آگ لگنے کی صورت میں حفاظتی تدابیر
(عشرت جاوید)
آگ لگنے کے واقعات پوری دنیا میں ہوتے رہتے ہیں ۔آگ میں جل کر مرنے کا صرف تصور ہی انتہائی ہولناک ہے لیکن جس پر یہ گزرتی ہے اس کا کیا حال ہوتا ہوگا اور پھر اس کے پیاروں پر کیا گزرتی ہوگی۔ پاکستان میں آئے روز آگ لگنے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے قیمتی جانوں کے ساتھ املاک کا بھی بہت نقصان ہوتا ہے۔کچھ دن قبل کراچی کے ہوٹل میں آگ لگنے سے کئی لوگ اپنی جان سے گئے۔ اسی طرح کراچی کے ہی ایک کپڑے بنانے والے کارخانے، لاہور میں ایل ڈے اے پلازا، ایک نجی کاروباری ادارے کے دفتر اور ملک کے کئی شہروں میں آتش زدگی سے انسانی جانوں کے ضیائع اور مالی نقصان کی خبریں گردش کرتی ہیں۔ گڈانی میں جہاز توڑنے کے مقام پر تین مرتبہ آگ لگنے سے کئی انسان لقمہ اجل بنے لیکن ان سب ہولناک واقعات کے باوجود کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے تاکہ مستقبل میں ان کا سد باب ہوسکے۔ کیا زندہ انسان آگ میں جھلس کراپنی جانیں دیتے رہیں گے۔ کیا ارباب اختیار اسے کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔
1998 میں سویڈن کے دوسرے بڑے شہر گوتھن برگ میں آتش زدگی کا ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس میں 63 افراد جاں بحق ہوئے۔حکومت نے مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لئے منصوبہ بندی اور اہم اقدامات کئے جس کے نتیجہ میں اب تک ویسا کوئی اور واقعہ رونما نہیں ہوا۔ لندن میں 1666میں آگ لگنے سے ہونے والے نقصانات کے بعد آگ بجھانے والی گاڑیاں تیار کی گئیں۔ تمام مغربی ممالک میں ملکی سطح پر ایک اتھارٹی قائم ہے جو بلدیاتی سطح پر آگ بجھانے کے ادروں کی رہنمائی کرتی ہے۔ زندہ اقوام اس طرح کے اقدامات کرتی ہیں۔سویڈن میں وزارت دفاع کے ماتحت ملکی سطح پر ایک اتھارٹی قائم ہے جو ملک بھر میں قائم آگ بجھانے کے ادروں کی سرپرستی اور رہنمائی کرتی ہے۔ ملک کے تمام تعلیمی اداروں، دفاتر، کارخانوں، نجی اداروں ، ہوٹلوں غرض تمام اداروں کے اہل کاروں کو آگ لگنے سے بچاؤ اور آتش زدگی کی صورت میں آگ بجھانے کی معلومات اور تربیت دی جاتی ہے۔
یہ تربیت تدریسی اور عملی نوعیت کی ہوتی ہے اور تین گھنٹوں کی لازمی تربیت ہر چارسال بعد دوبارہ لینا ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہر ادارے میں ملازمین میں سے ایک شخص آگ سے بچاؤ اور اس سے متعلقہ امور کا ذمہ دار ہوتا ہے۔تمام دفاتر، ہوٹلوں ، تعلیمی اور دیگر اداروں میں گاہے بگاہے آگ لگنے کی صورت میں ہنگامی صورت حال اور بچاؤ کی مشقیں دہرائی جاتی ہیں۔ یہ مشقیں نرسری سکول کے بچوں کو بھی کروائی جاتی ہیں۔ سویڈن میں کوئی گھر یا دفتر ایسا نہیں جہاں فائر آلارم نہ نصب ہو۔ حکومت، نجی شعبہ اور عوام سب مل کر حفاظت اورآگہی مہم کا حصہ ہیں اور یہی صورت پاکستان میں بھی ہونی چاہیے تاکہ انسانی جانیں آگ میں نہ جلیں۔
ماہرین آگ کو پانچ اقسام میں تقسیم کرتے ہیں ۔پہلی آگ کی قسم وہ ہوتی ہے جس کا سبب کچھ ٹھوس چیزیں ہوتی ہیں مثلاً پلاسٹک،کاغذ، لکڑی وغیرہ ۔ دوسری آگ کی قسم میں مائعات آتے ہیں مثال کے طور پر پٹرول،مٹی کا تیل وغیرہ۔تیسری قسم اس آگ کی ہوتی ہے جو مختلف گیسوں کے نتیجے میں بھڑکتی ہے۔ چوتھی قسم کی لگنے والی آگ میں دھاتیں شامل ہوتی ہیں جیسے ایلومینیم اور مینیشیم وغیرہ۔ پانچویں اور آخری آگ کی قسم وہ ہے جو بجلی کے مختلف آلات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اب عوامی خیال یہ ہے کہ ہر آگ پر پانی پھینکو تو بجھ جائے گی اور یہی غلطی مزید نقصانات کا باعث بن جاتی ہے۔ درحقیقت آگ کی اقسام کے لحاظ سے ہی آگ کو بجھانا ضروری ہوتا ہے۔
آگ کیسے لگتی ہے؟
آگ لگنے کے لیے ایندھن (کوئی بھی آتش گیر مواد، ٹھوس، مائع یا گیس) آکسیجن اور ایندھن کا درجہ حرارت بڑھ جانا یہ تین عوامل ضروری ہوتے ہیں۔آگ کو ختم کرنے کے لیے تین میں سے کوئی ایک چیز ختم کردیں آگ ختم ہوجائے گی۔
آگ کیسے بجھائی جائے؟
پہلے تو دھیان سے آگ کا جائزہ لیجئے، آگ کو پھیلنے کے لئے ایندھن چاہئے، اگر آپ قریب سے جلنے والی چیزیں ہٹادیں تو آگ خود بخود تھوڑی دیر بعد ختم ہوجائے گی۔ اسی طرح آگ پر کوئی فوم یا مٹی وغیرہ ڈال کر اس تک آکسیجن پہنچنے سے روک دی جائے تو بھی آگ فوراً بجھ جاتی ہے۔جلنے والی چیز کے کوئلے کو پانی میں بھگو کر ٹھنڈا کردیں تاکہ وہ دوبارہ نہ جل سکے۔
آگ کیسے پھیلتی ہے؟
اس بات کا علم اور تجربہ ہونا ضروری ہے کون سی چیز کتنی جلتی ہے۔عام طور پر لکڑی اور کوئلہ زیادہ جلتے ہیں۔ اس کے بعد قالین اور پھر چادریں وغیرہ۔لٹکی ہوئی چیزیں مثلاً پردے وغیرہ جلدی آگ پکڑتے ہیں۔اگر چھت پر آگ لگے تو پہلے سائیڈ پر جاتی ہے اور اگر چھت لکڑی کی ہے تو انگارے جل کر گرنے سے آگ نیچے آتی ہے۔
اگر فرش پر آگ لگے تو پہلے اوپر چڑھتی ہے پھر کھلی کھڑکیوں یا دروازوں کی طرف آتی ہے کیونکہ وہاں سے آکسیجن ملتی ہے۔ایک عمارت سے دوسری عمارت تک آگ لکڑی کے شیڈز وغیرہ یا کھلے دروازوں کی وجہ سے جاتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آگ لگ جائے تو کیا کرنا چاہیے؟گھبرائیں نہیں حوصلے سے کام لیں۔ اگر آپ پریشان نہ ہوں تو آپ بچ بھی جائیں گے اور دیگر لوگوں کو بچانے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے۔ عام طور پر حادثے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا بھگدڑ سے ہوتا ہے۔ اگر آپ کو آگ لگنے کی اطلاع دینی ہے توجتنی جلدی ممکن ہو ریسکیو1122 ڈائل کریں۔ آتش زدگی کو ہنگامی صورتحال سمجھا جاتا ہے اور اس کی اطلاع فوری طور پر دی جانی چاہیے۔ریسکیو1122کا آپریٹر آپ سے کچھ بنیادی سوالات پوچھے گا جیسے:آگ کہاں لگی ہے؟،آگ کب شروع ہوئی؟،ابھی کیا ہو رہا ہے؟،کیا اندر کوئی شخص پھنسا ہوا ہے؟،کیا اندر کوئی پالتو جانور پھنسا ہوا ہے؟
جب آپ کال کریں:
پرسکون رہیں اور صاف صاف بولیں۔جو کچھ ہو رہا ہے وہ بیان کریں۔حتمی جائے وقوع بتائیں (جیسے، 263 مین اسٹریٹ،اپارٹمنٹ 216 )۔فون اس وقت تک نہ رکھیں جب تک آپ سے اسے رکھنے کو نہ کہا جائے۔اگر آپ کو ترجمان یا مترجم کی ضرورت ہے تو، اس سے بات کروانے کو کہیں۔آتشزدگی کو روکنے کے لئے یہ یقینی بنائیں کہ آپ کے گھر میں اسموک الارمز(دھوئیں سے متنبہ کرنے والے الارم) چالو حالت میں موجود ہیں اور آپ کو اپنے گھر میں نکاسی کے سارے قریبی راستے معلوم ہیں۔ اس سے آپ آتش زدگی کی صورت میں حتی الامکان جلد سے جلد اپنے گھر سے باہر نکل پائیں گے۔ آپ کو ایک فائر ایکسٹنگوشر (آگ بجھانے والا آلہ) بھی ضرور رکھنا چاہیے (اسے رکھنے کے لئے باورچی خانہ اچھی جگہ ہے) تاکہ آگ کو کافی زیادہ پھیلنے سے پہلے ہی بجھایا جا سکے۔آگ کسی صورت لگنے نہ پائے اگر آگ لگ جائے توپھیلنے نہ پائے اگر خدانخواستہ آگ پھیل جائے تو نقصان کم از کم ہو۔
)جب آگ لگ جائے تو قیمتی سامان جمع کرنے میں وقت ضائع نہ کریں۔ آگ بہت تیزی سے پھیل کر دو منٹ کے اندر جان لیواثابت ہوسکتی ہے، اور پانچ منٹ کے کم عرصے میں کسی رہائش کو گھیر سکتی ہے۔ شعلے خطرناک تو ہوتے ہی ہیں، لیکن گرمی اور دھوئیں اس سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں جو آپ کے پھیپھڑوں کو جھلساسکتی ہے۔ جیسے آگ جلتی رہتی ہے، زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں جن کی وجہ سے آپ پر غنودگی طاری ہوسکتی ہے یا آپ سمت کا احساس کھو سکتے ہیں، اور آپ کو گہری نیند سلاسکتے ہیں۔ آگ کی وجہ سے ہونے والی اموات کی سب سے بڑی وجہ دم گھٹنا ہے، جس کی اموات کی شرح جل مرنے کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ اپنی حفاظت کے لئے آگ کے متعلق سیکھنا بہت ضروری ہے۔آگ لگنے کی صورت میں اپنی چیزوں اور مال و اسباب کے لیے نہ رکیں۔زیادہ تر لوگ اکثر اپنا فون اور کوئی دوسری اہم چیز لینے کے لیے واپس چلے جاتے ہیں اور آگ کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ سب سے پہلے عوامی سطح پر یہ شعور ہونا بہت ضروری ہے کہ کسی بھی نئی جگہ جائیں تو وہاں پر ایمرجنسی کی صورت میں باہر نکلنے کے راستوں سے آگہی حاصل کریں۔بالخصوص بچوں کے ہمراہ لوگوں کو ہنگامی صورتحال میں نکلنے میں مشکل ہوتی ہے۔کمرے کی کھڑکیاں کھول دینے سے آکسیجن کی فراہمی میں تعطل نہیں آتا۔
حواس قابو میں رکھیں:
آگ لگنے کی صورت میں آپ کسی عمارت کی اوپری منزلوں میں محصور ہوجائیں تو سب سے پہلے اپنے حواس قابو میں رکھیں۔اکثر لوگ بدحواس ہو کر یا نیچے کھڑے لوگوں کے کہنے پر نیچے چھلانگ لگا دیتے ہیں جس سے زیادہ نقصان ہو جاتا ہے۔اگر نیچے جانے کے راستے مسدود ہو جائیں تو کوشش کریں کہ عمارت کی چھت کی طرف چلے جائیں۔کھلی جگہ پر جانے سے صاف ہوا میں سانس لینا آسان ہوتا ہے اور عمارت کے آکسیجن کی کمی اور دھوئیں سے متاثر ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ اگر کمرے میں محصور ہو گئے ہیں تو کھڑکی کھول دیں اور اس کے قریب رہیں تاکہ سانس لینا آسان ہو۔کمرے میں دھواں بھر جانے کی صورت میں اس میں شامل زہریلی گیس کاربن مونو آکسائیڈ دماغ کے عمل کو سست کر دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان سوتے سوتے نیم بے ہوشی اور پھر موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایسے میں انسان کو کسی بھی قسم کا ردِ عمل دینے کا موقع ہی نہیں ملتا۔
پھیلاؤ روکنے اور مدد میں آسانی:
معمولی آگ سے گھبرا کر لوگ بھاگ جاتے ہیں اور آگ پھیل جاتی ہے ایسے میں کچھ چھوٹے چھوٹے عمل نقصان میں کمی کر سکتے ہیں۔سب سے پہلے تو لوگ بجلی کی فراہمی کو معطل کریں کیونکہ بجلی کی تاریں جل کر مزید شارٹ سرکٹ اور کرنٹ لگنے کے واقعات کا سبب بنتی ہیں۔ اکثر ریسکیو اہلکار بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اندھیرے کی پرواہ کیے بغیر اسے منقطع کرنا چاہیے۔
کیا جسم کو گیلا کر لینا آگ سے بچاؤ میں فائدہ مند ہے؟:
اگر عمارت میں درجہ حرارت بڑھ رہا ہے تو خود کو گیلا کر لینے اور پانی پیتے رہنے سے جسم میں پانی کی کمی ہونے کے عمل کو سست کیا جا سکتا ہے جو مدد آنے تک مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ آگ اس وقت زیادہ جان لیوا ہوتی ہے جب لوگ سو رہے ہوں کیونکہ آگ نہ بھی پہنچے تو دھوئیں سے اکثر لوگ سوتے سوتے ہی موت کے منہ چلے جاتے ہیں۔دھواں بھرنے کی صورت میں کپڑا گیلا کر کے منہ پر رکھنے سے سانس لینے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔گیلے کپڑے یا تولیے سے ایک تو نمی ملتی رہتی ہے اور دوسرا یہ کپڑا فِلٹر کا کام کرتا ہے اور دھوئیں اور کاربن کے ذرات کو سانس کے ساتھ جسم کے اندر نہیں جانے دیتا۔ دھواں بڑھ جانے کی صورت میں زمین کے زیادہ سے زیادہ قریب رہیں۔دھواں اور گرم گیسیں چونکہ ہوا میں بلند سطح پر رہتی ہیں تو کوشش یہ کرنی چاہیے کہ زمین پر بیٹھے رہیں۔ اور اگر ایک جگہ سے دوسرے جگہ جانا ہے تو بھی یا بیٹھ کر یا رینگ کر جائیں۔ اس طرح زمین کے قریب نسبتاً صاف ہوا میں رہنا ممکن ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں سکیورٹی کے پیشِ نظر اکثر عمارتوں کی کھڑکیوں پر لوہے کہ حفاظتی جنگلے امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ کا باعث بن جاتے ہیں۔ جنہیں کاٹنے میں وقت لگ جاتا ہے۔ اگرچہ ایسا کمرشل عمارتوں میں نہیں ہونا چاہیے لیکن سلامتی کے پیشِ نظر ان کے لگائے جانے کو روکا بھی نہیں جا سکتا۔
دھوئیں میں نیچے لیٹ کررینگیں:
اگر آپ کے کپڑے آگ پکڑلیں تو منہ کے بل زمین پر لیٹ جائیں اور بار بار لوٹ پوٹ ہوں تاوقتیکہ شعلے بجھ جائیں۔اگر آپ زمین پر لیٹنے سے قاصر ہوں تو کسی تولیے یاکپڑے کی مدد سے شعلوں کادم گھونٹ دیں۔ بھاگنے سے شعلے کو مزید آکسیجن ملے گی اور آگ بھڑکے گی۔فوراً فائر الارم جو خطرے کی علامت ہوتا ہے، اْسے بجایا جائے تاکہ اگر کوئی کسی جگہ پر سو رہا ہے تو وہاں دھواں اور آگے پہنچنے سے پہلے وہ جاگ جائے اور اپنی جان بچانے کی کوشش کرسکے۔اگر کمرے میں دھواں بھر جانے کی وجہ سے یا اندھیرا ہوجانے کے باعث نظر نہیں آرہا تو دیوار کے ساتھ لگ جائیں اور ٹٹول کر دروازے یا کھڑکی تک پہنچ جائیں اور کسی کو آواز دیں۔دھواں اور ہوا گرم ہوکر اوپر اٹھتی ہے لہٰذا آپ جتنا فرش کے قریب ہوں گے اتنا ہی دھویں سے محفوظ رہنے میں کامیابی ممکن ہے۔بند دروازے کے ہینڈل کو نہ پکڑیں۔ پہلے ہاتھ کی پشت سے دروازہ چیک کریں۔ اگر گرم ہے تو اس کا مطلب ہے کہ دوسری طرف آگ ہے۔ ہینڈل چونکہ دھات کا بنا ہوتا ہے لہٰذا فوری پکڑنے سے ہاتھ جلنے کا خدشہ ہے۔
آپ ایسی جگہ پھنس گئے ہیں جہاں سے چھلانگ لگانی ضروری ہوجائے تو قدموں پر بیٹھ کر نہ لگائیں بلکہ اپنے ہاتھوں پر باہر لٹک جائیں۔ اس طرح آپ 7 فٹ تک فاصلہ کم کر لیں گے۔ اس طرح کمرے میں موجود رسی، چادر، کمبل کو استعمال کریں۔ ایک سرا کسی پائپ یا بیڈ سے باندھ دیں، دوسرے سے لٹک جائیں۔اگر نچلی منزل پر آگ لگی ہے تو کھڑکیاں دروازے بند کرلیں۔ اس آگ کو آپ تک پہنچنے میں کئی گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔
بڑی عمارتوں سے نکلنے کے لیے لفٹ کی بجائے سیڑھیوں کا استعمال کریں کیونکہ وہ کسی بھی وقت بجلی بند ہونے سے بند ہوسکتی ہے، اور یوں آپ ایک نئی مصیبت میں پھنس جائیں گے۔ اِس لیے سیڑھیوں کے ذریعے اترنے کی کوشش کریں۔ اگر آگ نیچے سے اوپر کی جانب لگی ہے تو نیچے جانے کے بجائے عمارت کی چھت پر جانے کی کوشش کریں وہاں آپ زیادہ دیر تک محفوظ رہ سکیں گے۔