ڈونرز اور این جی اوز اور سٹیک ہولڈرز کی رائے
(ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی)
حکومت اسلام آباد یا پشاور میں بیٹھی ہے اس کی زبان انگریزی ہے۔ ڈونر نیو یار ک، روم یا لندن میں بیٹھا ہے اس کی زبان بھی انگریزی ہے۔ این جی اوز بھی راولپنڈی، مردان یا مینگورہ میں بیٹھے ہیں اُن کی زبان بھی انگریزی ہے۔ استفادہ کرنے والا، ڈی آئی خان، چترال یا دیرمیں بیٹھا ہے وہ سرائیکی، پشتو یا یا کھوار بولتا ہے۔ سکیم استفادہ کرنے والے کے لئے آتی ہے مگر اُس زبان میں آتی ہے جو اس کو نہیں آتی۔ وہ اپنی زبان میں جو کچھ کہتا ہے سکیم لانے والا اُس زبان کو نہیں سمجھ۔سمجھتا۔ درمیان میں واسطہ بننے والے ذہین اور ہو شیار لوگ کہتے ہیں کہ مہمان کے سامنے ایسی باتیں مت کرو جن سے اُس کے ناراض ہونے کا اجتمال یا خدشہ ہو۔ اس لئے سٹیک ہولڈ ر کی رائے کبھی سامنے نہیں آتی۔
آج میں دو سٹیک ہولڈرز کی باتیں ریکارڈ پر لاتا ہوں یہ وہ باتیں ہیں جو فیشن میں نہیں ہیں میڈیا میں نہیں آتیں۔ انگریزوں کے زمانے میں خیر خیریت کو ”سب اچھا“ کہا جاتا تھا۔ ماتحت ملازم اپنے افسر کو ”سب اچھا“ کہہ کر خیر خیریت کی رپورٹ دیتا تھا۔ آج کل حکومت کو،ڈونرز کو اوراین جی اوز کو ”سب اچھا“کہہ کر خو ش کیا جاتا ہے۔ رورل اکیڈیمی کے جا وید صاحب ڈونر کے لئے ”گوراماموں“ کی ترکیب استعمال کرتے تھے انہوں نے مشرف کے دور میں ناظمین کے لئے ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ ابتدائی تقریروں میں ورکشاپ کے اغراض و مقاصد بیان کئے گئے اس کے بعد سہولت کار نے شرکاء کو دعوت دی کہ اپنی توقعات بیان کریں ناظمیں میں جو وکیل اور تجربہ کار لو گ تھے انہوں نے کہا کہ منصوبہ بندی کی سمجھ آئیگی۔ پھر پیسہ آئیگا پھر ترقی ہوگی عوام کو گھر کی دہلیز پر سب کچھ مل جائے گا اس ورکشا پ سے یہ ہماری تو قعات ہیں مگر افغان سرحد کے ساتھ ملحق علاقہ اراندو کے ناظم شیر محمد خان نے کہا ”ورکشاپ کے دوران مفت کھانا ملے گا رہائش مفت ہوگی، جاتے وقت کرایہ ملے گا“۔
ایک وکیل نے اُس کو ٹوکتے ہوئے کہا فضول باتیں مت کرو،شیر محمد نے وکیل کو جواب دیا کہ تمہاری توقعات میں سے ایک بھی پوری نہیں ہوگی میری توقعات سب پوری ہونگی آخیر میں پتہ لگ جائے گا کس کی باتیں فضول تھیں اخبارات میں چترال کی ڈیٹ لائن سے ایک تازہ واقعے کی خبریں آگئی ہیں۔ پاکستان غربت مٹاؤ فنڈ (PPAF) نے سٹیک ہولڈ رز کی کانفرنس منعقد کی منتخب ناظمیں اور سول سوسائٹی کے فعال اداروں سے اہم شخصیات کو بلایا کانفرنس کی جو روداد اخبارات میں آئی اُس میں ایک ہی بات تھی ”تومرا ملا بگومن تراحاجی گویم“ایک دوسرے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے گئے ایک اور افغان بارڈر مستوج سے آنے والے نمائندے سعادت جان نے کھوار زبان میں مختصر الفاظ میں تین کھری کھری باتیں کہیں جن کو اخباری نمائندوں نے رپورٹ کر نے کے قابل نہیں جانا۔
سعادت جان کا کہنا تھا کہ عوام کا نفرنسوں،جلسوں،تقریروں اور وعدوں سے مایوس ہو چکے ہیں اب خبروں پر اعتبار نہیں ہوتا وزیر اعظم نے 19جولائی 2015کو سیلا ب کے موقع پر چترال آکر جو اعلانات کئے ان پرکام نہیں ہوا وزیر اعلیٰ نے جو اعلانات کئے وہ منظر عام پر نہیں آئے ڈونرزنے 2015 میں جو وعدے کئے وہ جھوٹے ثابت ہوئے این جی اوز نے تباہ شدہ انفراسٹرکچر کو 3 سال بعد بھی بحال نہیں کیا سب نے جھوٹ بولا سعادت جان نے کہا وزیر اعظم نے سودی قرضوں کو معا ف کر نے کا اعلان کیا مگر سودی قر ضے معا ف نہیں ہوئے پچا س ہزار روپے قرض لینے والے نے 2لاکھ روپے ادا کئے ہیں سود کو اصل زر کے ساتھ ملا کر پونے دو لاکھ بقایا ہیں اب قرض داروں کی گرفتاریا ں شروع ہو گئی ہیں پہلے حکومت پر،ڈونر کمیو نیٹی پر اور این جی اوز پر عوام کا کھو یا ہو ا اعتما د بحا ل کرو پھر ا ٓ کر بیٹھو آگے با ت ہو گئی شیر محمد اورسعادت خان کی با تیں کبھی ا خبا رات کی زینت نہیں بنیں گی کیونکہ ان با توں پر مہمان اور میزبان دونوں نا راض ہو تے ہیں۔
ڈونرز کا کلچر بہت عجیب ہے ڈونر اگر ایک کڑوڑ ڈالر دیتا ہے تو اس میں سے 50لا کھ ڈالر مختلف مدوں میں ڈال کر واپس یورپ لے جا تا ہے۔ 30 لاکھ ڈالر ورکشا پوں اور کانفرنسوں میں اُ ڑاتا ہے 15 لاکھ ڈالر مڈل مین کو رشوت دیتا ہے 5 لاکھ ڈالر عوام کے لئے رکھتا ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے چنا نچہ ڈونر پراجیکٹ ختم ہونے کے بعد علاقے میں کچھ بھی نظر نہیں آتا کوئی کا م دکھائی نہیں دیتا ”غربت مٹاؤ فنڈ“ آتا جاتا ہے غر بت کم نہیں ہوتی پراجیکٹ کے ڈیزائن میں غربت کا ذکر نہیں ہوتا غریب کے مسائل اور غریب کی ضروریات کا نام نہیں لیا جاتا ڈونر کو مہمان قرار دیکر خوش کر کے واپس بھیجا جاتا ہے اوپر سے نیچے تک ”سب اچھا“رپورٹ بھیجی جاتی ہے ڈونر کی زبان انگریزی ہے غریب کو انگریزی نہیں آتی ڈونر کو رپورٹ کی ضرورت ہے غریب کو کام کی حاجت ہے۔
رپورٹ تیارہوتی ہے کام کے بارے میں کوئی نہیں پوچھتا یہ ڈونر کلچر ہے۔ اس میں سٹیک ہولڈرز کی رائے نہیں لی جاتی۔ اس کو آنے جانے کا کرایہ دیا جاتا ہے دو وقت کا کھانا ملتا ہے اور یہ اُس کیلئے اعزاز سے کم نہیں غالب نے100 باتوں کی ایک بات اس شعر میں کہی ہے۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہو تا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
بشکریہ: شندور ٹائمز