بھٹو کی پھانسی سے پہلے کا سیاسی منظر نامہ

بھٹو کی پھانسی سے پہلے

بھٹو کی پھانسی سے پہلے کا سیاسی منظر نامہ:
نعیم بیگ کے زیرتصنیف اردو ناول سے ایک اقتباس

(نعیم بیگ)

یہ کوئی سنہ ستتر کے اوائل کا زمانہ تھا۔ فروری میں ہم یونیورسٹی سے فارغ ہو گئے تھے۔ اپریل کے وسط میں کہیں امتحان تھے۔ ملاقاتیں خودبخود کم ہوتی گئیں۔ باہر الیکشن کا زمانہ تھا۔ سات مارچ کو الیکشن کا سارا زور یک طرفہ ہی تھا۔ بائیں بازو کی سرگرمیاں عروج پر تھیں جبکہ دائیں بازوکی طرف کچھ ہلہ گلہ تو تھا لیکن فضا میں کچھ سازشی سی بدبو رچ بس رہی تھی۔ سن رہے تھے کہ اس بار الیکشن میں خوب دھاندلی ہوگی۔ جبکہ ہمارے سنجیدہ دوستوں اور اساتذہ کا خیال تھا کہ جس طرح بھٹو نے اچھی کارکردگی دکھائی ہے، اسے کسی قسم کی الیکشن میں مداخلت ہی نہیں کرنی چاہیے۔ وہ بِنا دھاندلی اچھے مارجن سے جیت سکتا ہے۔
بھٹو کی حکومتی سرگرمیوں میں منقسم پاکستان کا انتظام و انصرام سنبھالنا ، فوج کے گرے ہوئے مورال اور یحییٰ خان کو نوجوان فوجی افسروں کی سٹاف کالج میں پڑنے والی جوتیوں کے بعد فوج کے اندر گل حسن خان اور ٹکا خان جیسے پروفیشنل چیف آف آرمی سٹاف کا فوج کے مورال کو دوبارہ بحال کرنا، نوے ہزار سے زائد جنگی قیدیوں کا ہندوستان سے واپس لانا، پانچ ہزار مربع کلومیڑ پر مشتمل اپنے علاقے ہندوستان سے واپس لینا ، نیو کلیر ری پروسسنگ پلانٹ کا فرانس سے معاہدہ ، تہتر کے متفقہ آئین کی جمہوری کامیابی اور اسکا نفاذ، بنگلہ دیش کے قیام کو قانونی طور پر قبول کرنا ، سماجی سطح پر عوامی رائے کا احترام ، آرٹ و کلچر کی بحالی، علم و دانش کے کئی ایک اداروں کا قیام، یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں کا جمہوری عمل ، معاشی سطح پر بینکوں اور انڈسٹریوں کا قومیایا جانا ، بہرحال ملکی سطح پر بڑے کارنامے سمجھے جا رہے تھے ۔ ایسے میں ہمارے اساتذہ کا خیال تھا کہ بھٹو غیر ملکی بالخصوص امریکی مداخلت کے باوجود الیکشن نہیں ہار پائیں گے۔ ہم دوستوں میں خوب بحث ہوتی کہ الیکشن ہارنے کے اسباب کیا ہو سکتے ہیں ۔ حمزہ اور فاخرہ اور میڈم جہاں آرا کا خیال تھا کہ امریکی مداخلت سب سے بڑا سبب ہوگا ۔
’’ بھلا امریکہ کیوں مداخلت کرے گا۔ اسے کیا پڑی ہے؟ وہ ہمارا دوست ہے ۔ اس نے مغربی پاکستان ہندوستان کو دھمکی دے کر بچایا ہے۔‘‘ میں انہیں بتاتا ، تو میڈم مسکرا اٹھتیں۔
اس وقت اڑتی اڑتی عالمی اخباروں میں یہ خبر آئی تھی کہ فوجوں کے ڈھاکہ میں سرنڈر کر دینے بعد امریکا نے بھارت سے مغربی پاکستان پر حملوں کا جواز پوچھا تھا؟، جس پر خاموشی کے ساتھ جنگ کا ماحول بدل گیا اور جنگ بندی ہوگئی۔ میڈم جہاں آرا کا خیال تھا کہ امریکہ پاکستان کو اپنی کالونی سمجھتا ہے وہ چاہتا ہے کہ اب بچا کچھا پاکستان امریکی عالمی ایجنڈوں کے لئے بچا کر رکھا جائے ۔۔۔ بعد میں افغانستان میں روسی فوجوں کے اترنے اور پاکستان کی پالیسیوں نے یہ بات کنفرم کردی کہ میڈم درست کہتی تھیں ۔
’’تم دیکھو گے علی۔۔۔ امریکہ کو کسی قیمت پر پاکستان کا نیوکلیئر طاقت بننا منظور نہیں۔ فرانس سے ایٹمی ریپروسسنگ پلانٹ بھٹو کی موت کا سبب ہوگا۔ ‘‘ یہ بات انہوں نے کئی ایک بار ہمیں کہی لیکن کم از کم مجھے سمجھ نہیں آئی۔
جب وہ ایسا کہتیں تو ہم سمجھتے تھے کہ یہاں بھٹو کی موت سے مراد انکی حکومت کا ختم ہونا ہی انکے نزدیک علامتی موت ہے ۔۔۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میڈم جہاں آرا کے منہ سے نکلے الفاظ ایک دن سچ مچ انکی حقیقی ہولناک موت کا پیغام لائیں گے۔
خیر ہم نے اخباری خبروں سے ہی اندازہ لگایا کہ پشین کی سیٹ سے یحییٰ بختیار بلا مقابل منتخب ہو گئے ہیں۔ اسی طرح کچھ اور لوگوں کی بلا مقابلہ منتخب ہونے کی اطلاعات آ رہی تھیں ۔ بھٹو کے خود اپنے حلقے لاڑکانہ میں ان کے خلاف جماعت اسلامی کے مولانا عباسی کی گرفتاری کی خبریں اور بھٹو کا بلا مقابلہ انتخاب پیپلز پارٹی کا فخر بن رہا تھا اور ہمارے جیسوں کے لئے باعث شرم بن رہا تھا۔ الیکشن کے دنوں میں تو ہم اکثر یونیورسٹی میں بیٹھے رہتے ۔ اکثر رات کو دیر ہو جانے کی صورت میں میَں نے اماں سے کہہ رکھا تھا کہ اگر دیر ہوجائے تو سمجھ لینا کہ میں ہوسٹل میں ہی ہوں ۔ ستر کے الیکشن میں اگرچہ ووٹ جماعتی بنیادوں پر ہی ڈالا گیا تھا لیکن بھٹو کی شخصیت ووٹ کاسٹ کرنے کا محور تھا جس میں کئی ایک انجان اور غیر معروف لوگ بھی اسمبلیوں میں منتخب ہو گئے تھے اور اسکی وجہ یقینی طور پر یہ تھی کہ بھٹو خودجماعتی سیاسی فیصلے کرتے تھے اور نچلے درجے تک کی سیاست میں اپنا کردار شامل رکھتے تھے ، اسی طرح مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان اپنی شخصیت کی بنیاد پر الیکشن جیتے تھے۔
تاہم اس کے برعکس ستتر کے انتخاب میں بھٹو کی ذاتی مصروفیات چونکہ حکومتی کاموں کی طرف زیادہ تھیں ۔ وزیراعظم ہاؤس میں الیکشن سیل کے انچارج رفیع رضا اپنی ابتدائی رپورٹ میں ہی انہیں ایک بڑی اکثریت سے جیت کی نوید دے چکے تھے سو رفیع نے اپنے تھیسز کو سچ ثابت کرنے کے لئے اپنا حکومتی اور سول سٹریکچر استعمال کیا ۔ میڈم کا خیال تھا کہ ایسا بھٹو کی ہدایات پر نہیں ہوا ہوگا بلکہ’ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں‘ کی پالیسی کی بِنا پر ایسا ہوا ہو۔ میڈم کا یہ بھی خیال تھا رفیع رضا جنہوں نے بعد میں ایک بھٹو کی رجیم پر ایک کتاب بھی لکھی تھی ، امریکنز کی ہدایت پر ایسا کیا ہو، جس کی بازگشت الیکشن کے بعد سنی گئی۔
پی این اے کے پلیٹ فارم سے بھٹو کے خلاف مہم میں اسکے سیاسی اور حکومتی فیصلوں سے کہیں زیادہ تنقید انکے ذاتی مذہبی عقائد ، انکی سوشلسٹ سوچ ،انکے قومیائے گئے اداروں میں بیوروکریسی کا ناجائز عمل دخل اور انکے ذاتی اوصاف، جس میں انکی شراب نوشی سے رغبت کو سرعت سے پھیلایا گیا ۔ جس پر بھٹو نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’ ہاں میں شراب پیتا ہوں ، غریبوں کا خون نہیں پیتا ‘۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ بعد از الیکشن اپنے ایجنڈے کو پی این اے نے الیکشن کے دوران ہی افشاٗ کر دیا تھا ،اوروہ تھا ’ سرکاری سطح پر دھاندلی‘ ۔ پی این اے نے الیکشن سے پہلے تواتر سے عوامی سطح پر اس بیانیہ کو دھرایا جس سے یہ باور ہونے لگا کہ واقعی سرکاری سطح پر دھاندلی ہونے جا رہی ہے ۔ اس پر غضب یہ ہوا کہ وزیراعظم ہاوس میں الیکشن سیل کا قیام ہوگیا جس کی سربراہی رفیع رضا جیسے ناعاقبت اندیش سول سرونٹ کی سپرد کر دی گئی ۔ دوسرے لفظوں میں بھٹو کو ’’ عبرت کا نشان‘‘ بنا دینے کی امریکی وزیر کسنجر کی دھمکی کا آغاز الیکشن سے پہلے رفیع رضا کے الیکشن سیل بنا دینے سے ہی شروع ہو گئی تھی۔
’’ہم اکثر کہتے ہیں کہ سب کچھ سکرپٹ کے مطابق ہو رہا ہے۔ یہاں واقعی ایسا ہو رہا ہے۔‘‘ جس دن میرے سوال پر میڈم نے یہ کہا تو مجھ سے رہا نہیں گیا۔
’’تو کیا آپ اسے بین الاقوامی سازش سمجھتی ہیں ؟‘‘
’’ جی علی ۔۔۔ ایسا ہی ہے۔ ہمیں معلوم نہیں لیکن آگے چل کر کیا ہوگا؟ لیکن اس کے لئے حالات ابھی سے سازگار کئے جا رہے ہیں ۔‘‘
میڈم نے سادہ سا جواب دیکر ہمیں بظاہر مطمئن تو کردیا لیکن وہ خود بہت پریشان تھیں۔ الیکشن ہوا، اور وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ بھٹو کے خلاف پی این اے نے ایسی بھرپور تحریک چلائی کہ حفیظ الایمان ۔۔۔بھٹو نے اپنی حکومت بچانے کی بھرپور کوشش کی لیکن ایسا ہو نہ سکا اوربالآخر جس دن پی این اے سے مذاکرات کی میز پر سب کچھ طے ہوگیا، اسی رات کو جنرل ضیا الحق نے مارشل لاٗ لگا دیا۔
امریکن ایمبسی سے رات گئے ایک ٹیلی فیکس امریکہ جاتا ہے’ ’ پارٹی از اوور ‘‘ جوبظاہر انکے ہاں چار جولائی کی یومِ امریکہ کی پارٹی کے ختم ہونے کی نوید تھی، درحقیقت پیپلز پارٹی کے چلے جانے کی خوشخبری تھی جوسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو دی گئی تھی۔
مارشل لاٗ کے بعد جو کچھ ہوا وہ حقیقت میں ایک ایسی داستان ہے جس پر بیسیوں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ۔ فاخرہ، حمزہ اور میں تینوں اکثر میڈم کے گھر پر ملاقات کرتے۔ یونیورسٹی بند ہوجانے کے باوجود انہیں ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کا سٹاف ، اسٹوڈنٹس اور صحافی اطلاعات بہم پہنچاتے رہتے۔ مارشل لاٗ کے پہلے تین ماہ جنرل ضیاالحق کو سیٹل ہونے میں لگے جونہی انہوں نے الیکشن کرانے کے اپنے پہلے اعلان سے انحراف کیا، انہوں نے مارشل لاٗ میں کس کر چابی بھر دی۔ کوڑے ، جیلیں ، سزائیں اور سنسر شپ انتہا کو پہنچ گئیں۔ سب سے زیادہ صحافی برادری ، علم و دانش سے وابستہ لوگ متاثر ہوئے۔ ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں فوجیوں نے بیٹھنا شروع کر دیا۔ سمری ملٹری کورٹس جہاں چاہتی اپنی عدالت لگاتیں اور سزائیں سنا دیتیں ۔
شب و روز تیزی سے گزر رہے تھے ۔ ہم امتحان دے چکے تھے لیکن رزلٹ ابھی دور تھا، اسی اثنا میں میَں ایک اخبار جائن کر چکا تھا ۔ فاخرہ اور حمزہ ایک دوسرے میں دلچسپی لیتے تھے، سو دونوں نے مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کو ترجیح دی جس کی وہ مل کر تیاری کرتے تھے۔ مجھے ان کی دلچسپیاں معلوم تھیں لیکن بات اس حد تک چلی جائے گی مجھے اندازہ نہ تھا۔ دونوں نے ایک رات میڈم کے ہاں گھر والوں سے ناراض ہو کر شادی کر لی۔ شادی کرنے کی وجہ مجھے بعد میں معلوم ہوئی کہ فاخرہ کی والدہ اسکی فوری شادی کرنا چاہتی تھیں۔ یہ اتفاق تھا کہ دونوں کے خاندان روائتوں اور سماجی غیرتوں سے جڑے گھرانے تھے، اس لئے شادی خفیہ رکھی گئی ، جسے مناسب موقع پر ظاہر کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے میڈم کے گھر پر شادی کی خبر کسی طرح نکل گئی۔ نتیجہ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ دونوں خاندانوں نے اپنے اپنے تعیٗں خوب شور و غل مچایا، چونکہ دونوں خاندان اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے ، لہذا انہوں نے آپس میں مل کر میڈم کو یہ سزا دی کہ انہیں حکومتی پالیسیوں کے انحراف کے الزام میں یونیورسٹی سے فارغ کرا دیا گیا۔
میڈم کی برطرفی پر میں نے اپنے اخبار میں ایک سٹوری لگا دی جس میں اس ناانصافی پر حکومتی افسروں کو خوب لتاڑا۔ جس پر اگلے دن مجھے مارشل لاٗ ہیڈ کوارٹر طلب کر لیا گیا۔ مجھ پر الزام تھا کہ میں نے نفرت انگیز مواد شائع کیا ہے جو مارشل لاٗ کی پریس پالیسی سے انحراف ہے۔ میں دن بھر مارشل لاٗ ہیڈ کوارٹر کے برآمدے میں ایک کرنل صاحب کی نیم پلیٹ کے نیچے بنچ پر بیٹھا اندر بلاوے کا انتظار کرتا رہا۔ دوپہر کو خبر ملنے پر فاخرہ اور حمزہ مجھے ملنے آئے۔ دونوں میرے ساتھ ہی بنچ پر بیٹھ گئے۔’’ علی۔۔۔ اب کیا ہوگا؟ ‘‘ فاخرہ کا چہرہ اڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

About نعیم بیگ 146 Articles
ممتاز افسانہ نگار، ناول نگار اور دانش ور، نعیم بیگ، مارچ ۱۹۵۲ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ گُوجراں والا اور لاہور کے کالجوں میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد بلوچستان یونی ورسٹی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۷۵ میں بینکاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ لاہور سے وائس پریذیڈنٹ اور ڈپٹی جنرل مینیجر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ بعد ازاں انہوں نے ایک طویل عرصہ بیرون ملک گزارا، جہاں بینکاری اور انجینئرنگ مینجمنٹ کے شعبوں میں بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے رہے۔ نعیم بیگ کو ہمیشہ ادب سے گہرا لگاؤ رہا اور وہ جزو وقتی لکھاری کے طور پر ہَمہ وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں اردو اور انگریزی میں مضامین لکھتے رہے۔ نعیم بیگ کئی ایک عالمی ادارے بَہ شمول، عالمی رائٹرز گِلڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ممبر ہیں۔