میرے پاس بہت سے طمانچے اکٹھے ہو گئے ہیں
از، منزّہ احتشام گوندل
طمانچے___________یہاں ایک بڑا سٹور نما کمرہ ہے۔ جس میں یہ اوپر نیچے بھرے پڑے ہیں۔ یہ کب یہاں جمع ہونا شروع ہوئے مجھے تاریخ یاد نہیں، ہاں مگر مقام اور صورت حال یاد ہے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں نے اپنا پہلا اور تا حال پہلا اور آخری ریل کا سفر کیا تھا۔ اس سفر میں میرے ہم راہ میرے ہم جماعت تھے۔ اور ایک دوست بھی تھا۔ میرا یہ دوست ان لوگوں میں سے ہے جو اپنی ذاتی افزائش کرتے ہیں، اور اپنی انا کے خون پہ پلتے ہیں، قطعِ نظر اس بات کے میں طمانچوں کے مجموعے کے آغاز کی طرف آتی ہوں۔
تو ہوا یہ کہ میرا یہ دوست جو کہ ایک چھوٹے شہر سے ایک بڑے شہر کی طرف سفر کے دوران، ہر آتے جاتے فقیر اور بھکاری کو بڑے کھلے دل کے ساتھ پیسے بانٹتا آیا تھا، سفر کے اختتام پہ ایک قلی کے ساتھ معاوضے پہ الجھ پڑا۔ پہلا طمانچہ جو سارے راستے اس کی
پیسوں کی بندر بانٹ پہ میرے ہینڈ بیگ سے بار بار ابھرتا تھا، قلی کے ساتھ اس کی تکرار پہ بے قابو ہو گیا، اور سٹاک سے اس سٹور نما کمرے میں جا پڑا۔
دوسرا طمانچہ بھی اسی طرح کی صورت حال میں تخلیق ہوا۔ اب کی بار ایک سہیلی جس نے میرے ساتھ جا کر کچھ ہفتے پہلے (میٹرو) کا ایک جوتا پینتیس سو میں خریدا تھا، پہن کے میرے ہم راہ ایک قصباتی لاری اڈے پہ کھڑی تھی۔ بس کے آنے میں کچھ تاخیر تھی تو وقت گزاری اور کچھ خود معقولیت کی خاطر اڈے کی ایک طرف بیٹھے، بوریا نشیں موچی سے اس نے کھڑے کھڑے ہی پاؤں آگے کر کے جوتے پالش کرانا شروع کر دیے۔
پالش کے اختتام پہ مطلوبہ بیس روپوں کو دس روپوں میں بدلنے کے اس کے اصرار پر یہ دوسرا طمانچہ تھا جو بے قابو کے میرے ہینڈ بیگ سے باہر گر پڑا اور پھر اس سٹور میں محفوظ ہو گیا۔ اور پھر اس کے بعد تو یہ سلسلہ چلتا ہی جا رہا ہے۔
اور اب ان طمانچوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ انھیں سنبھال کے رکھنے کی میرے پاس جگہ ہی نہیں رہی، تبھی تو میں ان میں سے کچھ آپ کے ساتھ بانٹنا چاہتی ہوں کچھ ایسے جو زیادہ زور دار ہیں۔ وہ سنبھالے سے سنبھل نہیں رہے اور بے قابو ہوئے جاتے ہیں۔
ابھی یہ کل ہی کی تو بات ہے کہ میری بہن کی ملازمہ نے غربت دور کرنے کے لیے پیسے مانگ کے دس ہزار روپے میں میلاد کرایا ہے(طمانچہ)؛
ایک اہم سرکاری تقریب میں مہمانِ خصوصی ایک گھنٹہ چالیس منٹ تاخیر سے پہنچے اور آتے ہی کہنے لگے، وقت کی قدر کرو اس سے بہتر سرمایہ کوئی نہیں (طمانچہ)؛
میری ایک دوست کے بچے ہر وقت جنک فوڈ کھاتے ہیں، بچوں کا ڈاکٹر کا خرچہ اس جنک فوڈ سے بھی زیادہ ہے، اس پہ مہنگائی کا رونا اور وسائل کی کمی کا ماتم سوا ہے (طمانچے ہی طمانچے)،
نذیراں کے محلے میں سیوریج کا پانی روز رک جاتا ہے، ہر دوسرے دن کمیٹی والے نالیوں اور گٹروں کے اندر سے شاپروں اور پیمپرز کے ڈھیر کے ڈھیر نکال کے باہر پھینکتے ہیں۔
پانی چل پڑتا ہے، دو دن بھی نہیں گزر پاتے کہ پانی پھر رک جاتا ہے، کل نذیراں حکومت کی ناقص کار کردگی پہ بھر پور تبصرے کر رہی تھی (طمانچے)؛
میری نہایت برانڈ کانشیئس کولیگ کل فون پہ اپنی چھوٹی بہن سے کہہ رہی تھی جو کہ بھائی کی منگیتر کے کپڑے خریدتے وقت اس سے مشورے کر رہی تھی، آخر تم اتنے مہنگے کپڑے کیوں لے رہی ہو، عام سے لے لو، منگنیوں پہ ایسے کپڑے ہی چلتے ہیں۔ اور جس ڈریس کی میں نے تمھیں پکچرز بھیجی ہیں، یہ لبرٹی یا فورٹریس سے ملے گا، ایسے ہی مجھے چاہیے آخر میرے اکلوتے چھوٹے بھائی کی منگنی ہے۔(طمانچہ)
اور ایسے کتنے طمانچے ہیں جو اکٹھے ہو چکے ہیں۔ جو روز جڑتے رہتے ہیں۔ اب اس کمرے میں مذید کی گنجائش ہی نہیں رہی۔
اب میں ان کو بانٹ دینا چاہتی ہوں، یہ صرف ایک خواہش ہے، کیوں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی بھی انھیں لینے کو تیار نہ ہو۔ میں نے کئی بار تولیے میں کان لپیٹے ہیں، آنکھوں کو زور سے میچا ہے، دماغ پہ مُکے مارے ہیں۔ اور یہ سارے کام اس لیے کیے ہیں کہ ان طمانچوں کی رفتار میں کوئی کمی آئے گی، مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ یہ سب میری بزدلی کا شاخسانہ ہے کہ میں ان کو بر وقت استعمال نہ کر سکی اور یہ سٹور میں جمع ہوتے گئے۔
ان طمانچوں کی ترسیل رک سکتی تھی اگر ایک چور پکڑے جانے کے بعد اعتراف کر کے شرمندہ ہوتا، ایک منصف نا انصافی کرنے کے بعد پچھتاتا، ایک طاقت ور ظلم کرنے کے بعد بے چین ہوتا، مگر یہ سب تو ضمیر کے جاگنے کی باتیں ہیں۔ یہاں تو ضمیر ہی مر چکے ہیں۔ اور جب ضمیر مر جائیں تو پھر طمانچوں کی ضرب محسوس ہوتی ہے نہ ہی ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ لہٰذا یہ طمانچے اب پرانے کیسٹ پلیئر میں چلنے والی کیسٹوں کی طرح بے کار پڑے ہیں۔ کسی کو ضرورت ہو تو لے سکتا ہے۔
میں نے آج نہ ٹی وی دیکھا ہے، نہ کسی سے ملی ہوں، نہ اخبار پڑھا ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا پہ آوارہ گردی کی ہے۔ طمانچوں والے سٹور میں سارا دن چھانٹی کرتی رہی ہوں۔ اور اب سائیں ظہور کی آوازیں، ربّا ہووووو، سننے کے بعد سو جاؤں گی۔