(ظفر سید)
مجھے معلوم تھا کہ پچھلی رات واشنگٹن ڈی سی میں نہ صرف ملک کے مختلف شہروں بلکہ دنیا کے مختلف ملکوں سے تاریخ کے اس خاص موڑ میں شرکت کرنے 20 لاکھ لوگ غول در غول اترے ہیں اور اب ان کی منزل کیپیٹل ہل کے سامنے پھیلا وسیع و عریض سبزہ زار ہے جہاں کچھ ہی دیر بعد امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر براک حسین اوباما کا جشنِ حلف برداری شروع ہو رہا ہے۔
آج خود میری امیدوں کا پارہ چھت کو چھو رہا تھا۔ صبح اٹھ کر جب مجھے یاد آیا کہ آج 20 جنوری ہے تو وہی کیفیت طاری ہوئی جب بچپن میں عید کی صبح آنکھ کھلنے کے بعد پہلی بار احساس ہوتا تھا کہ آج کون سا دن ہے تو دل بےاختیار مسرت سے لبالب ہو جایا کرتا تھا۔ مجھے امید تھی کہ آج کے بعد سے حالات پہلے جیسے نہیں رہیں گے، دنیا کو لگے ہوئے دائمی روگ اگر مکمل طور پر ختم نہیں ہوتے تو ان کی علامات میں کمی ضرور واقع ہو جائے گی، عالمِ انسانیت اگر منزل پر پہنچا نہیں تب بھی کم از کم درست راستے پر رواں ضرور ہو گیا ہے۔
لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اس سیلِ بے پناہ کے تھپیڑوں میں میرا دم گھٹنے لگا۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مجھے یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ میں کہاں ہوں اور کدھر جا رہا ہوں۔ جیسے کوئی آپ کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر زور سے گھما دے اور آپ سمتوں کا تعین کھو بیٹھیں۔
میں پچھلے ڈھائی سال سے ہر روز اسی راستے پر چل کر دفتر جایا کرتا تھا۔ مجھے زبانی یاد تھا کہ بیس بال گراؤنڈ کے بعد جی سٹریٹ آئے گی، پھر فری وے کے نیچے سے ہوتے ہوئے انسدادِ امراض کا محکمہ سی ڈی سی، اس کے بعد میکڈانلڈز سے بائیں مڑ کر سی سٹریٹ، اور سی سٹریٹ پر اپنا دفتر۔ لیکن اب میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں لوگوں کی متحرک فصیلیں تھیں، جنھوں نے تمام منظر اوجھل کر دیے تھے۔ ان لوگوں کے چہرے جوش، ولولے اور مسرت سے تمتما رہے تھے اور آنکھوں میں امنگوں کے قمقمے روشن تھے۔ یہ سب کسی قدیم مذہبی عبادت میں حصہ لینے والے زائرین کی طرح پرعزم قدم بڑھائے چلے جا رہے تھے۔
20جنوری پھر آیا ہے۔ ان دو 20 جنوریوں کے بیچ بہت سا پانی ہی پلوں کے نیچے سے نہیں گزرا، بلکہ کئی پل بھی پانی ہو چکے ہیں۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اس دوران دنیا کو اوباما سے کیا ملا؟
اس دن تو مجھے خاصی دیر دھکے کھانے، لڑکھڑانے اور پیر کچلوانے کے بعد بالآخر سی سٹریٹ پر موقع مل گیا کہ میں اس بلوے میں اچانک کھلنے والی ایک چھوٹی سی کھڑکی پھلانگ کر دفتر کی طرف دوڑ لگا دوں۔
لیکن میڈیا پر عوام کے تاثرات جان کر اور امریکہ میں مقیم دوستوں سے بات کر کے اندازہ ہو رہا ہے کہ امریکیوں کی اکثریت محسوس کر رہی ہے جیسے انھیں بھی راستے پر چلتے چلتے کسی سیلابی ریلے نے یک لخت دبوچ لیا ہے۔ آج کے دن وہ اسی گھٹن، بےسمتی اور وحشت کی کیفیت سے دوچار ہیں جس کا میں آٹھ برس قبل شکار ہوا تھا۔
اور مجھے لگتا ہے کہ انھیں اس سے نکلنے کے لیے اپنی سی سٹریٹ کے انتظار میں ایک لمبا، بہت لمبا وقت کاٹنا پڑے گا۔