(سید عمران بخاری)
آہستہ آہستہ شور سسکیوں میں بدلا اور اب سسکیوں پر خاموشی طاری ہونے لگی ہے۔ جو آوازیں کسی انقلاب کا نقارہ محسوس ہو رہی تھیں اُن آوازوں پر موت کا سا سناٹا اور بے بسی غالب ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی ہے۔ ایسا ہی ہوتا آیا ہے ہمیشہ!
طاقت کے نشے میں چُور قوتیں ہمیشہ ہی سے اِس سناٹے اور خاموشی کو اپنی جیت سمجھ کر تاریخ کے اوراق سے اپنی نظریں پھیرتی رہی ہیں۔ وہ اپنی طاقت کے نشے میں اتنی اندھی ہو جاتی ہیں کہ انہیں نظر ہی نہیں آتا کہ اُن کے ظلم نے کتنے ہی مظلوم اور محبوس دلوں کو باہم یکجا کر کے ایک آتش فشاں پہاڑ کی سی قوت عطا کر دی ہے۔
اُن محبوس اور مجبور دلوں میں سے ایک دل میرا بھی ہے۔ جو اپنے ایک بہت ہی عزیز گمشدہ دوست کی تلاش میں چلاتا اور بِلبلاتا پھر رہا تھا۔ کہ اچانک اُس درد اور کرب میں مبتلا آواز کو اپنے ہی جیسی کچھ اور اُسی طرح کے درد اور کرب میں مبتلا آوازیں سنائی دیں۔
گو کہ وہ آوازیں اپنی سُر اور لَے میں بظاہر مختلف تھیں لیکن اُن سب آوازوں کا کرب اور مقصد ایک ہی تھا۔ آج وہ دُکھی اور مظلوم دل یکجا ہو چکے ہیں، وہ انفرادی اور بظاہر مختلف آوازیں ایک کورَس کی صورت اختیار کر چُکی ہیں۔ مختلف پہاڑوں سے پھوٹنے والے چشمے یکجا ہو کر ایک ندی کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ اب انتظار اِس ندی کے دریا میں بدلنے کا ہے۔
طاقت کے نشے میں مدہوش جبر کا بیوپار کرنے والوں کو نہیں معلوم کہ اُن کے اور سیلاب کے بِیچ فاصلہ صرف ندی سے دریا بننے تک کا ہے۔
خاموشی کو سکون سمجھنے والوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ جبر اور نفرت کی بنیاد پر معاشرے نا تو یکجا ہو سکتے ہیں اور نا ہی زیادہ دیر تک قائم رہ سکتے ہیں۔ دلوں کی طرح معاشرے بھی محبت سے یکجا ہوتے ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملک ہر قسم کے خلفشار سے آزاد ہو تو ریاست عزیز کو چاہیے کہ اپنی زبان کے ساتھ ساتھ اپنی آنکھیں اور کان بھی کھولے۔ کیتھارسس میں مرہم کا سا اثر ہوتا ہے۔ لوگوں کو اپنے کیتھارسس کا موقع ملنا چاہیے۔ کیتھارسس کو بغاوت سمجھنا ہی بنیادی غلطی ہے۔ ریاست کو لاحق خوف اُسی صورت ہی دور ہو سکتا ہے جبکہ ریاست اور اُس کے شہریوں کے درمیان موجود رشتے کی اساس محبت کا جذبہ ہو، نا کہ خوف اور جبر۔ اور محبت دو طرفہ ہوا کرتی ہے۔
یہی گذارش مذہبی سوچ رکھنے والے افراد سے بھی ہے۔ اگر آپ اسلام کو دینِ فطرت سمجھتے ہیں تو فرد کے ساتھ ساتھ معاشرتی فطرت اور اُس کے تقاضوں کو بھی سمجھیں۔ اللہ کی صفتِ رحمت اُس کی تمام صفات پر غالب اور انہیں ڈھانپے ہوئے ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اُس کا دین اُس کی صفات کی ضد ہو؟ محبت انسان کی فطرت ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اُس سے محبت کی جائے۔ جب آپ اُسے قابلِ نفرت اور حقیر سمجھیں گے تو وہ کیونکر آپ کی طرف متوجہ ہو گا یا آپ کی طرف کشش محسوس کرے گا؟
یہ عین فطری ہے کہ انسان اُن لوگوں سے نفرت اور بُعد محسوس کرتا ہے جو اُسے حقیر یا قابلِ نفرت سمجھتے ہوں۔ جبر اور نفرت انسانی اور معاشرتی فطرت میں گھُٹن اور بیزاری پیدا کرتے ہیں۔ خدارا مِشکوٰۃ شریف میں مندرجہ اُس حدیث کا مصداق بننے والوں میں شامل نا ہوں جِس میں آپﷺ نے پیشین گوئی کی تھی کہ ”ایک وقت آئے گا کہ آسمان کی چھت تلے بدترین لوگ میری امت کے علما ہوں گے، انہی میں سے فتنے نکلیں گے اور انہی میں لوٹیں گے”۔
کوئی بھی نظریہ یا ریاست مضبوط تبھی ہوتے ہیں جب اُس کے ساتھ وابستہ افراد باہم محبت اور رحمت کی زنجیر میں جُڑے ہوئے ہوں۔
نبی پاک کی پیش گوئ درست ہے تمام تفرقے ملاؤں وجہ سے ہے