پی ایس ایل ٹو کا فائنل لاہور میں پاگل پن تھا کیا؟
(شیخ محمد ہاشم)
گزشتہ دنوں ہم نے ایک آرٹیکل لکھا تھا جس میں دہشت گردی کے تابڑ توڑ حملوں کے بعد ہم نے اشرافیہ پر زبردست تنقید کی تھی، ہم نے لکھا تھا کہ ریاست اجتماعیت کو نظر انداز کرتے ہوئے انفرادیت کی جانب سفر کررہی ہے۔ ہم نے لکھا تھا کہ ریاست کی عملداری خاتمے کی جانب گامزن ہے۔ یہ کل کی بات تھی۔ اور آج کی بات یہ ہے کہ پی ایس ایل ٹو کا فائنل جو کہ لاہور میں کامیابی سے ہمکنار ہوا جس نے دہشت گردی کو شکست دیکر دہشت گردوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ متذکرہ عمل سے اجتماعیت بھی نظر آئی اور ریاست کی عملداری بھی، اپنے لکھے گئے مضمون کے اِن جملوں پر ہم شرمندہ ہیں۔
فائنل شروع ہونے سے قبل دو تین راتوں سے ڈراونے خوابوں نے ہمیں اپنے حصار میں جکڑ ررکھا تھا ،ہم نے خواب میں ہر سو تاریکی کے مناظر دیکھے، ہم نے خواب میں دیکھا تھا کہ ہمارے چمن کا ہرپودا مرجھا سا گیا ہے،درختوں کے پتوں کو بہار کے موسم میں زمین پر بکھرتے دیکھا ۔ ہم نے بلند عمارتوں کو زمین بوس ہوتے دیکھا ، ستاروں کوآپس میں باہم دست گریباں ہوتے اور ایک ایک کو ٹوٹ کر گرتے دیکھا، دوران میچ خواب اور خوف کے اثرات ہم پر پوری طرح مسلط رہے۔ کیونکہ جیسے حالات ہوتے ہیں ویسے ہی خواب آتے ہیں۔ عمران خان صاحب کابیان کہ “پی ایس ایل ٹو کا فائنل لاہور میں کرانا پاگل پن ہے “۔ میچ شروع ہونے سے قبل ہم بھی ہر کسی سے یہ ہی کہہ رہے تھے، میچ سے قبل تا اختتام ہمیں عمران خان صاحب کے بیان نے اضطرابی کیفیت میں رکھا، دوران میچ ہم ایک عذاب سے گزر تے رہے، میچ کے ہر وقفے میں پانی پینے کے لئے اُٹھتے اور قریب ہی رکھے کولر تک کا سفر ہمیں میلوں کا سفر لگتا، سانس ہماری دُکھنی کی مانند چل رہی تھی، ہمارے کان ہمارے دل کی دھڑکنوں کی آوازوں کو ڈھول تاشے کی مانند سن رہے تھے۔
لیکن خوابوں سے نکل کر ہم نے حقیقت کی دُنیا میں آنے کا فیصلہ کیا تو دیکھا کہ دہشت گردی کی زد میں آئے مرجھائے پودوں اور پھولوں میں جیسے یکدم جان پڑ گئی ہو، سلو موشن میں فلم کے سین ریورس ہونا شروع ہو گئے۔ معصوم بچے، لاغربوڑھے ، با پردہ و بے پردہ خواتین، دوست و احباب، کھلاڑی و فنکار غرضیکہ ہر طبقے سے جڑا ہرفردخوشی میں لہرا یا ہوا اور ماحول جگمگایا ہوا نظر آنے لگا، ہم حیران تھے ،منظر ہماری توقعات کے بر عکس بدلا بدلا نظر آ رہا تھا، جس عوام کو ہم کل تک مایوس اور دل آزرُدہ عوام کہتے تھے آج دہشت گردی سے جا ٹکرانے کے لئے اتنے بے چین اور پُر عزم نظر آرہے تھے کہ وہ دہشت گردی کی شکست کو بھی شکست دینے کو تیار تھے۔ ہر شخص کا خوشی بھرا چہرہ اور عزم کے زعم میں پھولا سینہ دیکھ کر ہمیں تھوڑی دیر کے لئے جلن ہونے لگی تھی، کیونکہ ہمارا لکھا نقش بر آب ثابت ہورہا تھا، پی ایس ایل ٹوکے فائنل میچ کو دیکھتے ہوئے ہم نے اپنے لکھے گئے الفاظوں کو غریق آب ہوتے دیکھا، لیکن اس جیلیسی کے باوجود ایک بات تھی، نجانے وہ کون سی طاقت تھی جس نے برسوں سے خوشیوں کو ترستی قوم کے لئے ہمارے گُنگ لبوں کودعاوں کے جنبش کے قابل بنا دیا تھا، جب تک میچ بخیر و خوبی اختتام پذیر نہ ہوا اُس وقت تک جو دُعا ئیں ہمیں یاد تھیں اس ملک اور قوم کی خیر و عافیت کے لئے مانگتے رہے۔ ہم اپنے لکھے ہوئے پر شرمندہ بھی اس لئے ہیں کہ ہمیں کل تک کا پاکستان اجتماعیت کا قبرستان نظر آرہا تھا۔ لیکن پی ایس ایل ٹو کے فائنل نے اجتماعیت ،شکستہ تقسیم در تقسیم اور دہشت گردی کی شکست کے وہ مناظر دکھائے جس کو ہم برسوں سے دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے ۔ ہم توعام عوام ہیں نا ، اس لئے اپنے لکھے کی شکست خوردگی پر شرمندہ ہیں۔
لیکن کل کے عظیم کرکٹر اور آج کے نواز حکومت مخالف لیڈر جناب عمران خان نے پی ایس ایل ٹو کے فائنل کو لاہور میں کرانا پاگل پن قرار دیا تھا۔ جس کی تاویل انھوں نے کچھ اس طرح پیش کی تھی کہ” قومی اور بین الاقوامی کھلاڑی جب خوف کے ماحول میں کرکٹ کھیلیں گے تو آپ بین الاقوامی طور پر کیاپیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں خوف کی فضا قائم ہے ؟ لہذا یہ قدم سراسر پاگل پن ہوگا۔”
سوال یہ ہے کہ اب جب کہ پی ایس ایل ٹو کا فائنل لاہور میں کامیابی سے ہمکنار ہو گیا ہے، تو آج کے دانشورجناب عمران خان اپنے دیئے گئے بیان پر شرمندہ ہوں گے کہ نہیں؟ جب کہ خان صاحب کے بیان سے پی ٹی آئی کے اہم لیڈران و کارکنان متفق نظر نہیں آرہے تھے۔ عوامی لیڈر اور خان صاحب کے اتحادی وقریبی ساتھی “شیخ رشید صاحب” نے تو بالکل خان صاحب کے بیان کے خلاف اپنا رد عمل ظاہر کیا اور تمام تر خطرات کے باوجود میچ دیکھنے لاہور پہنچ گئے، جب کہ اُنھیں ایک خطرے کا سامنا لاہور کے ریلوے اسٹیشن پر ہی کرنا پڑ ا تھا۔ جس کو ہم ایک غیر مہذبانہ عمل قرار دیتے ہیں، ایک مہمان کے ساتھ ایسا سلوک قابلِ مذمت ہے ، شیخ صاحب عوام میں گھل مل کر برسوں بعد ہوم گراؤنڈ پر ہونے والے میچ سے خوب سے خوب تر محظوظ ہوئے اور واپس آتے آتے باد مخالف کی طرح حکومتی اقدامات کی بھی تعریف کر بیٹھے۔
فائنل سے ایک دن قبل قومی اسمبلی کے ممبر اور تحریک انصاف کے اہم لیڈر “اسد عمر صاحب ” نے گو کہ عمران خان صاحب کے بیان پر تنقید تو نہیں کی اور نہ ہی کر سکتے ہیں، لیکن اُنھوں نے بھی لاہور میں ہونے والے پی ایس ایل ٹو کا فائنل میچ لاہور میں کرانے کے فیصلے کی حمایت کی تھی اور قوم کو دعا گو رہنے کی تلقین کی تھی اوردلچسپ بات یہ ہے کہ فائنل دیکھنے کے لئے لاہوربھی پہنچے اُن کے ہمراہ چودھری محمد سرور بھی موجود تھے۔ اپنے لیڈر کی جانب سے پی ایس ایل ٹو کا فائنل لاہور میں کرانے کے فیصلے کو پاگل پن قرار دینے کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنان نے بھی اپنے لیڈر کے بیان کو نظر انداز کر کے دہشت گردی کے خلاف اظہار یکجہتی کو فوقیت دی اورلاتعداد پی ٹی آئی کے کارکنان خیبر پختون خواہ سمیت تمام شہروں سے فائنل دیکھنے کے لئے لاہور پہنچے۔
خان صاحب تو ہیں اس ملک کی خاص شخصیت اور ہم ٹہیرے عام آدمی، ہم تو شرمندگی کا اظہار بر ملا کر سکتے ہیں لیکن خان صاحب ایسا نہیں کرئینگے کیونکہ اس طرح اُن کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے، لیکن کبھی کبھی انا کی زبان سے نکلی ہوئی بات بھی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی وجہ بن جاتی ہے۔
پی ایس ایل ٹوکے فائنل میں اگر کسی کی کمی تھی تو عمران خان کی کمی تھی ،ہر بچہ ،بوڑھا، نوجوان ، کھلاڑی ،فنکار کی نگاہیں عمران خان کی تلاش میں تھیں، ہمارا خیال ہے کہ اُن کے زمانے کے عظیم بیٹسمین ویون رچرڈ کی آنکھیں بھی اپنے ہم عصر عظیم بولر کی متلا شی ہو نگی ،کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان اور ویون رچرڈایک ساتھ لاہور کے گراونڈ میں نظر آتے تو خان صاحب کا قد مزید اونچا نظر آرہا ہوتا۔
اس مضمون کے لکھنے کا ہمارا مقصد نہ کسی پر تنقید کرنا ہے اور نہ ہی کسی کی حمایت کرنا ،سوچنے کا مقام یہ ہے کہ تنقید برائے تنقید جو کہ ہمارے معاشرے کے مزاج میں سرایت کر چکی ہے اُس کے تریاق کے لئے فکرو فہم کہاں سے دستیاب ہو گا ،تنقید برائے اصلاح ہی ہمارے معاشرے کی بیماریوں کی واحد دوا ہے۔
پاکستانی عوام نے ہر دم اُس فیصلے کو سراہا ہے جو ملک وقوم کی مفاد میں ہو لیکن پاکستانی حکمران کبھی عوام کی توقعات پر پورا نہیں اُترے۔ پی ایس ایل ٹوکا فائنل لاہور میں کرا دینے سے دُنیا کو یہ پیغام توببانگ دہل پہنچ گیاہے کہ پاکستان کی فضاء میں خوفزدگی کی کوئی آمیزش نہیں
ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومتی اہلکار دودھ سے دھل گئے ہیں ،دہشت گردی اب بھی ہمارے لئے سنگین مسائل میں سے سب سے اولین مسئلہ ہے، پانامہ اور دیگر مسائل بھی آپ کا پیچھا سائے کی طرح کرتے رہیں گے۔
چھوٹامنہ بڑی بات کرنے کی جسارت چاہونگا ،خان صاحب کو مفید مشورہ دینا چاہتا ہوں، خان صاحب !اگر آپ ہر دل عزیز انقلابی و عوامی شاعر “حبیب جالب مرحوم “کے اوصاف کو اپنا شعار بنا لیں تو آپ ایک عظیم لیڈر کا روپ دھار لیں گے۔ محترم حبیب جالب شاعر شعلہ نوا ہی نہیں تھے بلکہ اپنے سینے میں عوام کا دُکھ سموکر رکھنے والے انقلابی لیڈر بھی سمجھے جاتے تھے، فوجی آمریت ہو یا سول آمریت ہر کسی کو للکارنے میں کسی بھی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ ایوبی آمریت میں کہی گئی اُن کی نظم “دستور” کے اثرات آج بھی پائے جاتے ہیں
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا
وہ توبے چارے تنگدستی،غربت اور بے روزگاری کے باوجود ہر دور میں جیل کی صعوبتیں جھیلتے رہے، لیکن انھوں نے کبھی اپنے عزم اور حوصلے کو مصلحت کی بھینٹ چڑھنے نہیں دیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور سے لیکر بے نظیر بھٹو تک کے حکمرانوں کے لئے کانٹا بن کر چبتے رہے۔ اُن کی سر کشی ہر کسی لئے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی تھی۔ عوام سے بھی کچھ اس طرح مخاطب ہوا کرتے تھے۔
یہ ملیں یہ جاگیریں، کس کا خون پیتی ہیں
بیرکوں میں یہ فوجیں ،کس کے بل پہ جیتی ہیں
جھونپڑوں سے رونے کی ،کیوں صدائیں آتیں ہیں
کاش تم کبھی سمجھو، کاش تم کبھی جانو
دس کروڑ انسان
اے خاموش طوفانو
خان صاحب! آپ کو اللہ نے ہر نعمت سے نوازا ہے آپ جالب مرحوم جیسے تنگ دست ،لاچار اور بے بس تو نہیں ہیں۔ عوام کی خواہش ہے کہ جالب مرحوم جیسا ویژن رکھنے والا لیڈر پاکستان کو نصیب ہو تو پاکستان کی تقدیربدلی جاسکتی ہے، ہمارا مشورہ ہے کہ حبیب جالب مرحوم کی زندگی کا بغور مطالعہ کریں اور اُن کے ویژن کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔۔ تو ہم کم ازکم حبیب جالب کو مرحوم کہنا چھوڑ دیں گے۔