(اورنگ زیب نیازی)
’’دنیا کی چند وحشی قوموں کو چھوڑ کر تما م( مہذب) قوموں پر کتاب نے حکمرانی کی ہے۔‘‘معلوم نہیں یہ کس کا قول ہے لیکن گزشتہ چند روز سے کسی مصرعِ تر کی صورت بے طرح یاد آئے جا رہا ہے اور اس یاد کا سبب صاحبِ کشف المحجوب کی دھرتی پر منعقد ہونے والے دو مختلفevents سے متعلق آنے والی خبریں ہیں۔ایک خبر کہ جیسے شورِ قیامت برپا ہے۔دوسری خبر کہ گویا نقار خانے میں طوطی کی آواز۔پہلی خبر شہر لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں پی۔ایس ۔ایل کے فائنل کی ہے۔جس کی کی خاطر قوم،ملک،سلطنت کے بڑے کئی روز سر جوڑ کر بیٹھے،سپہ سالارِ اعظم اور عزت مآب جناب وزیر اعظم نے خصوصی دلچسپی لی،حزب اختلاف کے راہنماوٗں اور وفاقی اور صوبائی وزیران و مشیران نے کئی بیانات داغے،پاکستان کرکٹ بورڈ میں خاص طور پر تخلیق کردہ منصبِ جلیلہ پر فائز جناب نجم سیٹھی اور اور ان کے نیاز مند خام اعلیٰ کے مابین کئی ملاقاتیں ہوئیں،عسکری اور سول اداروں سے مذاکرات ہوئے،تمام پاکستانی نیوز چینلز نے ہر آدھ گھنٹا بعد خبر بریک کی،فالیں نکالی گئیں،شرطیں لگیں،منتیں ،مرادیں مانگی گئیں، عوام کی جان سولی پر اٹکی رہی،نرگس ہزاروں سال نہیں تو کئی ہفتے اپنی بے نوری پہ روئی،تب جا کر دیدہ ور پیدا ہوا،چارہ گروں کو نوید ہوئی اور صف دشمناں کو خبر پہنچی کہ پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں ہو گا۔شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد،پتہ نہیں تیری گلیوں کی ہوا اب کس کس کو،کہاں کہاں سے کھینچ کر لاہور لائے گی۔ دیدہ و دل فرشِ راہ ہیں،کلیاں نہیں آنکھیں بچھی ہیں،آنے والوں کے خیر مقدم کی تیاریاں جاری ہیں۔پاک آرمی اور رینجرز کے دستے سلامی دیں گے۔پنجاب پولیس کے ایک ڈی آئی جی،تین ایس پی،پینتیس ڈی ایس پی،پچاسی ایس ایچ اوز اور سات ہزار جوان حفاظتی زمہ داریاں سر انجام دیں۔ہیلی کاپٹرز فضائی نگرانی کریں گے۔قذافی سٹیڈیم کے ارد گرد کی دکانیں اور کاروباری مراکز پانچ روز پہلے بند کر دیے گئے ہیں۔دو روز پہلے اس کوچہء جاناں کو جانے والے سبھی راہیں مسدود ہو جائیں گی اور شنید ہے کہ اس روز اہالیان لاہور کے لیے موبائل سروس بھی معطل کر دی جائے گی۔
یہ سب سر آنکھوں پر کہ قوموں کی زندگی میں کھیل کی اہمیت سے کس کو مفر ہے مگر کرکٹ میں کم دلچسپی اور کم سمجھ رکھنے والے ہمارے جیسے سادہ لوح لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور سر اٹھاتا ہے کہ ہماری قومی زندگی میں کرکٹ کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟دوسرے کھیلوں ہاکی،فٹ بال،سکوائش،والی بال،کبڈی وغیرہ کو اتنی اہمیت کیوں حاصل نہیں؟کرکٹ محض ایک کھیل ہے یا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ادب و زبان اور ثقافت کے نو آبادیاتی مطالعات نے سوچ کے نئے دریچے وا کیے ہیں تو لامحالہ ذہن اس طرف کو بھی چلا جاتا ہے کہ کہیں کرکٹ بھی کسی استعماری ڈسکورس کا حصہ تو نہیں؟کرکٹ کا آغاز یا اسے پزیرائی اس زمانے میں ملی جب تاج برطانیہ کا جھنڈا آدھی دنیا پر لہراتا تھا۔تا حال دنیائے کرکٹ کی بیشتر بڑی ٹیموں کا تعلق ان ممالک سے ہے جو کسی نہ کسی دور میں عظیم برطانیہ کی کالونی رہے ہیں۔ وہاں نو آباد کار نے مذہب،تعلیم،زبان،ثقافت،ادب غرض ہر شعبے کو اپنے اقتدار کی طوالت اور اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لیے ایک ڈسکورس کے طور پر استعمال کیا تو ممکن ہے کرکٹ کو بھی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد نو آبادیات کا دوسرا فیز شروع ہوا،چودھراہٹ کی پگ امریکہ نے سنبھالی تو بلا واسطہ نو آبادیات کاّ غاز ہوا،استعماری کلامیوں کے پھیلاؤ اور سرمایہ داری کے فروغ کے لیے میڈیا کا سہارا لیا گیا اور فی زمانہ تیسری دنیا میں سرمایہ داری کی میڈیائی تشہیر کے لیے کرکٹ سے بہتر وسیلہ کوئی نہیں کہ ہم لوگ دلچسپ سے دلچسپ ڈرامہ اور فلم بھی اتنی توجہ سے نہیں دیکھ سکتے جتنا دس گھنٹے کے ایک کرکٹ میچ کے لیے ٹی۔وی کی سکرین سے چمٹے رہتے ہیں۔خیر یہ باتیں تو بر سبیلِ تذکرہ آ گئیں۔اصل موضوع تو دوسری خبر ہے جو پاکستانی چینلز نے ایک دن چند سیکنڈز کے لیے نشر کی۔یہ خبر لاہور میں منعقد ہونے والے لاہور لٹریچر فیسٹیول کی ہے۔یہ فیسٹیول گزشتہ تین چار سال سے باقاعدگی سے منعقد ہو رہا ہے جس میں دنیا بھر سے شاعر،ادیب اور فنون لطیفہ کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات شرکت کرتی ہیں۔یہ فیسٹیول تین دن کے لیے تھا۔پچھلے سال اسے دو دن کے لیے ایک نجی ہوٹل تک محدود کر دیا گیا۔اس سال اس یہ فیسٹیول الحمرا کلچرل کمپلیکس میں ۲۵ فروری سے شروع ہونا تھا لیکن عین وقت پر اس کا دورانیہ ایک دن تک محدود کر کے اسے ایک اور نجی ہوٹل میں منتقل کر دیا گیا۔مستزاد یہ کہ آخری دو سیشنز کو منسوخ کر کے شام ڈھلے فیسٹیول کا اختتام کر دیا گیا۔یہ احساس بھی دل دہلا دینے والا ہے کہ قلم ،کتاب اور آرٹ سے ہمارا رشتہ اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ ہم کسی ادبی سرگرمی کو دو دن کے لیے تحفظ نہیں دے سکتے۔ جتنی توجہ اور سرمایہ ہم ایک کرکٹ میچ کو دے رہے ہیں اگر اس کا دسواں حصہ بھی کتاب،ادب اور فن کے لیے وقف کیا ہوتا تو آج ایک کرکٹ میچ کے لیے اتنا کشٹ اٹھانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ فرد،گروہ یا قوم کی دلچسپیاں اور پسند و نا پسند اس کی ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں اور ہماری ترجیحات میں کبھی کتاب شامل ہی نہیں رہی۔نصیر احمد ناصر کی طویل نظم’’کتابوں میں زندگی تلاش کرنا بے سود ہے‘‘سے ایک اقتباس اس خزاں نصیب معاشرے کی نذر:
کتابوں سے بہت کچھ مل سکتا ہے
جس طرح کچرے کے ڈھیر
اور ردی کاغذوں کے انبار سے
رزق تلاش کرنے والے بچوں کو
بہت سی بے کار چیزوں کے ساتھ
کچھ کار آمد چیزیں بھی مل جاتی ہیں
کتابوں میں سمجھ نہ آنے والی باتیں ہوتی ہیں
اسی لیے ذہنی طور پر بیمار اور نا خواندہ معاشروں میں
کتابوں کا ریپ ایک عام سی بات ہے۔۔۔۔