تو میں ان سولیوں پر اُسے سلامی دوں گا۔
کون کہتا ہے لفظوں کی طہارت آئینے نہیں دکھاتی۔ مگر دیکھنے والے منہ بھی تو چاہیئیں۔ آئیے شفقوں کے افق پہ پھیلے ہوئے یہ بصری صحیفے دیکھیے۔ کس طرح روح کے موتیوں سے افضل ساحر نے صفحہ دل پہ نقش کیے ہیں کہ گرانی کا احساس نہیں ہو تا۔
یاد رکھیے بڑا شاعر کبھی اپنے تہذیبی، سیاسی، سماجی اور معاشی پس منظر سے ہٹ کر شاعری کر ہی نہیں سکتا۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی شاعری منشور اور نظریات کے مسودے بن کر رہ جائے۔ یہ چیزیں اُس کے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہیں اولین اور بنیادی عنصر اس کے ہاں جمالیات کا ہوتا ہے۔ افضل ساحر اس بات کو بخوبی جانتا ہے۔ جانتا ہے سے کیا مطلب؟ وہ فطری طور پر بڑا شاعر ہے۔ اس کی ہر نظم زندگی کا المیہ ہے۔ ان نام نہاد خادمان امت کا عطا کیا ہوا جو کبھی ہم میں سے تھے ہی نہیں۔ وہ تو ایسی اشرافیہ میں، جن کے طے شدہ فیصلوں میں نظرثانی اور مشاورت کو دخل نہیں اور یہ فیصلے ہمارے لیے وہ مقدر ہیں جو ہماری مرضی پوچھے بغیر لکھ دیے گئے ہیں۔ یہی وہ ہونی ہے۔ جس کا سراغ افضل ساحر نے کچھ اس طرح لگایا کہ ہم کانپ کے رہ گئے۔
ہونیے من مونیے،
عمراں دے دھونے دھونیے،
چل اگے اگے
آوندے نت بھچال نی،
ساڈی اِک اِک رگے،
ساڈیاں ناڑاں نال،
کُھوہاں نوں جالے لگے
ساڈایاں سوچاں نال
سمے دے دھولے بگّے
ہونیے من مونیے
چل اگے اگے
اور جب یہ ہونی، کا جبر مسلسل زندگی کا رفیق بن جائے، تو پھر بقول غالب
سختی کشان عشق کی کیا پوچھو فنا کی راہ
وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے
یعنی جبر کا مقدر جزو خون بن کے رہ جاتا ہے۔ پھر ہم جان بوجھ کر اذیت پسند ہو جاتے ہیں۔ یہ زندگی کے ایسے پیچیدہ سچ ہیں جن سے مفر نہیں مگر انھیں بیان کرنے اور ہمیں سمجھانے کا ہنر افضل ساحر ہی کو آیا ہے۔ ظالم کس خوبی سے لکھتا ہے۔
سئیو نی مینوں اَک سوادی لگے
پیڑاں ہیٹھ ہنڈاواں جنڈری
ساھواں دے وچ کھگے
سیونی مینوں اَک سوادی لگے
اور یہاں تو غضب کر دیا
ساہواں پلّے دُکھ چِنتا دے
ہنجھ سلوے ردِھے
جے کوئی دکھدی رگ نوں چھیڑے
ہس ہس پاواں گِدھے
حضرات نہیں پتا کہ میں کتنی پنجابی سمجھتا ہوں، مجھے شاعری کا ادراک کتنا ہے۔ البتہ یہ مانتا ہوں کہ ہیر وارث شاہ، بلھے شاہ، شاہ حسین میری روح کے پڑوسی ہیں۔ میں ان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا، سوتا جاگتارہا لہٰذا کوئی دوسرا مجھے نہ سمجھائے کہ شاعری اور پنجابی زبان کے کیا رموز ہیں۔ اسی دعوے کی بنیاد پر افضل ساحر میرے لیے ایسے با کمال شاعر ہیں، جو تمثیلوں سے ماورا اور ہم عصروں سے مبرا اپنی ہی سانسوں کی ریزہ چینی سے موتیوں کے پٹارے بھرتے ہیں۔ بجا ہے جو امرتا پریتم یاشو کمارساحر کی سلامی کو پہنچیں اور یہ کہتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیں۔
کیہڑے دیسوں آئی ایں…… نی البیلیے
لُوں لُوں آن سمائی ایں …… نی البیلیے
توں کیہڑے دیسوں آئی ایں
قدرت وانگوں بھیت پٹاری
عشقے وانگ شُدائی ایں
نی البیلیے…… توں کیہڑے دیسوں آئی ایں
اور
آپو آپ اِچ کلّم کلّی
آپے کُل خدائی ایں نے البیلیے
توں کیہڑے دیسوں آئی ایں
اور پھر اسے وارث اور بلھے کے قدموں میں جا بٹھائیں۔ جہاں بقول محمد حسین آزاد بقائے دوام کا دربار سجا ہے اور شہرت عام کا تاج اس کے مقدر کا ستارہ ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ یہاں ایسے ویسوں کا گزر نہیں۔ یہ تو وہ منزل ہے جس کا رستہ قلبِ ظلمات کی ہولناکیوں سے ہوکے نکلتا ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ افضل ساحر کے علاوہ اس عصر زیاں میں کوئی دوسرا شیریں زباں نہیں مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ مجھے دور حاضر کی پنجابی شاعری میں چند تکراروں کے سوا کچھ نہیں ملتا، محض غربت کا رونا، دھرتی کا سیاپا اور محبوب کا ویروا۔ مگر افضل ساحر کی کتاب کھولتے ہی ہمیں حقیقی شاعری سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہاں رنگ و نور کے امتزاج اور قلب و وجدان کے اختلاط سے ہلکے سُروں میں گیت چھڑتے ہیں جنہیں خلوت میں سنیے تو وحی لگے، جلوت میں سنیے تو اذانِ سحر محسوس ہو۔ یہ شاعری بھی ہے ، ساحری بھی، سرورِ فکر بھی ہے، نالہ جگر کاوی بھی۔ افضل کی یہ نظمیں وارث شاہ سے فضل گجراتی تک محبتوں کی ایک تعزیر ہے اور المیوں کی صورت ایجاد ہے۔ اس کے دل کی کیفیتیں نہیں بدلتیں، لیکن یہ بھی نہیں کہ وہ خارجی فضاؤں سے بیگانہ ہے۔ اسے موسموں میں آتی جاتی شرارتوں کا پورااحساس ہے۔ یہی احساس اسے یہ کہنے پر مجبور کرتاہے۔
لگے بُور تے پھٹیاں لگراں
چیتر رنگ نروے وے لوکا
رُکھاں رنگ وٹائے
چیتر رنگ نروے
اسیں نہ اپنے جُسّیاں اُتوں
ہنڈھے ورتے لاہے
کھوہ تے کھڑہ کے وی نہ بھریا
بھانڈا لوے لوے