پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے سوچے ہوئے نقوش سے ہٹ گیا ہے۔ یہ بات کسی اور نے نہیں بلکہ چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کل کراچی میں ایک نجی یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ان کی اس تقریر کے چند اہم نکات میں سے تعلیم و صحت اور ملک میں کیفے کلچر کی دگرگونی ہماری دانست میں ہمیں زیادہ سنجیدہ انداز سے سوچنے کی دعوت دیتے ہیں۔ متذکرہ باتیں اور نکات ملک کی موجودہ انسانی و سماجی ترقی اور ہمارے سروں پر گھناؤنے سایے کی طرح اس وقت درپیش انتہا پسندی کے چیلینجز کے تناظر میں نہایت اہم ہیں۔
حکومتی اداروں کی سطح پر شدید ترین سست روی اور عدم سنجیدگی اہم مسئلہ ہے۔ یوں تو پورے ملک میں بدقسمتی سے کچھ خاص اچھی شبیہیں خال ہی نظر آتی ہیں، پر درالحکومت اسلام آباد کے تعلیمی منظرنامے پر ایک حالیہ رپورٹ مزید پریشان کن منظر نامہ سامنے لاتی ہے۔ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مرتب کردہ اس رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی حدود میں سولہ سال کی عمر تک کی تعلیم کے لئے مذہبی تعلیمی اداروں کی تعداد سرکاری تعلیمی اداروں سے زیادہ ہے۔
اس رپورٹ کی رو اس سے بھی بڑھ کرخوفناک بات یہ ہے کہ پچھلے چار برسوں میں اسلام آباد میں کوئی نیا سرکاری اسکول نہیں کھلا؛ پہلے سے موجود سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار کے متعلق جتنا بھی کم کہا جائے، وہ کسی سوچ کے پیمانے کے مطابق بھی بہت بھیانک تصویر کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اس پر مستزاد انہیں اسکولوں میں داخلے کا حصول بہت ہی دشوار ہے۔
والدین کو اپنے بچوں کو موجودہ سرکاری اسکولوں میں داخلے کے لئے در در کی ٹھوکریں اور انہی ارباب اختیار کی خواہ مخواہ کی منتیں کرنا پڑتی ہیں جن ارباب اختیار کی اپنی سستی اور عدم سنجیدگی سے یہ ساری گھمبیرتا والدین کو آج درپیش ہے۔ اس برس ہا برس کے مسئلے کے باوجود ذمے داران نئے ادارے کھولنے اور ان کی استعداد کار بڑھانے کی جانب کچھ قابل ذکر کام سرانجام دینا اپنے قیمتی وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔
لیکن تعلقات عامہ کی ضروری مشق کے لئے اخبارات میں پر سال چھ مہینے بعد خبر ٹھونس دی جاتی ہے کہ اتنے نئے اداروں کے PC-1 منظور ہوگئے ہیں۔ اسی طرح کا حال درالحکومت کے سرکاری اسپتالوں میں لگی مریضوں کی طویل قطاروں سے عیاں ہے۔ درالحکومت کی مثال سے صحت و تعلیم کی فراہمی کے بنیادی فلاحی حکومتی فرض سے پہلو تہی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
جناب چیئرمین سینٹ نے کراچی کی یونیورسٹی میں اپنی تقریر میں جس دوسرے اہم سماجی، معاشرتی اور سیاسی اہمیت کے نکتے کے متعلق بات کی وہ ملک میں کیفے کلچر پر قدغن کے نتائج وعواقب کے بارے تھی۔ ایسا جنرل ضیاء الحق کے دور میں سوچنے، فکر کرنے، سوال کرنے اور شعر کہنے والوں کو پابند سلاسل اور ان کے فکر و فن پر پہرے لگانے کے وقت سے زیادہ تن دہی سے شروع ہوگیا ہے۔ (ہر چند کہ اس مارشل لاء سے پہلے بھی کچھ فضا ایسی کھلی کم ہی تھی۔)
آج اس آزادئ فکر اور عمل کی فضا کو مکدر کئے رکھنے کے نتائج ہماری اجتماعی زندگی میں سامنے ہیں۔ آج ملکی معاشرت اور حتٰی کہ معتبراور جاہ و حشمت والے ریاستی اداروں کے کچھ ارباب و عمال نے متبرک مذہبی ہستیوں کے تقدس کو ایک ہتھیار کے طور برتنا شروع کردیا ہے۔ ایسا صرف اس لئے ہوا ہے کہ خاص سوچ رکھنے والوں کو کھل کھیلنے کی آزادی میسر رہی ہے اور باقی متبادل آوازوں کی آزادئ تحرہر و تقریر کو دھونس اور دھمکی سے چپ کرانے کی جاری و ساری روش سے ہوا ہے۔ سرکردہ حکومتی وزیروں کی جانب سے ایسے افراد و جتھوں سے بلیک میل ہوتے جانے اور ان کی غلط انداز میں خوشنودی حاصل کرنے کے رویوں سے انہیں تقویت ملی ہے۔
آخر میں ہم عرض کریں گے کہ چیئرمین سینیٹ جناب رضا ربانی نے چند اہم نکات پیش بحث و عمل کئے ہیں۔ ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں اور مقتدر اداروں کو چاہئے کہ قرارداد مقاصد میں درج اپنے فلاحی ریاست ہونے کی حیثیت کے فرائض کی بجا آوری کو بھی سنجیدہ لیں اور افراد وطن کی جائز آزادیوں کے حصول و ترویج کو یقینی بنائیں۔ انگریزی محاورے کے مصداق گیلریوں کے سامنے، اور اجتماعات میں سستی اور عامیانہ توقعات کے آگے سرنگوں کرتے جانا حکومتوں اور ریاستوں کو نا تو زیب دیتا ہے اور نا ہی اس طرح متوازن اور روادار معاشرے تعمیر ہو سکتے ہیں۔