میری آواز سنو

مصنف کا نام
ابو اسامہ، صاحبِ مضمون

میری آواز سنو

از پروفیسر منوج کمار جھا ، دہلی اسکول آف سوشل ورک، دہلی یونیورسٹی ، نیو دہلی
ترجمہ و تلخیص: ابو اسامہ، اسسٹنٹ پروفیسر، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد

ایک استاد (پروفیسر جھا، نئی دہلی ) اور ان کےایک عزیز شاگرد (نور، حیدرآباد ) کے درمیان یہ خطوط کا ایک لمبا سلسلہ ہے جو Transit Talks کے نام سے حال میں ہی کتابی شکل میں بھی آچکا ہے ۔ اس کتاب میں استاد اور شاگر د دونوں افراد عصری ہندوستان کو درپیش چیلنجز اور مسائل پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ بر صغیر بالخصوص ہندوستان کے موجودہ سماجی اور سیاسی پس منظر کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کتاب سے ایک خط قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ (عرض مترجم )

ڈیئر نور

مہاتما گاندھی کی سرزمین پیدائش سے مجھے یاد کرنے اور خط لکھنے کے لیے شکریہ! اور میں ہمیشہ کی طرح آج پھر سے کافی خوش ہوا۔ نور،! تمہیں پتا ہے جس دن بھی میں زیادہ خوش رہتا ہوں میرے شعبہ کے رفقاء سمجھ جاتے ہیں کہ تمہارا خط آگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک خط سے دوسرے خط کے درمیان کا وقفہ صبر آزما ہوتا ہے۔
ایک ہفتہ سے دہلی سے باہر مشرقی اترپردیش میں سفر کر رہاہوں، اور اس وقت میں اعظم گڑھ ضلع میں ہوں۔ دراصل ہم تشدد اور دو آبادیوں کے درمیان کشمکش پر ایک ورکشاپ کر رہے ہیں۔ یہاں بجلی اور موبائل نیٹ ورک کا بہت مسئلہ ہے؛ ہم شہر کی زندگی کے اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ ہمیں یہ بھی محسوس بھی نہیں ہوتا ہے کہ ملک کی بیشتر آبادی انہیں مشکلات کے ساتھ زندگی گزارتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ہی لوگوں کے مسائل سے خود کو جوڑ نہیں پاتے ہیں اور بہت ساری چیزوں کو بس یوں ہی لے لیتے ہیں۔ تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ جب بھی میں اپنے آبائی گاؤں جاتا ہوں تو کم و بیش یہی میرے یہی جذبات رہتے ہوں گے ۔
ہمیشہ کی طرح اس بار پھر سے تمھارے خط نے میرے اس یقین کو پختہ کر دیا ہے کہ ہمارے ہزاروں طلبہ مفاد اور منافع پر مبنی معاشی نظام سے اتفاق نہ رکھتے ہوئے اپنے محدود دائرے میں ہی سہی ایسے نظام کو مسترد کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔ مجھے خوشی ہوتی ہے جب تم جیسے طلبہ اپنے آئیڈیل ازم کے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ لیتے ہیں اور اپنی امید و مثبت ارادوں سے ایسی طاقتوں کے سامنے پوری قوت ارادی کے ساتھ ڈٹے رہتے ہیں۔ نور! میں آج تم سے کچھ دلچسپ باتیں شیئر کرنا چا ہ رہا تھا۔
میں یہاں کمیونٹی کے نوجوانوں کے ساتھ فرقہ وارانہ کشمکش اور تشدد پر ایک نشست میں موجود تھا۔ میں پہلی فرصت میں تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ کہ یہ ضلع پچھلے کئی سالوں سے ہندو مسلم کشمکش کو لے کر کافی حساس رہا ہے اور ذرا سی بھی کوئی افواہ کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ ہمارے سامنے ہندو اور مسلمان دونوں ہی آبادی سے نوجوان بچے تھے۔ میں نے کسی بھی اکیڈمک اور دانشورانہ مباحث کا ماحول بنائے بغیر ان سے پوچھا کہ آپ کی فہم میں فرقہ وارانہ فساد اور کشمکش کیا ہیں؟ ان میں سے بیشتر نوجوانوں نے کہا کہ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جس میں ہندو مسلمانوں کو جان سے مارتے ہیں یا مسلمان ہندوؤں کا خون کر دیتے ہیں۔ میں نے اس وقت کسی بھی قسم کا کوئی سوال جواب نہیں کیا۔ میں نے پھر یہ پوچھا کہ آخر کیا ایسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ دونوں لوگ ایک دوسرے کو مارنے کے در پے ہوجاتے ہیں؟ اور میں نے سب سے کہا کہ وہ سادہ کاغذ پر اپنی ذاتی رائے لکھیں۔ اب میں ذرا ان کے جوابوں کے نوعیت کو تم سے شئیر کرنا چاہتا ہوں۔
– ہندو اور مسلمان دو مختلف قومیتیں ہیں جو ایک ساتھ سکون سے نہیں رہ سکتے ہیں۔
– ہندو بنیادی پر امن پسند ہیں جبکہ مسلمان فطرتا ایک غیر روادار قوم ہے۔
– ہم نے تو ابھی تک یہی سیکھا ہے کہ اسلام اور ہندوازم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں اور ایک دن ایسا آئے گا جب ان دونوں میں سے کوئی ایک ہی اس دنیا میں باقی رہے گا۔
– مسلمان ہندو لڑکیوں کو اپنے ساتھ بھگا لے جاتے ہیں۔
– ہندو ہمیشہ مسلمانوں کو ذلیل کرنے کے فراق میں رہتے ہیں۔
– ہندوؤں نے مسلمانوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ اس سمت میں منظم طریقے سے کام کر رہے ہیں۔
– مسلمانوں کی شرح پیدائش تو دیکھو، وہ تو جنگی پیمانے پر یہ کام کر رہے ہیں۔
– مسلمان زندگی کے ہر شعبہ سے باہر کر دیے گئے ہیں ۔
دوسرے مختلف جوابوں کے ساتھ ساتھ ان میں سے تقریبا ہر ایک نے کاشی-متھرا اور بابری مسجد کے تنازع کو پرجوش انداز میں ابھارا۔ پھر ہم نے بالکل سیدھے طور پر فرقہ واریت پر بحث و مباحثہ شروع کردیا اور ہمارے دوست ڈاکٹر عرفان اختر نے منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ، ماہپ سنگھ کے پانی اور پل، راہی معصوم رضا کی ٹوپی شکلا سے اقتباسات پڑھے۔ آخر میں ہم نے ‘ سالم لنگڑے پر مت رو’ فلم چلائی۔ یہ نشست تقریبا چار گھنٹے تک چلی۔ شام کے وقت ہم نے پانچ افراد پر مشتمل پانچ گروپ بنائے جس میں دونوں آبادی کے تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو بانٹ دیا۔ پھر ہر گروپ کو کچھ ایسے مسائل دے دیےگئے جن کی شناخت ہم نے دوران گفتگو کر لی تھی۔ مثال کے طور پر ان سے کہا گیا کہ جب ہم ‘اختلاف’ کے بارے میں بولتے ہیں تو د راصل ہم اس سے کیا سمجھتے ہیں؟ وہ مسلمانو ں پست یا ذلیل کردینے سے کیا سمجھتے ہیں؟ اسی طرح دوسرے گروپ کو رواداری اور بھید بھاؤ پر کچھ کہانیاں بنانے کو کہا گیا۔ اس کام کو کرنے کے لیے انہیں ایک رات کا وقت دیا گیا (جس میں وہ لگ بھگ تین سے چار گھنٹے تک ساتھ رہ لیں گے ) مزید ہم نے اس رات کے لیے ان کی رہائش کو بدل دیا۔
نور! یہ میرے لیے بھی ایک زبردست سیکھنے کا وقت تھا ، میں نے اگلی صبح دیکھا کہ ان کی کہانیاں پچھلے دن کے بالمقابل کافی الگ تھیں۔ میں ہرگز یہ دعوی نہیں کروں گا کہ صدیوں کا تعصب اور باہمی عدم اطمینان ایک دن میں ختم ہوگیا مگر اس ایک دن اور ایک رات نے ان کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع دیا ۔ مجھے یقین ہے کہ انہوں نے ایک دوسرے کی زندگی کے بارے میں جاننا چاہا ہوگا، اپنے مذہب ، ثقافت ، کے بارے میں ایک دوسرے کو بتایا ہوگا۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خیالات سے مکمل طور پر مطمئن نہ ہوئے ہیں ۔ مگر اس دو دن میں ہی ان کی باتیں بہت حد تک بدل گئی تھیں۔ ہم اس بات پر بے انتہا خوش تھے ۔ کیا تم نہیں ہو؟ کیا ہماری نسلوں کو یہ نصیب نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ چند خوشگوار لمحے گزار سکیں ؟ کیا انسانیت کا مذہب دنیا کے تمام مذہب کی تشریح و تعبیر نہیں ہے؟ اگلے دو دن تک ہمیں اور بھی بہت ساری سرگرمیاں کرانی ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ میں نے اس بار کچھ زیادہ ہی لمبا خط لکھ دیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ تم تک یہ سب باتیں پہنچ رہی ہیں اور میں تمہاری خوشی کا اندازہ لگا سکتا ہوں ۔ اب اجازت دو ۔
خوش رہو۔

تمہارا اپنا
منوج