(اسد لاشاری)
پاکستانی معاشرہ بالخصوص سیاسی حوالے جن مشکل حالات سے گذر رہا ہے اس کی فکر ہر سوچ بیچار اور احساس رکھنے والے انسان کو ضرور محسوس ہوتی ہوگی اور دل میں کئی سوال جنم لیتے ہوں گے اورتنزلی کے اسباب جاننا چاہتے ہوں گے کہ آخر کیوں ترقی کے بجائے تنزلی ہمارا سیاسی مقدر بن چکی ہے؟ تنزلی کی مثالیں تو بے شمار دی جا سکتی ہیں لیکن یہاں پر حالیہ دنوں میں پارلیمنٹ سے منظور کرائے گئے جرگہ سسٹم بل کی دی جا رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں موجود جاگیردار طبقے نے جاگیر داروں کو تحفظ اور عوام کو سستا انصاف فراہم کرنے کی نیت سے جرگے کو قانونی شکل دینے کا بل 3 فروری 2017 کو پیش کیا گیا تھا جسے معزز اراکین نے بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کیا تھا۔
پارلیمنٹ میں بل پیش کرتے وقت جناب وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد صاحب نے فرمایا تھا کہ یہ بل تاریخی ہے۔ ” اس بل کے نافذ ہونے کے بعد ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگا،عوام کو سستہ اور جلد انصاف ملے گا اور اس کے نفاذ کے بعد عدالتوں پر سے بوجھ کم ہو جائے گا۔ اور دوسری بات کہ ہم اپنی ماضی کی روایتوں سے جڑے رہیں گے۔آپ نے سچ فرمایا کہ یہ بل تاریخی ہے۔ آپ کو یہ بھی بتانا چاہیئے تھا کہ جرگہ اور جرگے سے جڑے تمام ادارے جاگیر دارانہ کلچر، سرداری نظام، قبائل سسٹم پیر ی مریدی یہ سب تاریخی ہیں اور ان اداروں کی بنیاد ماضی پر ہے۔
ہم ویسے ہی ماضی پرست قوم ہیں ہمیں اپنے ماضی کی روایتوں سے اور شخصیتوں سے بے حد پیار ہے۔ اور ہاں جناب شاید آپ یہ بتانا بھول گئے کہ پارلیمینٹ میں موجود اراکین میں سے بیشتر تو خود قبائلی سردار ہیں، کچھ پیری مریدی والے ہیں جو باقی بچے کھچے ہیں ان کا تعلق سرمائیدار گھرانوں سے ہے۔ یہ وہی قبائلی سردار ہیں جو مزارعین اور عام اور دیہاتیوں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ ان کے مسائل کا حل ریاست کے عدالتی نظام میں نہیں بلکہ ان کے پاس اور ان جیسے دیگر سرداروں، وڈیروں، جاگیرداروں اور پیروں کے پاس ہے۔
غربت کی زنجیروں میں جکڑی عوام کا ان سرداروں پریقین اس قدر پختہ ہوتا ہے کہ ان سے روگردانی کرنے کو وہ بغاوت تصور کرتے ہیں۔ حالاںکہ یہی سردار، چودھری وغیرہ غریب ہاریوں کو نجی جیلوں میں بند کرنے سے لے کر ان کی بیٹیوں کی عصمت دری سمیت نہ جانے کئی دیگر طریقوں سے ان کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔ حالتِ زار تو یہ ہے کہ غریب عوام ان کے خلاف بغاوت کرنے کا بھی حق نہیں رکھتے اور اگر کسی سے ایسی غلطی سر زدہو بھی جائے تو پھر ان سے جینے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔اسی ڈر کے مارے لوگ چپ رہنا پسند کرتے ہیں۔
اگر برِ صغیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت جو خاندان پاکستان میں حکمران بنے ہوئے ہیں، یہ ان کی اولاد ہیں جنہوں نے برطانوی حکومت سے وفاداری کے عوض جائیدادیں اور خطابات پائے تھے۔ یہ لوگ آج بھی ان خطابات پر فخر کرتے ہیں، اور اپنی خاندانی وجاہت اور بزرگی کی جڑیں اس میں تلاش کرتے ہیں۔ اگر تاریخ میں ان کے کردار اور اعمال کا جائزہ لیا جائے تو پھر ان جاگیرداروں اور پیروں کے کردار کی صحیح تصویر سامنے آئے گی۔ چونکہ ہماری تاریخ کو ایک تو مسخ کیا گیا اور دوسرا یہ کہ برطانوی راج کا صحیح سے جائزہ نہیں لیا گیا۔
اگر جائزہ لیا جاتا تو خاندانی سیاستدان آج ہمارے حکمران نہ ہوتے۔ یہ خاندان صرف اپنی حفاظت، رعب اور دبدبہ چاہتے ہیں۔اس لیے جہالت پر مبنی رسم و رواج کو قانونی شکل دینے کا بل پارلیمینٹ سے متفقہ طور پر منظور کرانے میں یر نہیں کی۔ ڈاکٹر مبارک علی صاحب اپنی کتاب جاگیر داری میں لکھتے ہیں کہ:
“جب تک ہم کولونیل ازم دور کا تجزیہ نہیں کریں گے، انگریزوں کے وفادار اور ان سے تعاون کرنے والے معاشرے میں باعزت رہیں گے”۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ جب تک انگریز یہاں حکمران تھے تو یہ ان کے وفادار اور زیرِنگیں تھے جب انگریز یہاں سے چلا گیا تو یہی طبقہ حکمران بن کر ابھرا، جو آج تک ہم پر حکمرانی کر تا آرہا ہے۔ انگریز کے جانے کے بعد ان کی سرگرمیوں اور ان کی بداعمالیوں کو روکنے والا کوئی نہیں تھا، یہ آزاد تھے کہ جو چاہیں کریں، اور ان کے لئے آزادی کا مطلب یہ تھا کہ اپنے مزارعین کی محنت پر خود عیاشی اور آزادی کی زندگی گذاریں جبکہ لوگوں کو قبائلی جھگڑوں میں الجھانا خون ریزی کروانا ان کے لیے معمولی بات ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہی لوگ ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کے پاس نہ تو وژن ہے اور نہ قابلیت بس ان کی قابلیت کا معیار ان کی جائیداد اور خاندانی وجاہت ہے۔ میں یہاں پر اپنے علاقے کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ ہمارے علاقے سے جتنے بھی منتخب ہونے والے ایم پی اے اور ایم این اے ہیں سب کے سب سردار ہیں۔ ہر بار انتخابات جیت کر قومی و صوبائی اسمبلی میں صرف تالیاں بجانے پہنچ جاتے ہیں کبھی بھولے سے بھی کسی سیشن میں حصہ نہیں لیتے۔جناب یہ تو ایک آدھ مثال ہے۔ جہاں تک میرا خیا ل ہے وطن عزیز میں تقریباً 70 فیصد منتخب ہونے والے نمائندوں کا حال ہمارے علاقے کے سرداروں جیسا ہی ہوگا۔ اب اصل کہانی کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے کہ۔
اسی ماہ ہونے والے جرگے کے فیصلے پر اگر غور کیا جائے تو پھر جرگے جیسی غیر انسانی رسومات کا اندازہ ہو جائے گا۔ حال ہی میں جیکب آباد میں ہونے والے ایک جرگے میں دو معصوم بچیوں کو ونی کے طور دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جس کا بعد ازاں سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا۔ ایسی بے شمارمثالیں میرے آبائی ضلع کشمور، اور قریبی اضلاع شکار پور، جیکب آبا دمیں موجود ہیں اگر ان جرگوں پر لکھا جائے تو کئی صفحات بھر جائیں۔ آخری سوال یہ کہ اگر حکومت عدالتی نظام کو موثر بنانے سے قاصر ہے تو پھر جرگہ سسٹم کو مظبوط بنانے کی زحمت کیوں کر رہی ہے؟