(سبین علی)
یورپ میں تانیثیت کی ابتدائی تحریک پندرہویں صدی عیسوی میں اٹھی اس کے بعد تانیثیت کی دوسری بڑی لہر ۱۹۶۰ء میں اور تیسری بڑی لہر ۱۹۸۰ء کے قریب دیکھنے میں آئی ۔ دوسری طرف اردو ادب میں تانیثیت کی تاریخ کھنگالیں تو نسائی رجحانات بیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے نظر آنے لگ گئے تھے لیکن بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعدجب تانیثی ادب دنیا بھر میں ایک نئے دور میں داخل ہوا تو اس تحریک کے اثرات اردوادب پربھی پڑے۔ اس دہائی میں اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر کئی شاعرات جنہوں نے اردو ادب کا دامن اپنی تخلیقات سے وسیع کیا تھا ،کے ہاں بھی نسائیت کے رنگ نظر آتے ہیں ۔جہاں ان کی تخلیقات نئی نسائی شناخت اورخود آگہی کے ساتھ سامنے آئیں۔ اس کے بعد والے ادوار میں بہت سی مصنفاؤں نے بہترین نسائی و تانیثی ادب تخلیق کیا۔
اس مختصر مضمون میں جہاں میں نسیم سید کے افسانے چراغ آفریدم کا متنی جائزہ نسائیت و تانیثیت کی روشنی میں لے رہی ہوں تو ان دو اصطلاحات میں فرق بھی واضح کروں گی۔ نسائیت عورتوں کے ان خیالات و احساسات کا احاطہ کرتی ہے جو ان کے تجربات،مشاہدات ،گھریلو پرورش اور ماحولیاتی جبر کے نتیجے پیدا ہوتے ہیں ۔ جبکہ تانیثیت نہ صرف صنف کی بنیاد پر جبر کو رد کرتی بلکہ معاشرے کی گئی اس ذہن سازی کو بھی رد کرتی ہے جو عورت کو کم تر گردانتی ہے ۔
تمہارے بس میں یہ کب ہے
تم ہمارے لکھنے والی انگلیوں کی شمعیں گل کر دو
ہمارے حرف کو بازار میں رکھ دو
ہمارے قد و قامت کو کتر کے
دھجی دھجی کر کر
ردی کاغذوں میں
کوڑے کرکٹ میں دبا دو
ہمارے ہونٹ دیواروں میں چنوا دو
تمہارے بس میں ہے
ہم جانتے ہیں مانتے ہیں
سب تمہارے بس میں ہے
لیکن ہماری سوچ پر تالا لگاتے
اور اپنی چابیوں کے بھاری گچھے میں
وہ چابی ڈال کے مٹھی دبا لیتے
کہیں تہہ میں سمندر کی اچھال آتے
تمہارے بس میں یہ کب ہے
یہ نسیم سید کا نسائی لحن ہے احتجاج ہے اور سوچ کی آزادی کا، گویا بغاوت کا اظہار ہے جو صدیوں کی محکومی غلامی اور عورت کے شعور کو اندھیرے سے نکال کر فکر و نظر میں چراغ جلانے کا اعلان ہے ۔
نسیم سید کا نمائیندہ افسانہ چراغ آفریدم ایک لمبے بن باس کے بعد راوی کے خود سے کئے گئے ایک مکالمے کا آغاز ہے جو اردو ادب کے نسائی لحن میں ایک خوب صورت اور جاندار اضافہ ہے ۔ برصغیر کی معاشرت میں جہاں مرد کو مجازی خدا قرار دیا گیا اور عورت کو اس کے پاؤں کی جوتی وہیں نسیم سید نے اقبال کے خدا اور انسان کے بیچ مکالمے کو استعارہ بنا کر مرد (مجازی خدا) اور عورت کمتر سمجھی گئی انسان (پاؤں کی جوتی )کے بیچ مکالمے میں ڈھال دیا ہے
انسان:
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم
چراغ آفریدم جبر کی اندھیری رات میں چراغ جلانے کا اعلان ہے بھربھری مٹی سے چٹان بننے کا ارتقاء ہے ۔طعن وتشنیع کے زہر سے تریاق دریافت کرنے کا عمل ہے ۔ یہ عورت کے شعور کا صدیوں کا سفر ہے جو اس نے آبلہ پا طے کیا ہے۔ جس میں سارے ریت رواج عورت کے ساتھ ہی کردار بن کر سامنے آتے ہیں اور شخصیت کی توڑ پھوڑ کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں ۔ یہ مشرق کا بیانیہ ہے جہاں صدیوں سے عام لوگ تو ایک طرف شعر و ادب سے منسلک، اظہار کے پیرائے سے بہرہ ور عالم فاضل مرد بھی عورت کو اظہار کی طاقت دینے سے گریزاں تھے اورکچھ ابھی تک ہیں ۔ حتی کہ میر محمد تقی میر نے اپنی شاعرہ بیٹی، بیگم کا ذکر تذکرہ نکات الشعراء میں نہیں کیا، محض اس لیے کہ عورتوں کے جذبات کو (خواہ وہ تخلیقی اور خیالی ہی کیوں نہ ہوں) بے نقاب کرنا سماج میں بُری نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
اس ماحولیاتی جبر کے نتیجہ میں عورت کا مکالمہ مرد سے نہیں بلکہ خود اس کی اپنی ذات سے کچھ اس طرح قائم ہوتا ہے
چراغ آفریدم کا یہ اقتباس دیکھئے :
“یہ جو میں نے سا ری دھو پ، تما م با ر شیں، بر ف کے سب طوفاں اپنی ہتھیلیو ں پر رو ک رکھے ہیں، یہ جو بھنو ر کے بیچوں بیچ کسی چٹان کی طر ح پیر گا ڑے کھڑ ی ہو ں ، سب کچھ یو ں نہیں تھا ۔۔۔۔۔کتنی عجیب با ت ہے کہ کبھی ایک لمحہ ہم میں سینکڑوں صدیو ں جیسا لق و دق پھیل جا تا ہے ، اور کبھی تما م پس اندازکئے ہوئے ما ہ و سال یوں ریت کی طر ح اپنی مٹھی سے پھسل جا تے ہیں جیسے تھے ہی نہیں۔ تب کچھ ایسے ہی دن تھے ۔ میرے پا ئی پا ئی جو ڑے ہو ئے ۔۔ پس اندا ز کئے ہوئے ما ہ و سا ل ۔۔اور ان کے سا تھ میں خو د بھر بھر ی ریت کی طر ح مٹھی سے پھسل کے آ نگن کی مٹّی میں مل رہے تھے ، مگر مجھے اپنے یو ں مٹّی میں ملنے کی ایسی کو ئی پر وا ہ بھی نہیں تھی۔۔بلکہ رو زا نہ گھر کی صفا ئی کر تے ہو ئے ، کو نے کو نے سے کو ڑا نکا لتے ہو ئے مجھے اگر اپنی کو ئی پھٹی ہو ئی کتر ن، کو ئی کٹا ہوا ٹکڑا مل جا تا تو اسے بٹو ر کے کو نے میں دھر ے ہو ئے کو ڑ ے کے ڈبّے میں ڈا ل آتی ۔
متن میں خود کلامی کا یہ حصہ نسائی ذات کے کرب کے خمیر سے اٹھایا گیا ہے ۔ جہاں خود پر جبر و استحصال کو اس نے اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لیا ہے ۔ وہ اپنی ذات کی نفی کر کے اپنے گھر کو سینچتی ہے تاکہ مروجہ خاندانی نظام قائم رہے ۔ وہ مٹی میں گھل کر مٹی ہو جاتی ہے مگر فریاد بھی نہیں کرتی کہ فریاد کرنا اسے اپنے گھر ،اپنی خانگی زندگی کے بارے میں خدشات میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ اس لیے وہ اپنی ذات کو کوڑا کرکٹ صاف کرتے وقت جھاڑو کے ساتھ اکٹھا کر کے اپنی کترنیں کچرا دان میں پھینک آتی ہے ۔
یہاں کترنیں عورت کی ذات کی ،اس کی شخصیت کی توڑ پھوڑ کا استعارہ ہیں ۔
سیمون دیبورا نے کہا تھا کہ عورت پیدا نہیں ہوتی بنائی جاتی ہے ۔ نسیم سید کے افسانے میں عورت کے وجود کی یہ کترنیں اسی کتر بیونت کا نتیجہ ہیں جسے مرد اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھال نئے سرے سے تعمیر کرنا چاہتا ہے مگر یہ جان نہیں پاتا کہ مرد کی اس خود ساختہ تعمیر میں عورت کا اندرون سراسر تخریب کا شکار ہو جاتا ہے ۔
پھر اس افسانے میں آگے جا کر نسیم سید اس ذہن سازی کا احاطہ کرتی نظر آتی ہیں جو بچپن سے ہی گھٹی کے ساتھ عورت کے خمیر میں گوندھ دی جاتی ہے ۔ اسے بچپن لڑکپن اور نوجوانی کے موسموں میں بھی مستقبل اور پرائے گھر کے اندیشے وسوسے ڈراتے رہتے ہیں ۔ متن میں ریت رواج ذہن سازی تربیت تاکیدیں سب کردار بن کر سامنے آتے ہیں جنہیں منمناتی ہوئی آوازیں کہہ کر اپنے تناظر میں عورت کی کم تر حیثیت اورموہوم شناخت پر بین الاسطورگہرا طنز کیا گیاہے۔
“اب میر ے ارد گر د مو جو د بہت سی منمنا تی ہو ئی آ وا زو ں میں میرے لئے ہمدر دی اور پر یشا نی تھی، کہیں اس کی مٹّی اکارت نہ جا ئے ۔اس لئے ان آ وا زو ں نے مجھے کھر چ کھر چ کے اندر اور با ہر سے پا ک صا ف اور نیک بنایا۔ انہوں نے مجھے گھر کے روا جو ں کی دھونی دی، میر ی سو چو ں پر تا کید و ں کا ابٹن ملا اور مجھے اندر با ہر سے نکھا ر دیا ۔ انہو ں نے میرے پلّو کے چاروں کو نو ں میں سو جھ بو جھ کے شگن با ند ھے ۔ لیر لیر ہو جا ؤ مگر خو د کو کبھی جو ڑ نا بٹو نا مت۔ اپنی آنکھیں اور اپنے ہو نٹ ہمشہ جا ئے نماز وا لے طا ق پر رکھنا۔اپنی پیشا نی کو گھر کی دہلیز پر بچھا دینا ۔ گھر کو صا ف ستھرا رکھنے کے لئے ضر و ری ہے کہ تم اپنی کتر نیں بٹو ر کے کو ڑے کے ڈبّے میں ڈا ل دو۔۔۔اس طر ح ہما رے گھرمقدس رہتے ہیں۔
وہ آ وا زیں اٹھتے بیٹھتے مجھے جتاِ تیں،تمہیں پرا ئے گھر جا نا ہے حا لا نکہ مجھے پرا ئے گھر کی دہشت اور پریشا نی اندر سے اس طرح توڑتی اور جھنجھو ڑتی جیسے کسی نا زک سی شا خ کو غضبنا ک آ ند ھی تو ڑ تی اور جھنجھو ڑ تی ہے ۔ ”
ریت رواجوں کی دھونی ان حقوق کی آنکھوں میں بھی جھونک دی جاتی ہے جو بطور ایک انسان عورت کا ازلی حق تھے ۔تاکیدوں و نصیحت کے نام پر ذہن سازی اور سمجھوتوں کا ابٹن اس کے اندر باہر ملے جانے کے استعارے نسیم سید کے تخلیقی بیانیہ کی وہ گونج ہیں جہاں نسوانی احتجاج ایک نئے شعری و استعاراتی پیراہین میں بسا نظر آتا ہے ۔
مرزا حامد بیگ اپنے ایک مضمون اردو افسانے کا نسوانی لحن میں لکھتے ہیں ۔
ہمارے ہاں عورت کو زندگی کرنے کے مساویانہ حقوق نہ ملنے کے سبب جملہ تہذیبی نشوونما اور سماجی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ادبی سطح پر بھی عورت کا تخلیقی اشتراک اُس طور میسر نہ آسکا، جیسا کہ مغرب میں دکھائی دیتا ہے ۔
دوسری طرف ہوس گیری کا یہ عالم ہے کہ حکیم فصیح الدین رنج نے جب ایک سو چُہتر اردو شاعرات کا ا وّلین تذکرہ بہارستانِ ناز ۱۸۶۴ء میں قلم بند کیا تو اپنے زمانے کی معروف شاعرہ مُنی بائی حجاب کا ذکر یوں کرتے ہیں:
عمر میں ابھی انیسویں سال کی گرہ پڑی ہے ۔ شاعری کے رستے میں قدم تو رکھا ہے مگر سنبھل کر چلیں، یہ منزل کڑی ہے ۔ پہلے ہم گداختہ دلوں سے اپنا دل لگائیں۔ معشوقی کو بالائے طاق رکھیں، عاشق بن جائیں۔ آج کل کی شاعرات سے اب بھی بہتر ہیں۔ مشتری اور زہرہ کی ہم سر ہیں۔ دُور دُور کی سیر بھی کرچکی ہیں، پیمانہ زندگی خوب بھر چکی ہیں، بس ایک ہم سے ہی ملاقات ہونا باقی ہے ۔ یقین ہے کہ یہ آرزو بھر آئے گی، اگر سچی مشتاقی ہے
ایسے ماضی اور ماضی قریب سے گزر کر جب آج کا اردو نسائی ادب اپنا مقام بنانے کی تگ و دو میں ہے تو انہیں کن کن تعصبات کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہوگا ؟
اس سے کوئی بھی باشعور قاری برصغیر کی ثقافت و ادبی روایات میں نسائیت و تانییت کی صورت حال کو بخوبی سمجھ سکتا ہے ۔
ایسے میں تانیثی ادب تخلیق کرنا آج کی عورت کو اس شعور سے ہمکنار کرنا ہے جس سے اسے ماضی میں محروم رکھا گیا تھا ۔ اس کے احساسات و خیالات کے اظہاریے نہ صرف اس کو اپنے مسائل کے سمجھنے حل کرنے میں مدد دے سکتے ہیں بلکہ عمر کے مختلف ادوار میں پیدا ہونے والی الجھنوں اور نفسیاتی گرہوں کہ کھولنے میں دوسروں کے لیے بھی مفید ثابت ہو سکتے ہیں ، جس سے ایک بہتر و متوازن معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے ۔
افسانے اپنے متن میں آگے بڑھتا کم سن لڑکی کے احساسات کو ہار سنگھار کے نارنجی پھولوں سے تعبیر کرتا ہوا عمر کے اس دور سے گزرنے والی بیشتر لڑکیوں کے احساسات کی نمائیندگی کرتا ہے جہاں وہ اپنے سپنے اپنی سوچیں اور خواب کھوج لیے جانے کے ڈر سے انہیں اپنے من کے اندر ہی دفن کر دیتی ہیں ۔جیسے صبح کی روشنی سے قبل ہی ہار سنگھار کا پودا اپنے تمام پھول نیچے بچھی مٹی میں گرا دیتا ہے۔ ایسے ہی عمر کے اس نازک دور سے گزرنے والی لڑکیاں اپنے چھوٹے موٹے مسائل کا تذکرہ بھی کسی سے نہیں کر پاتیں نہ ہی انہیں مناسب راہنمائی ملتی ہے الٹا وہیں سے آگے پھر نئے ” پرائے گھر” کا تذکرہ شروع ہوتا ہے ۔ جہاں اٹھتے بیٹھتے انہیں مستقبل کے حوالے سے ڈرایا جاتا ہے ۔ پھر مصنفہ لڑکیوں کو شادی کے بعد کے ابتدائی دور میں پیش آنے والے اندیشوں اور امیدوں کے بیچ ڈولتا دکھاتی ہیں ۔
ِؔ “مجھے اُس پر ا ئے گھر بھیج دیا گیا جس کے بات با ت پر بچپن سے حوا لے دئے جا تے تھے ۔ اب ایک دو سرا نا م میر ے نا م کا وارث ٹھہرا۔۔۔اور ایک اور پرا یا گھر میرا ٹھکا نہ قرا ر پا یا ۔ میرا قد اچا نک ان عو تو ں میں بہت اونچا ہو گیا جو میر ی مقدّ س کتاب کی منکو حہ تھیں۔۔۔وہ ایسی بد نصیب تھیں کہ گائے جیسی تما م خصلتیں رکھنے کے با وجو د ان کا اپنا کو ئی کھو نٹا نہیں تھا ۔۔۔مگر میرا اب اپنا ایک کھو نٹا تھا۔ جب شادی بیا ہ کی رسوم ہو تیں تو وہ سر جھکا کے اس جگہ سے دور ہٹ جا تیں کہ کہیں ان کا سا یہ کسی نیک شگن پر نہ پڑ جا ئے ۔ ان بد شگن عو ر تو ں کے درمیان اب میں سر او نچا کر کے نیک شگن والی مسند پر پیر دھر سکتی تھی ۔ ”
جہاں ایک بیاہتا عورت کو اپنے سہاگن کے مسند پر بٹھائے جانے کی خوشی ہے وہیں وہ ان گائے جیسی عورتوں کا دکھ پہلے سے زیادہ محسوس کرتی ہے جنہیں بدشگن کہہ دیا جاتا ہے ۔ گائے جیسی عورت بننا ان مروجہ پیمانوں رواجوں میں عورت کی خوبی گردانی جانے کے باوجود وہ عورتیں جن کی شادی نہیں ہو پاتی یا بیوگی کی آزمائش سے گزرتی ہیں وہ معاشرے کے طنزہی بھوگتی رہتی ہیں ۔ گائے برصغیر کی معاشرت میں جہاں بے وقوف عورت کا ستعارہ ہے وہیں گائے جیسی عورت مردوں کے دستور میں پسندیدہ خصوصیت بھی کہ ذہین، قابل اور با شعورعورت کو احساس کمتری کے مارے مرد کبھی پسند نہیں کرتے۔
ابھی وہ گائے اور گائے جیسی کہلانے کی اذیت سے نجات بھی نہیں پا سکتی کہ نئے گھر میں اس کا جسم و روح نئے کرب سے آشنا ہو جاتے ہیں ۔ بیاہتا ہونے کی سرخوشی غیریت کی تیز دھوپ میں تحلیل ہو جاتی ہے ۔
میر ے اس نئے پر ا ئے گھر کا ایک دستو ر اتنا عجیب تھاکہ اس نے مجھے اندر با ہر سے وا قعی لیر لیر کر دیا ۔ اس دستو ر کے سبب مجھے لگتا تھا جیسے میں کھو نٹے سے بند ھی ایک با وقا ر عورت نہیں بلکہ کو ٹھے پر بیٹھی کو ئی بے قیمت عو رت ہو ں۔ ہو تا یہ تھا
کہ آنگن میں سویرے سویرے غیریت اور اجنبیت کی تیز دھو پ اتر آ تی اور پھر وہ میر ے گھر کے اور میر ے کو نے کو نے میں پھیل جا تی ، اس تیز دھو پ کی لپٹیں میر ے بد ن پر چھالے ڈالتیں،میر ے وجود کو جگہ جگہ سے داغتیں، میر ے وقا ر کی تما م تہوں میں چنگاریاں بچھاتیں مگر را ت اسی جلے ہو ئے چھا لو ں وا لے بد ن کو نر م گد وں والی مسہری پر اچھا ل دیتی اور پھر اس بدن سے کھلکھلا کے ہنسنے کی فر ما ئش کرتی ۔ میں غیریت اور اپنائیت کی چکّی کے دو پا ٹو ں میں پس کے گو ریزہ ریزہ ہوگئی تھی مگر پھر بھی بڑ ی عقید ت سے خو د کو مسہر ی پر بچھا نا پڑتا ۔
ازدواجی زندگی کی تلخیوں کا آغاز غیریت اور بے پروائی سے ہوتا ہے ۔ ہماری مشرقی ثقافت میں خاندان کے سامنے بیوی سے ہمدردی لگاوٹ کا اظہار کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا رہا ہے ۔ جو شوہر خاندان کی نظر میں اس غلطی کا مرتکب ہوا اسے زن مرید کا خطاب مل جاتا ہے ۔ اور اس لیے یہ بہت عام رویہ رہا کہ رات کو اپنی ضرورت کے لیے بیوی کو قریب لے آنا اور دن بھر اس سے غیریت برتنا اس کے جذبات و احساسات یا مشکلات کا کوئی خیال نہ رکھنا ۔ ان رویوں کی وجہ سے بیوی کے لیے شوہر کے پاس جانا کوئی محبت کا اظہار نہ رہا اور اکثر عورتوں نے یہ سمجھ لیا کہ جیسے کھانا پکانا ،کپڑے برتن دھونا، بچے پیدا کرنا اور پالنا اس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اسی طرح شوہر کا بستر گرم کرنا بھی محض ایک ذمہ داری ہی ہے ۔ جس میں زن و شو کے بیچ محبت و مودت کا، رومان کا کوئی دخل نہیں نہ ہی عورت کو مرد کی طرح ذہنی جسمانی سکون کا کوئی حق حاصل ہے ۔
یہ سوچ عورت کی ہستی کو لیر لیر کرنے کا ایسا ہولناک سبب بنتی ہے کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتی ہے :
” شا ید میری آ نکھیں رو تی ہو ں جب کیچڑ بھر ے جو تے میر ی پیشا نی کو رو ند تے ہو ں لیکن ان کی آ وا ز مجھ تک نہیں آتی تھی۔ یا شاید میر ی آ نکھیں سوکھے آ نسو رو تی ہوں۔۔۔ شاید میرے ہونٹ سارے بین ، سب منا جاتیں، سب دریا ، سا رے سمندر اپنے صحر ا میں جذب کر لیتے ہوں۔۔۔۔پتہ نہیں۔۔۔۔میرا کیو نکہ ان سے کو ئی را بطہ نہیں تھا ”
لیکن اسی خود فراموشی کے دور میں عورت کا ماں بننا ایسا مرحلہ ہے جو اس کے وجود سے تفکرات کی اندیشوں کی ساری گرد جھاڑ کر اسے انوکھی خوشی اور فخر سے ہم کنار کرتا ہے ۔ مصنفہ ماں بننے کی امید کو ساون کی بارشوں سے تعبیر کرتی ہیں ۔اس مقام پر متن نسائیت کے مقام سے گزر کر مکمل طور پر تانیثیت feminism میں ڈھل جاتا ہے ۔
نسائی سے تانیثی بیانیہ میں ارتقاء محض متن کی ضرورت نہیں تھی بلکہ یہ ارتقاء اصل میں عورت کی ذات کا ارتقاء ہے اس کہانی کا جزو لاینفک ہے ۔ جہاں وہ ایک عام عورت کے احساسات خیالات گھریلو ماحول اور تربیت کے نام پر مخصوص ذہن سازی کے کرب سے (نسائیت) بڑھ کر مرد اور سماج کی طرف سے عائد کردہ صنفی و حیاتیاتی جبر کو رد کرتے ہوئے اپنے وجود کو نئے ارتقاء (تانیثیت feminism )کے مقام پر لے جاتی ہے ۔
یہ اقتباس انہیں کیفیات کا عکاس ہے۔
“میر ی انگلیا ں سو چو ں کے گلابی اون سے سا را سا را دن خوا ب بنتیں۔ میر ی سا نسیں دھڑ کنو ں میں دھڑ کتی ہو ئی ایک مد ھم سی دھڑ کن کی تال پر محوِ رقص رہتیں۔ یہ عجب سرو ر تھا ۔۔عجب نشّہ تھا ۔۔۔عجب احسا س تھا جو مجھے مجھ میں نئے اندا ز سے سینچ رہا تھا ، گھنا۔ ۔۔ اونچا اور سر سبز کر رہا تھا ۔۔۔بہت سے دن اس سر شا ری میں گزر گئے اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔لیکن۔۔۔جس را ت میر ے اندر میرا اکھوا پھو ٹا۔۔۔۔جس را ت میں نے دو با رہ جنم لیا اس را ت میر ے گھر کی تما م آ وا زو ں کو صد مے سے سا نپ سو نگھ گیا ۔میر ے گھر پہ چھا ئی ہو ئی گہر ی نا امید ی کے سنّا ٹے میں سر گو شیا ں مکھیو ں کی طرح بھنک رہی تھیں۔ پتھر جنا ہے نا مرا د نے ۔ یہ سر گو شیا ں نہیں تھیں بلکہ سا زشو ں کے یہی وہ پتھر تھے جو ہمیں سنگسا ر کر تے آ رہے ہیں ایک جنم سے ۔ میں ان پتھر و ں کے جا دو اور انکی قوّ ت سے وا قف ہو ں۔ یہ سا نس لیتے ہیں ۔یہ گھر کی دیوا روں پہ اپنے فر ما ن کا سیسہ چڑھا کے جگہ جگہ ان میں زنجیر یں ٹا نگ دیتے ہیں۔ یہ جیتے جا گتے بدن کو چھو تے ہی پتھر میں تبد یل کر دیتے ہیں۔
لیکن ایک عورت جب ماں بنتی ہے تو ان پتھروں سے خود تو سنگسار ہونے کو تیار رہتی ہے مگر اپنی بیٹی کو اس سنگ باری کے لیے پیش نہیں کرتی۔ یہ تانیثی ادب کا بیانیہ ہے جہاں وہ ریت رواجوں کی دھونی کو اپنی آنکھوں میں دھند پھیلانے نہیں دیتی ۔ رواج اور سماج کی تاکیدوں کے ابٹن کو اپنے اندر باہر سے کھرچ کھرچ کر اکھاڑ پھینکتی ہے ۔وہ تناظر کے جبر اور صنفی تعصب کے مقابل ڈٹ کر کھڑی ہو جاتی ہے ۔
“میں نے جھو لے میں کلا م کر تے ہو ئے ننھے سے بدن کو سینے سے لگا کے اس کے گر د اپنے با زؤں کی سلا خو ں کا حصا ر کھینچا ۔۔۔۔دہلیز پر بچھی ہو ئی پیشا نی کو گھسیٹ کے اس ننھے سے بدن کے ما تھے سے چھلا کے اس دہلیز پر وا پس اچھا ل دیا ۔۔۔اپنی آ نکھیں اور ہو نٹ طا ق سے اٹھا کے اس کی آ نکھو ں اور ہو نٹو ں کا صد قہ اتا را اور پھر اپنی انگلیو ں سے مسل کے وہ تالا تو ڑ دیا جو حیر تو ں کی عمر میں میں نے خو د پر ڈا لا تھا ۔۔۔۔میر ی وہ سا نس لیتی ہو ئی کتر ن جو نا رنجی خو شبو میں لپٹی مجھ میں قید پڑ ی تھی آ زا د ہوتے ہی ایک کتر ن سے علم کے پھر یرے میں تبد یل ہو گئی۔۔۔۔میں نے اپنے پا ؤ ں اس بھنو ر میں گاڑ دئے جو میر ے نئے جنم کو خو د میں لپیٹ لے جا نے کو بے تا ب تھے ۔ میں ایک ٹھیکر ی سے کو ہسا ر میں بدل گئی ۔اور اب ان آوا زو ں کے سا منے پو رے قد سے کھڑ ی ہو ں جنہو ں نے سر گو شی کی تھی،سازشوں والی سر گو شی۔۔۔پتھر جناہے ۔ میں نے سا ری سیلا بی با ر شیں۔۔۔۔بر ف کے سب طو فا ن اپنی ہتھیلی پر رو ک رکھے ہیں۔۔۔۔ میں بھنور کے بیچوں بیچ پیر گا ڑ ے کھڑ ی ہوں۔مجال ہے میر ے دو سرے جنم کو کو ئی لیر لیر کرے ۔
یہ وہ نسائیت سے تانیثیت کا سفر ہے کہ عمر بھر جبر سہنے کے باوجود، لب سلے ہونے کے باوجود جو عورت اپنے حق کے لیے آواز نہ اٹھا سکی اپنی بیٹی کی خاطر وہ آندھیوں کے سامنے چٹان بن کر ڈٹ جاتی ہے ۔ ٹھیکری سے کوہسار کا سفر تانیثیت کا وہ ارتقاء
ہے جو نسیم سید کی شاعری اور نثر کا نمایاں اسلوب بن کر سامنے آتا ہے ۔
آج کا اردو ادب بھی نسائی ادب کے پرانے سانچوں کو توڑتا نئے اور بہتر آہنگ میں ڈھلتا تانیثی ادب اور خواتین لکھاریوں کی تحریروں سے ارتقاء پزیر ہے ۔ آنے والے وقت میں یہ ادبی دور جو انسان کے ذہنی ارتقاء اور سوچ میں مثبت تبدیلی لانے کا باعث بن سکتا ہے اردو ادب کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا اور یاد رکھا جائے گا ۔
___ _____
حوالہ جات:
۱۔ چشم نقش قدم (تنقیدی اور تحقیقی مضامین) از قلم ترنم ریاض
۲۔ اردو افسانے کا نسائی لحن از قلم ڈاکٹر مرزا حامد بیگ مطبوعہ اجراء
کراچی
۳۔ پاکستان ادب کے آئینے میں ____ مرتب شموئل احمد
۴۔ جس تن لاگے از قلم نسیم سید
۵۔ سمندر راستہ دے گا از قلم نسیم سید
__________
نسیم سید کینیڈا مین مقیم پاکستانی شاعرہ مصنفہ و نقاد ہیں ۔ ان کے دو شعری مجموعے آدھی گواہی ،سمندر راستہ دے گا،ایک افسانوی مجموعہ جس تن لاگے ،جون ایلیا پر تنقیدی مضامین کی کتاب خوش گزراں گزر گئے اور شمالی امریکہ کے باشندوں کی شاعری کے
تراجم پر مبنی کتابیں چھپ چکی ہیں ۔