(طارق ہاشمی)
متبادل بیانیے کی ضرورت، اس امر کا اثبات ہے کہ موجود بیانیہ غلط ہے۔ نیز واقعات وتجربات سے یہ نقصان دہ اور مہلک بھی ثابت ہوا ہے کہ اربابِ اختیار نے موجودہ بیانیہ کے بعد جن گروہوں کو اس کو عملی تشکیل کے لیے تیار بلکہ برسر پیکار کیا اب انھی سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ متبادل بیانیے کے لیے معاونت کریں مگر تیس سال کے بیانیے پر عمل پیرا رہ کر مفادات یا قوت حاصل کرنے والے طبقات اور اُن کے سہولت کاروں نے صاف انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ان کی ذمہ داری نہیں۔ دلچسپ امر ہے کہ مذکورہ طبقات نے خود کو مظلوم بھی کہہ دیا کہ وہ تو خود دہشت گردی کا شکار ہیں۔
متبادل بیانیہ کیا ہو گا اور اس پر عمل پیرائی کیسے ممکن ہو گی، اس کے لیے اہلِ دانش اور سرکاری و غیرسرکاری ادارے کام کر رہے ہیں مگر تاحال کوئی ایسا ’’کلمۂ خیر‘‘ ایجاد نہیں ہو سکا جو موجود بیانیے کے موثر رد کا باعث بن سکا ہو یا متبادل بیانیے کی کوئی قابلِ قبول شکل ہو۔
گذشتہ چنددنوں میں جب کہ میڈیا پر متبادل بیانیے پر زبردست ٹاک شو ہوئے اور اذہان کی آمادگی کے لیے کام ہواوہاں سوشل میڈیا پر کچھ حساس معاملات کی آڑ میں قوم کو پھر ذہنی مریض بنانے کی کوشش کی گئی۔ لوگوں کو اپنی محبوب ترین وال کے بند ہونے کا خدشہ ہوا توہر ایک نے اپنی ٹائم لائن پر کلمۂ شہادت درج کر کے خود کو صاحبِ ایمان ثابت کرتے ہوئے بین السطور یہ درد مندانہ اپیل کی کہ ایسا نہ کیا جائے۔ اپیل دائر کرنے کا یہ سلسلہ جاری ہے دیکھیں شنوائی ہوتی ہے یا نہیں۔
یہ صورتِ حال بھی قدرے گھمبیر ہے کہ متبادل بیانیے کی آواز جو گروہ یا جماعتیں اٹھاتی رہیں۔ فیض کے الفاظ میں ’’مردودِ حرم‘‘ قرار دی جاتی رہیں اور عصری سیاسی صورتِ حال میں متبادل بیانیے یا رد بیانیہ کی علمبردار بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی جماعتیں قومی سیاست کے منظر نامے سے غائب کی جا رہی ہیں اور اب اُن کا وجود ملک کے صرف ایک گوشے تک ہی باقی رہ گیا ہے۔ ممکن ہے یہ عمل شعوری نہ ہو بلکہ عصری ماحول میں وہ جماعتیں خود ہی ہلکان ہو کے ایک طرف ہو گئی ہوں۔
متبادل بیانیے کی ضرورت اور اعلان یہ ظاہر اً ایک دنشوارانہ فعل ہے اور اس وقت اہلِ سیاست سے لے کر اہلِ صحافت تک سب اس اعلان کو بطور ایک مقبول بیان کے اختیار کر رہے ہیں اور متبادل بیانیہ کی تلاش کا اعلان بذاتِ خود ایک بیانیہ بن چکا ہے لیکن اگر موجود بیانیے سے انحراف کیا جائے تو پھر یہ اعتراف بھی ببانگِ دہل کیا جائے گا کہ ہم نے غلط سوچا تھا، غلط کیا تھا اور اب ہم مزید نہ ایسا سوچیں گے اور نہ ایسا کریں گے اور اگر یہ اعتراف کیا جاتا ہے تو معاملات اور حالات دیکھنے والے ہوں گے۔ دیکھنے سے میری کیا مراد ہے اس کے لیے سلیم کوثر کا شعر سنیے:
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں ، دیکھنا انھیں غور سے
جنھیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
ایک وزیر محترم جن کے پاس عسکری اداروں کی کمان بھی ہے ایک ٹاک شو میں برملا اعتراف کر رہے تھے کہ بیس تیس سال قبل جو بیانیہ دیا گیا تھا وہ غلط تھا اور ہم نے اس پر عمل کر کے اب تک جو کچھ کہا اور کیا،وہ غلط تھا۔ معلوم نہیں وزیر موصوف گزشتہ بیس تیس سال کی تاریخ سے واقف بھی ہیں یا نہیں یا محض حکومتی پالیسی کے تحت فرضِ گویائی پورا کر رہے تھے لیکن اگر حقائق کو دیکھا جائے تو وزیر موصوف جس مروج یا مقبول بیانیے کو رد کرنے کی بات کر رہے ہیں اس کا تعلق ہماری افغان پالیسی سے جڑا ہوا ہے اور یہ بیانیہ اُس وقت تشکیل دیا گیا جب افغانستان میں نور محمد ترکئی کی خلق پارٹی برسراقتدار آئی۔ اس پارٹی کا منشور چونکہ سوشلزم سے متعلق تھا لہٰذا دونوں ملکوں کے علمائے کرام کو اسلام خطرے میں نظر آیا اور میرے خیال میں ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ ہی وہ بیانیہ تھا جس کے تحت جہاد کا پیغام دیا گیا۔ یہ بیانیہ اس وقت اور زیادہ مقبول ہوا جب افغان حکومت نے روس سے مدد کی اپیل کی اور اس کی فوجوں کی آمد کو ایک اسلامی ملک پر حملہ تصور کیا گیا اور یوں کابل میں چبھنے والے کانٹے سے یہاں کے ہر پیروجواں کو بے تاب کر دیا گیا۔ اس بے تابی نے کس نوع کے تحرک کو جنم دیا اور اُس کا کیا انجام ہوا ،یہ ہم سب کے سامنے ہے۔
اب جبکہ حالات و واقعات اور سانحات کی ضربوں نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ بیانیہ غلط تھا اور اب نیا بیانیہ دینے کی ضرورت ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیااس اعتراف سے جڑے وہ تمام اعترافات کیے جائیں گے جو بہت حساس بھی ہیں اور ان کا تسلیم کرنا ہمارے مذہبی، سیاسی اور سماجی گر وہوں، جماعتوں اور اداروں کے لیے ندامت کا باعث ہو گا۔ مثلاً:
کیا یہ اعتراف کیا جائے گا کہ افغانستان میں ہماری مداخلت سراسر غلط اقدام تھا۔
کیا یہ اعتراف کیا جائے کہ افغانستان پر روس کا حملہ محض ایک پروپیگنڈہ تھا، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
کیا یہ اعتراف کیا جائے گا کہ افغانستان میں ان کو بطور ’’مجاہدین‘‘ بھیجا جانا نہ صرف غلط بلکہ مجرمانہ اقدام تھا۔
کیا یہ اعتراف کیا جائے گا کہ لفظ ’’جہاد‘‘ ایک ڈسکورس تھا اور یہی وہ بیانیہ تھا جس کا اصل مقصد عالمی سامراجی طاقتوں کے ہاتھ مضبو ط کرنا تھا۔
کیا یہ اعتراف کیا جائے گا کہ ہم نے دوسروں کے مفادات کے لیے اپنے بچوں کو قربان کرنے کو ترجیح دی۔
کیایہ اعتراف کیا جائے کہ آپریشن رد الفساد دراصل وہی فساد ہے جو ہم نے بیس تیس سال پہلے پھیلایا اور ہمیں اُس وقت خبردار کیا گیا تھا کہ یہ فساد ایک دن ہمارے اپنے جغرافیے میں بھی پھیل جائے گا۔
کیا یہ اعتراف کیا جائے کہ وہ دانشور، ادیب، شاعر اور صحافی جو اس آگ میں کودنے پر ہمیں خبردار کر رہے تھے ، انہیں غدار قرار دینا نیز اُن کی پاکستانیت پر شک کیا جانا ایک فکری مغالطہ تھا اور انھیں ریاست کے منحرفین نیز سیکیورٹی رسک سمجھا جانا قطعی غلط تھا۔
کیا یہ اعتراف کیا جائے گا کہ مغربی سرحد کو محفوظ کرنے کے عارضی بندوبست کے لیے اُس پار ایک مخصوص گروہ کی حکومت کی تشکیل یا حمایت ایک خطرناک اقدام تھا جس نے ہمیں عالمی سطح پر نہ صرف تنہا کیا بلکہ عالمی فورمز پر خود ریاست پاکستان کو دہشت گرد قرار دیے جانے کی بات کی جانے لگی۔
کیا اس امر کا اعتراف کیا جائے گا کہ ’’جہاد‘‘ کی راہ ہموار کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کے ماحول میں ایک خاص طرح کی فضا تیار کی گئی اور نصابات کی تشکیل میں اس عنصر پر بطور خاص توجہ دی گئی کہ اُن میں ’’جہاد‘‘ کے حق میں زیادہ سے زیادہ مواد شامل کیا جائے اور ’’جہاد‘‘ کے لیے بنائے گئے ڈسکورس کے لیے ذہن سازی کی جائے۔
میرا خیال ہے کہ اب جبکہ ہم سرکاری سطح پر متبادل بیانیے کی بات کر رہے ہیں اور مروجہ بیانیے سے گریز کرتے ہوئے اُسے غلط قرار دے رہے ہیں تو اس سے جڑے مذکورہ اعترافات کیے جانا بھی ضروری ہیں اور اُس کے لیے افراد، گروہوں، جماعتوں اور اداروں کی ذہن سازی کرنا ہو گی اور اس کے لیے اس جذباتیت سے بہرحال باہر آنا ہوگا، جس کے حصار میں ہم اب تک رہے۔ نیز اُس کے لیے ذہن سازی کا عمل اُس وسیع سطح پر کرنا ہوگا جو مروجہ بیانیے کے لیے اختیار کی گئی۔
تعلیمی اداروں کے ماحول اور نصابات میں یہ امر قابلِ غور ہے کہ آج بھی طالب علموں کے ساتھ حساس معاملات پر گفتگو کر کے اُن کی جہاد ی ذہنیت بنائی جاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ طالب علموں اور نوجوانوں کو جہاد ہی پر تیار کرنا منظور ہو لیکن اب قومی سطح پر ہماری ذہن سازی کچھ ایسی ہو چکی ہے کہ ہم مخصوص موضوعات ہی پر بات کرنے کو تربیت ، اخلاق اور تعلیم کا حصہ سمجھتے ہیں۔ مثلاً میرا نہیں خیال کہ ہم آج بھی طالب علموں اور نوجوانوں کی خوابیدہ صلاحیتیں جگانے کے لیے انھیں فتوحات کی تاریخیں بتائیں یا فاتحین کے عسکری کارناموں ہی پر توجہ دیں۔ اسلامی تاریخ میں سائنس کے ارتقا، فلسفے کے موضوعات، شعر و ادب پر بھی بات کی جا سکتی ہے۔ نیز اُن سائنس دانوں اور مفکرین کے بارے میں آگاہی دے سکتے ہیں جو تاریخ میں ابتدا ہی سے متبادل بیانیے پر بات کرتے رہے ہیں مگر وہ ہمیشہ اپنی معاصر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ’’مردودِ حرم‘‘ قرار پائے۔
سب سے اہم بات کہ نئی نسل کے ذہنوں میں جو محض عسکری اداروں کے ہیرو پن کا تصورہے، اُسے بدلنا ہو گا۔ انھیں تاریخ کی عسکری فتوحات کے بجائے علمی اور سائنسی فتوحات کی تاریخ سے بھی آگاہ کرنا ہوگا۔ انھیں سماج کے حقیقی مسائل سے آگاہی دینی ہو گی۔ قوم کو اُن نفسیاتی امراض سے نکالنا ہو گا جس کے باعث ہم بہت حساس اور جذباتی ہوجاتے ہیں۔ اس کے بغیر نہ تو متبادل بیانیہ تشکیل پاسکتا ہے نہ اُس کا فروغ ممکن ہے اور نہ ہی مروج بیانیے سے گریز اختیار کیا جا سکتا ہے۔