(ذوالفقار علی)
یہ دیس کیسا دیس ہے؟ جہاں عورت کو از راہ مذاق وقت گُزاری کیلئے ایک “چیز”(کموڈٹی) سمجھا جاتا ہو، جہاں اپنے ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر مقدم سمجھا جاتا ہو، جہاں کے لوگ اپنی چھوٹی سی کامیابی کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کریں کہ دوسری دنیا ہیچ لگنے لگے، جہاں جہالت بیچنے ، بانٹنے اور اس کی حفاظت کرنے پر نام نہاد دانشور متعین کر دئیے جاتے ہوں، جہاں مذہب کو خواب دکھانے اور مخالفوں کو دھول چٹانے کے طور پر برتا جاتا ہو، جہاں شہوانی لذتوں کو تصوراتی حوروں کے جسموں میں گاڑھ کر بیان کرنے کا رواج ہو، جہاں کے لوگ حال اور مسقبل کی دگر گوں صورتحال سے بے پرواہ مگر اپنے ماضی کے تابناک ہونے پر بضد ہوں ، جہاں منافقت کی فصلیں لہلہاتی ہوں اور چمچہ گیری کو ملازمت کے حصول کا پیمانہ سمجھا جاتا ہو۔
یہ دیس کیسا دیس ہے؟ جہاں اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کو را، موساد اور سی آئی اے کے سر تھونپنا عام سی بات ہو، جہاں سود خوری کو “منافع” کی اصطلاح سے بدل کر مومنین اپنا کاروبار چمکا رہے ہوں، جہاں کرپشن کو “بچت” کے لفظ کا چولا پہنا کر سماج میں عام قبولیت کی سند دی جا چکی ہو، جہاں کے باسی خود تو ترقی یافتہ ممالک کو کوچ کرنے کیلئے بے تاب ہوں مگر دوسروں کو یہاں رہنے کا درس دیتے پھرتے ہوں، جہاں دلیل سے نہیں بندوق سے بات منوانے کا بو بالا ہو، جہاں دو نمبری کا دھندہ خوب پھلتا پھولتا ہو، جہاں مردانگی کے اظہار کیلئے جنسی طاقت کو پیمانہ مانا جاتا ہو، جہاں اصلی ہیروز کو بُرا سمجھاجاتا ہو اور حملہ آوروں کو بطور ہیرو نصابوں میں پڑھایا جاتا ہو۔
یہ دیس کیسا دیس ہے؟ جہاں اپنی ماں بولی کو پسماندہ اور بدیسی زبان کو اعلٰی و ارفع سمجھا جاتا ہو، جہاں قلندروں کے آستانوں پر بم پھٹتے ہوں، جہاں فتووں کے بیوپار پے گھر لُٹتے ہوں، جہاں حکمرانوں کی شخصی لڑائیوں میں عوام مرتے ہوں، جہاں مذہبی منافرتوں کے شعلے دہکتے ہوں، جہاں بچیوں کے ساتھ ریپ ہوتے ہوں، جہاں ماورائے عدالت قتل کا کسی کو افسوس تک نہ ہوتا ہو، جہاں مرد عورتوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے دیکھنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہوں، جہاں پرندوں کو بے توقیر کیا جاتا ہو، جہاں دریاؤں کو بیچ کے ڈکارا جاتا ہو، جہاں کمیشن کے نام پے کاروبار چلتے ہوں، جہاں اچھے اور بُرے طالبان رہتے ہوں، جہاں زیادہ گلا پھاڑ پھاڑ کر بولنے والوں کو سیاسی پارٹیوں کا ترجمان بنا دیا جاتا ہو۔
یہ دیس کیسا دیس ہے؟ جہاں وکیل کرنے کے بجائے جج کر لئے جاتے ہوں، جہاں آدی واسیوں کو “بھیک منگوں” کا ٹولا سمجھا جاتا ہو، جہاں جوتے شو کیسوں میں رکھے جاتے ہوں اور خور و نوش کی اشیا پر مکھیاں بھنبھناتی ہوں، جہاں زندہ لوگوں کو گُم کر دیا جاتا ہو، جہاں مسخ شدہ لاشوں کے چرچے ہوتے ہوں، جہاں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹنے کے باوجود فعال ہوں، جہاں جہیز کے جہنم میں لڑکیاں جلتی ہوں، جہاں مردہ جانوروں کے گوشت سے کباب بنا کے بیچے جاتے ہوں، جہاں موسیقی کو حرام سمجھنے والے پاکدامنی کا استعارہ ہوں، جہاں سکولوں میں معلم اپنے فرائض سے کوتاہی برتتے ہوں، جہاں دانش کو کاغذوں کی محتاجی در پیش ہو۔
یہ دیس کیسا دیس ہے؟ جہاں خوشی منانے کیلئے خاندان ہوٹلوں پر پیٹ بھرنے کا رواج ہو، جہاں جعلی ڈگریاں بکتی ہوں، جہاں ثقافتی تہواروں پر پابندیاں ہوں، جہاں کھیل کے میدان ویران پڑے ہوں، جہاں کھیت ملٹی نیشنل کمپنیوں کے قبضے میں ہوں، جہاں پولیس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو تحفظ دیتی ہو، جہاں راول کی سمی کو ولن سے بیاہ دیا جاتا ہو، جہاں مرد کی عزت عورت کے پلو سے بندھی ہو، جہاں غربت کی وحشت سے دل لرزتے ہوں، جہاں بے روزگاروں کی فوج اپنے ہی گھر والوں سے لڑتی ہو۔
یہ دیس کیسا دیس ہے؟ جہاں شدت پسندوں کی نرسریاں پھلتی پھولتی ہوں، جہاں دیواروں پر جنسی کمزوری سے نجات کے دواخانوں کے اشتہار کُنداں ہوں، جہاں سیاست کو گالی سمجھا جاتا ہو، جہاں زندگی کو بے دلی سے جینے کا ڈھنگ سکھایا جاتا ہو، جہاں بیگانگی کا دور دورہ ہو، جہاں کتاب پڑھنے کا رواج نہ ہو، جہاں ستم گر اور ستم گزیدہ ایک ساتھ رہنے پر مجبور ہوں اور جہاں آئین کے پھاڑنے والے محب وطن اور آئین کو بنانے والے پھانسیوں پر چڑھا دئیے جاتے ہوں۔ یہ دیس کیسا دیس ہے؟