(تنویر احمد ملک)
ایک نئی “داستان حیات” کے نام سے کتاب آئی ہے۔ پہلے ذرا ایک اور کتاب کی بات سنئے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل ایک کتاب لکھی گئی جس کے انوکھے ٹائٹل کی وجہ سے جو بھی اسے ایک مرتبہ دیکھتا وہ لازماً اس کی ورق گردانی پرمجبور ہو جاتا۔ The Bumper Book of Lies نامی اس کتاب میں فقط جھوٹ دروغ گوئی، مبالغہ آرائی اور لایعنی باتوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس کتاب میں ایسے ایسے جھوٹ گھڑے گئے ہیں کہ بندہ ایک بار تو اپنا سر پکڑ لے لیکن پھر اس سے لطف اندوز ہو کر بے ساختہ قہقہے لگانے لگتا ہے۔
مصنف نے مختلف موضوعات پر اپنے طرف سے لاتعداد جھوٹ گھڑ گھڑکر لکھے۔ مثلاً سگریٹ نوشی پر گہرافشانی کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے کہ یہ وقت گزارنے کا سب سے پسندیدہ مشغلہ ہے جسے ڈاکٹر بھی تجویز کرتے ہیں تاکہ انسان صحت مند رہے۔ مزید بے پرکی اڑاتے ہوئے مصنف لکھتا ہے کہ واشنگ مشین ایجاد نہیں ہوئی تھی بلکہ یہ دریافت ہینی بال نے اس وقت کی تھی جب وہ ہاتھیوں کی پناہ گاہ کی تلاش میں وہ ایک غار میں گھسا تھا۔
جھوٹ کا طومار باندھتے ہوئے مصنف ناروے کا دنیا کا آبادی کے لحاط سے سب سے بڑا ملک قرار دیتا ہے تو دوسری جانب چین کو قلیل آبادی کا ملک قرار دیتا ہے۔ جھوٹ اور مبالغہ آرائی پر مشتمل اس کتا ب کو آپ اپنے انوکھے ٹائٹل کی وجہ سے ایک بار دیکھ لیں گے لیکن دوسری مرتبہ آپ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے۔ کیونکہ جھوٹ اور غلط بیانی پر مبنی اس کتاب کی بار بار ورق گردانی وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں، جو علم میں کوئی اضافہ کر سکتا ہے اور نا اس میں معلومات کے نام پر گھڑے گئے جھوٹ سے فہم و ادراک میں کوئی بہتری لائی جا سکتی ہے۔ جھوٹ اور دروغ گوئی پر مبنی اس نوع کی کتابیں ہماری ملکی تاریخ میں بھی درجنوں کے حساب سے لکھی گئیں؛ جو فقط چند دنوں کی زندگی پانے کے بعد ردی کے طور پر استعمال کے لئے رہ جاتی ہیں یا پھر کاٹھ کباڑ میں پائی جاتی ہیں۔
کراچی کے ریگل چوک پر پرانی کتابوں کے بازار میں کتابوں کے شوقین ایک بار غلطی سے اس پر نگاہ دوڑا لیں تو دوڑا لیں دوسری بار ایسی غلطی کا ارتکاب نہیں کرتے۔ جھوٹ، مبالغہ آرائی، دروغ گوئی، خوشامد، چاپلوسی اور مکھن لگانے کے بارہ مصالحے لگا کر بھی ایسی کتابیں عوام میں قبولیت عام پر درجہ حاصل نہیں کر سکتیں۔ پنجاب حکومت نے اپنے نادر شاہی حکم میں تمام پبلک لائبریریوں کو پابند کیا ہے کہ وہ وزیر اعظم نواز شریف کی داستان حیات پر مبنی کتاب کو اپنے شیلف کی زینت بنائیں۔
میاں نواز شریف کی حیات پر لکھی گئی کتاب میں جب مصنف زیب داستاں کے لئے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے تو اس میں مبالغہ آرائی کی آمیزش کرڈالتا ہے۔ یہ معاملہ فقط میاں نواز شریف کی “داستان حیات” نامی کتاب کے ساتھ نہیں ہے۔ ہر وہ سیاسی رہنما اور حکمران جسے اس کے درباری اور مصاحب تاریخ انسانی میں انقلابی شخصیت کے مترادف ٹھہراتے ہیں وہ ایسی غلطیوں کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ ماضی میں جھانکیں تو صدر ایوب خان نے اپنے نام نہاد فلسفہ ترقی کی جب تشہیر کرنی چاہی تو ان کے ارد گرد پائے جانے والے مصاحبوں نے انہیں بیسیویں صدی کی عظیم تر شخصیات میں شمار ہونے کی خوش خبری دیتے ہوئے ان کے کارنامے قلم بند کرنے کی تجویز دی۔ پرویز مشرف نامی فوجی حکمران کو بھی یہ خبط سوار ہوا جب انہیں ان کے درباریوں نے عالمی سطح کے رہنماؤں میں شمار ہونے کی نوید سنائی تو انہوں نے جھٹ سے اپنی زندگی پر کتاب لکھوانے کی ٹھان لی۔
یہ کتاب بھی چند مہینوں کی زندگی پانے کے بعد اب بڑے شہروں میں فٹ پاتھوں پر بکنے والی کتابوں میں بھی نہیں ملتی کہ اب اس کا کوئی خریدار نہیں ملتا۔ میاں نواز شریف کی داستان حیات نامی کتاب کا قصہ تازہ ترین واردات ہے جس میں جھوٹ نہیں تو مبالغہ آرائی کے طومار باندھ کر انہیں ایسی کرشمانی شخصیات میں شمار کیا جا رہا ہے جنہوں نے اپنی قوموں کی زندگیاں بدل کر رکھ دی ہیں۔
سرکاری بابوؤں اور درباریوں کے رشحات قلم میں خوشامد، دروغ گوئی، مبالغہ آرائی اور چاپلوسی کے سارے لوازمات تو ہو سکتے ہیں لیکن ان میں تحریر کا وہ وصف نہیں ہوتا جو ایک کتاب کو جاندار اور زندہ جاوید شاہکار میں بدل دیتی ہیں۔ یہ کتاب چھپ کر مارکیٹ میں آجاتی اور لوگ اس کے خریدارخود ہی بنتے تو کچھ مضائقہ نہیں تھا لیکن جب ایک حکومتی حکم نامے کے تحت اسے پبلک لائبریریوں کی زینت بننے کی تاکید ہو تو پھر ایسی کتابوں کے مندرجات پڑھے جانے سے پہلے ہی مشکوک ٹھہرتے ہیں۔ ایسی کتابوں میں ستائش، تعریف اور مبالغہ آرائی کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ ایسی کتابوں سے قوموں کی زندگیوں میں کوئی انقلاب برپا ہونے سے رہا تاہم ان کے مصنفین کی کایا پلٹ جاتی ہے اب جن صاحب نے نواز شریف کو قائد اعظم ثانی کا خطاب عطا کیا تھا وہ اب ایک صوبے کی اعلیٰ ترین منصب داد عیش ایسے تو نہیں دے رہے۔