’خواب دان ‘کے حوالے سے ایک تنقیدی نوٹ

(رفیع اللہ میاں)

’اختراع‘ اور ’ارتفاع‘ صرف غزلیہ مجموعے ہی نہیں‘ اختر رضا سلیمی کے فن کے اختراعی پہلو سے ارتفاعی پہلو تک کے سفر کا حوالہ بھی ہیں۔ تخلیقی سفر کے راستے کو پہچاننے کے بعد سلیمی کی کتابوں کے عنوانات بھی ان کی فکر کی بھرپور نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔دانیال طریر‘ جن کا نام لبوں پر آتا ہے تو محبت اور دکھ ایک ساتھ سینے کے پنجرے میں بول اٹھتے ہیں، نے چند اشعار کا انتخاب کیا ہے جس کا ایک شعر میں یہاں سلیمی کے ایک نمائندہ شعر کے طور پر پیش کرتا ہوں:
نہ جانے کیا ہے کمی اس جہان میں اختر
جو ایک بار گیا لوٹ کر نہیں آیا
یہ شعر سلیمی کی فکری شاعری کا ایک بہترین ترجمان بھی ہے جو ہر لمحے‘ جہان فانی اور اس میں مقید انسانی وجود کا اس کے ساتھ محدود اور ناقص تعلق کی نوعیت سے‘ اور اسے رد کرکے ابدی و حقیقی (مادی نہیں بلکہ الہٰیاتی تناظر میں حقیقی) زندگی کے مضمون سے جھوجھتی نظر آتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ صرف سلیمی کی شاعری ہی کا معاملہ نہیں ہے، وہ جب ناول کی دنیا میں قدم دھرتے ہیں (جاگے ہیں خواب میں) تو بھی وقت کی قید کو توڑنے کی خواہش کے تحت ماضی اور مستقبل کو موجود سے ہم کنار کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ وہ مادی وجود کی فنا کی خصوصیت کو‘ ماورا کے بقا کے تصور سے ڈھانپتے ہیں۔ صرف یہ ہی نہیں‘ جب سلیمی ناول سے قبل تیسرے شعری مجموعے کی صورت میں نظم کے منطقے میں داخل ہوتے ہیں تو یہی تصور بار بار مختلف صورتوں میں شعری تجربے سے گزار کر دیکھتے ہیں اور خود کو اپنے اندر اجالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس خالص موضوعی فکر کے ساتھ ان کے اٹوٹ کمٹمنٹ کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کی حقیقی (مادی تناظر میں حقیقی) عملی زندگی میں اخلاص اور جرأت کی قدروں کا تعلق ممکن ہے اسی کمٹمنٹ کا نتیجہ ہو۔
’خواب دان‘ سلیمی کا تیسرا شعری مجموعہ ہے جو دو ہزار تیرہ میں پہلی بار چھپا تھا اور یہ نظموں پر مشتمل ہے(دوسرا ایڈشن دو ہزار چودہ)۔ سلیمی کی شاعری پر یوں تو قاضی جاوید، ناصر عباس نیر اور فہمیدہ ریاض سمیت کئی اہم لوگوں نے لکھا ہے، یہاں تک کہ فکشن کے لے جنڈ اسد محمد خان نے بھی لیکن مارکسی استاد اور شاعر یوسف حسن نے دو جملوں پر مشتمل جو تبصرہ کیا ہے، وہ سلیمی کی شاعری کی سمت کو بخوبی سمیٹتا ہے۔ اس تبصرے کا کلیدی جملہ ہے: ’’ اختر رضا سلیمی بنیادی طور پر فکری شاعر ہے۔‘‘ (صفحہ 124، خواب دان)
میں نے اس مختصر تنقیدی نوٹ میں اس ’فکری نوعیت‘ کی کافی حد تک براہ راست وضاحت کردی ہے تاہم میں یہاں دانیال طریر کا خصوصی طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں جنھیں اپنی مختصر طبعی و ادبی حیات میں فن پاروں کے بہترین تجزیے پر منفرد ملکہ حاصل تھا۔ دانیال نے اس نظمیہ مجموعے کا تجزیہ اسی نہج پر لیکن بالواسطہ طور پر کیا ہے اور یوسف حسن کی نشان زد کلید کو تفصیل سے پیش کیا۔ لیکن اردو کے نقادوں کی مانند دانیال کے ہاں بھی کچھ ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جن کے پیچھے تجزیاتی سوچ کا ہاتھ نہیں بلکہ ایک ادھورا خیال ہوتا ہے جو باطل خیال لگتا ہے۔ وہ اپنے اس تجزیے میں لکھتے ہیں: ’’ہر تخلیقی متن اپنی پراسراریت کا ایک الگ نظام وضع کرتا محسوس ہوتا ہے۔‘‘ اور آگے لکھتے ہیں: ’’تخلیقی متن کی انفرادیت تخلیقی عمل کے اجزاے ترکیبی میں نہیں اس کے نسبت ترکیبی میں ہوتی ہے جسے تخلیق کار بروئے کار لاتا ہے‘ یہی عمل اس منطقۂ پراسراریت کا تعین کرتا ہے۔‘‘ (صفحہ 18، خواب دان) اگرچہ ان دو باتوں میں واضح طورپر تضاد موجود ہے یعنی پہلے وہ کہتے ہیں کہ پراسرار نظام کا خالق تخلیقی متن ہے پھر کہتے ہیں کہ تخلیقی متن کی انفرادیت تخلیقی عمل کے اجزاے ترکیبی میں نہیں ہے یعنی متن کی انفرادیت جو اس پراسرار منطقے کی نمائندہ ہے، اس کا خالق متن نہیں بلکہ اس کی نسبت یعنی تخلیق کار ہے۔ اس بحث کا تعلق پس ساختیات سے ہے جو مغربی مابعد جدیدیت کے مباحث کو اردو تنقید میں لے کر آئی ہے۔ ان مباحث نے مصنف یا تخلیق کار کی مرکزیت پر کاری ضرب لگائی اور مصنف کی موت جیسے مقولے نے جنم لیا۔ تاہم‘ اردو روایت میں مصنف کی موت جیسے کسی مقولے کی آج تک کوئی گنجایش نہیں بنی کیوں کہ مغرب میں یہ کوئی تجریدی نعرہ نہیں رہا بلکہ اس کا تعلق سماجی، ثقافتی اور سیاسی زندگی سے بہت گہرائی میں رہا ہے۔ مغربی فلسفے نے خدا کی مرکزیت کو بھی مسترد کرکے انسان کی مرکزیت پر مبنی فکریات کو راہ دی اور انھیں مغربی سماجی، سیاسی نظام میں بھی راہ دی گئی۔ مغربی اور اردو روایت کو ایک ہی سانس میں آمیز کرنے کے باعث ہی دانیال کے ہاں اس تضاد نے جنم لیا ہے۔
لیکن اس تضاد سے ہٹ کر میں خیال کے ادھورے پن کی بات کررہا تھا۔ دانیال نے اس پراسرار نظام کا ذکر کرتے ہوئے اس کے اجزاے ترکیبی پر کوئی بات نہیں کی۔ کسی بھی متن میں لفظ اور جملوں کی ترتیب سے معنی کا ظہور ہوتا ہے۔ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ متن کے مخصوص اجزاے ترکیبی مخصوص مصنف کی پیداوار ہے لیکن متن اور مصنف کے اس واضح تعلق سے ہٹ کر نسبت ترکیبی کی مبہم اصطلاح استعمال کرکے اس پراسرایت کو پید اکیا جانا ہے جو حقیقت میں موجود ہی نہیں ہوتی‘ یعنی متن سے باہر موجودی‘ اسی لیے میں نے کہا کہ یہ خیال باطل لگتا ہے۔ غیر مبہم ہونے کی وجہ سے اسے نظام بھی نہیں کہا جاسکتا‘ نہ اس کے اجزاے ترکیبی وضع کیے جاسکتے ہیں نہ ہی دانیال نے انھیں وضع کیا ہے۔ باوجود اس کے کہ ان کے بقول اس انفرادی منطقۂ پراسراریت تک رسائی میں اکثر نظم گو شعرا کا میاب ہوئے ہیں۔
دانیال نے سلیمی کے غزلیہ مجموعوں کے گہرے مطالعے کے بعد جو نتیجہ برآمد کیا‘ وہ بھی یوسف حسن کے تبصرے کی طرح یک سطری ہے: ’’اس نے شاعری کو اپنے بنیادی مسائل کے حوالے سے بعض اساسی استفہامیوں پر غور و فکر کے لیے اختیار کیا ہے۔‘‘ (صفحہ 23، خواب دان) لیکن اوپر میں نے جو کہا تھا کہ دانیال نے ’فکری شاعری‘ کی وضاحت براہ راست نہیں کی ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ انھوں نے شاعر کے ’بنیادی مسائل‘ کی وضاحت نہیں کی ہے کہ یہ کس نوع کے مسائل ہیں، آیا یہ ٹھوس عملی ہیں یا تجریدی فکری ہیں۔ آگے جاکر وہ کسی حد تک واضح شکل میں نظمیہ متون سے ظاہر ہونے والے مسئلے کو وجود کے معنی کی دریافت کا عمل قرار دیتے ہیں لیکن یہ وضاحت بہرحال موجود نہیں ہے کہ شاعر کے پیش نظر جو ’وجود‘ ہے وہ مظاہر فطرت سے لے کر خود انسانی وجود کے عمل تک پر مشتمل ہے یا محض ’فکری‘ سطح پر کارفرما ہے۔ تجزیات کے دوران بہرحال، دانیال کو اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ سلیمی نے ’وجود پر اصرار‘ کے حوالے سے جتنا بھی سفرکیا ہے وہ فکری سطح کا حامل ہے۔
ناصر عباس نیر ہمارے عہد کے معتبر نقاد تسلیم کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے کتاب میں شامل ایک صفحے پر مشتمل اپنے نقطہ نظر میں چند ایسی باتیں کہی ہیں جن کے تناظر میں اختر رضا سلیمی کا فن بے گانگی کا شکار نظر آتا ہے۔ نیر جب کہتے ہیں کہ: ’’اختر رضا سلیمی کی نظم معاصر عہد کی ترجمانی (عکاسی نہیں) کرنے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے جو پیچ در پیچ ہے۔‘‘ (صفحہ 17، خواب دان) تو دراصل معاصر سماج پر اپنی گہری نگاہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ معاصر عہد اور ذمہ داری قبول کرنا ایسے اشارے ہیں جنھیں اگر سلیمی کی شاعری کی طرف منسوب کیاجائے تو اس کا سارا فن اجنبیت کے حوالے ہوجاتا ہے۔ اوپر جتنی بحث ہوچکی ہے‘ اس کے بعد ان اشاروں کی موجودی اپنی معنویت منکشف کرنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتی ہے۔ معاصر عہد کے ساتھ سلیمی کی نظم کا اتنا ہی تعلق ہے جتنا کہ اس کی نظم ’’پرومیتھس کے حضور میں‘‘ میں دکھائی دیتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دانیال نے اسی نظم کے حوالے سے مختصراً لکھا ہے کہ یہ ’وجود کی محدود معنویت کی پیش کار ہے‘ حالاں کہ یہ نظم دانیال کو موقع دے رہی تھی کہ وہ سلیمی کی فکری شاعری میں معروضی/سماجی عوامل کو بھی ڈھونڈ نکالے لیکن انھوں نے اس پر غور نہیں کیا۔ یہ نظم ہمارے سماجی کینوس پر واضح دکھائی دینے والے عناصر آگ‘ خون‘ بارود اور تباہی اور ان سے جنم لینے والی سفاک نفسیات کو دکھ کی شدت اور طنز کی کاٹ کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ اس کا یہ حصہ دیکھیں:
’’سو میں زندگی کی تمنا لیے
دست بستہ تری بارگہ میں کھڑا‘ منتظر ہوں
کسی سانحے کا
کہیں بم پھٹے تو
میں تازہ خبر کی حرارت سے اپنے بدن کو حرارے مہیا کروں
آگ ہی اب مری زندگی ہے‘‘
(’’پرومیتھس کے حضور میں‘‘ صفحہ 69)
لیکن اس اور اسی جیسی ایک آدھ دوسری نظم کی بنیاد پر سلیمی کی نظم پر معاصر عہد کی ترجمانی کی ’ذمہ داری‘ نہیں ڈالی جاسکتی۔ سچ یہ ہے کہ سلیمی کی نظم ایسی کوئی ذمے داری قبول نہیں کرتی جس کا تعلق معاصر عہد کی محسوس حقیقتوں کے ساتھ ہو۔ بقول نیر‘ ہم جس تشکیلی دنیا میں جی رہے ہیں وہ میڈیا کے ذریعے اپنا اظہار کرتی ہے یعنی اسے میڈیا کنٹرول کرتا ہے اور جس نے ہمیں اپنے وجود کو ازل سے درپیش سوالات کی آنچ سے دور کردیا ہے۔ اس نوٹ میں وہ تشکیلی دنیا کو غیر حقیقی اس لیے کہہ رہے ہیں کیوں کہ اس نے ہمیں ان قدیم سوالات سے دور کردیا ہے جن کا تعلق زمان و مکان، عشق اور انسانی وجود سے ہے لیکن انھوں نے ان قدیم سوالات میں حیرت انگیز طور پر اظہار و ابلاغ اور فرد و سماج کے تعلقات کے سوالات کو بھی شامل کردیا ہے جس کی کوئی معقول توجیہہ نظر نہیں آتی۔ چناں چہ یہ سوال بہت اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ تشکیلی دنیا نے ان سوالات کے سلسلے کو تہ و بالا کرکے کس قسم کے نئے سوالات ہمارے سامنے کھڑے کردیے ہیں؟
اس سوال سے قطع نظر کہ تشکیلی دنیا غیر حقیقی کیسے ہے‘ کیوں کہ سماجی، ثقافتی اور سیاسی تشکیلات، لسانی تشکیلات ہی کی مانند ایک تاریخی پروسیس میں اپنا اظہار کرتی ہیں، یہ نکتہ کھل کر سامنے آتا ہے کہ اگر یہ عہد تشکیلی عہد ہے جس نے ہمارے ازلی سوالات کی دنیا تہ و بالا کردی ہے تو سلیمی کی شاعری انھی سوالات کے جواب کھوجنے سے عبارت ہوکر معاصر عہد کی ترجمان کس طرح ہوگئی ہے؟ ذمہ داری قبول کرنے کے مقولے کی بنیاد ہی میں معروض/سماج ’مخفی‘ ہوکر نمایاں ہوتا ہے اور سلیمی کی شاعری ایسی کوئی معروضی/سماجی ذمے داری قبول نہیں کرتی۔ دانیال لکھتے ہیں: ’’اختر رضا سلیمی کو اپنے مرکزی مسئلے کے بین العلومی ہونے کا قوی ادراک ہے لہٰذا وہ مابعد الطبیعات، تاریخ، مذہب، متھ، فلسفہ اور سائنس سے تخلیقی استفادے کے لیے ہمہ وقت تیار و بیدار رہتا ہے۔‘‘ (صفحہ 25، خواب دان) سلیمی کا مرکزی مسئلہ معروضی/سماجی نہیں بلکہ وجود کی فکری جہت ہے۔ حتیٰ کہ سائنس سے استفادے کی نوعیت کو بھی نظم ’ایک کہانی‘ کے اس حصے سے بہ خوبی سمجھا جاسکتا ہے:
’’ناگہاں
ان تین میں سے ایک کی نظریں
ہوا کی سمت اٹھتی ہیں
تو وہ گھبرا کے پھر سے چلنے لگتی ہے
ہوا چلتے ہی ان کی گفتگو آواز میں تبدیل ہوتی ہے‘‘
(ایک کہانی، صفحہ 39، خواب دان)
چناں چہ اختر رضا سلیمی کی نظموں کو معاصر عہد کی ترجمان نظمیں نہیں کہا جاسکتا۔ میں نے اس تنقیدی نوٹ کا آغاز سلیمی کے ایک اچھے لیکن ان کی شعری فکر کے بہترین ترجمان شعر سے کیا تھا اور اب اختتام ایک ایسے شان دار اور عجوبہ شعر پر کرتا ہوں کہ اگر وہ اپنی نظم ’’کل من علیھا فان‘‘ کے اس شعر کے لیے اپنی دیگر تمام نظمیں تج بھی دیں تو یہ شعر ان کی بہترین ترجمانی کے لیے کافی ہوگا۔ عجوبہ اس طرح کہ کتاب کی آخری نظم کا یہ شعر ان کی فکری شاعری کی پوری دنیا تہ و بالا کرکے اس پر غالب آسکتا ہے۔
’’شمار کیجیے اس کا شہید لوگوں میں
جو شخص مرگیا ہے زندگی سے لڑتے ہوئے‘‘