مشعال خان کی جان نے ضمیر جگائے ہیں ! ابھی چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی
(شاداب مرتضٰی)
مذہب کی آڑ میں مشعال خان کے سفاکانہ قتل کے خلاف عوامی غیض و غضب کی اٹھنے والی لہر نے ریاست کے ہر ستون کو ہلا ڈالا ہے۔ لیکن کیا اس تحریک کا مقصد صرف مشعال خان کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے تک محدود ہونا چاہئے؟ ملائیت کی پھیلائی ہوئی جہالت اور انتہا پسندی کی آگ میں جھلستے ہمارے معاشرے سے مشعال کے قتل کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں وہ آواز بھی شامل ہے جس کا مطالبہ ہے کہ صرف مشعال کے قاتلوں کو سزا دینا کافی نہیں بلکہ معاشرے سے ان وجوہات اور عوامل کا مکمل سدباب وقت کا اہم تقاضا ہے جن کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ مذہبی انتہا پسندی، شدت پسندی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں جکڑا جا چکا ہے اور جمہوری طرزِ زندگی شکست و ریخت کا شکار ہے۔
مشعال کے قاتلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ملائیت اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف اس تحریک کا اولین مقصد ہے۔ لیکن دوررس نتائج حاصل کرنے کے لیے اس تحریک کو اگلے اہداف مقرر کرنا ہوں گے اور پوری لگن کے ساتھ انہیں پایہِ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرنا ہوگی۔ اس وقت تحریک کا سارا زور مشعال کے قاتلوں کی مثالی سزا ہونا چاہئے۔
اگلا مرحلہ توہینِ مذہب کے قوانین میں تبدیلی کی مہم ہونا چاہئے۔ ہمارا مطالبہ ہونا چاہئے کہ ملک میں موجود توہینِ مذہب سے متعلق قوانین میں اس طرح تبدیلی کی جائے کہ ان کا غلط استعمال ممکن نہ رہے۔ واضح رہے کہ ہمارا مقصد توہینِ مذہب کے قوانین کا خاتمہ ہر گز نہیں ہے۔ تمام مذاہب، مذہبی عقائد اور مقدسات قابلِ احترام ہیں۔ ان کی تضحیک و توہین کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ لیکن اس بات کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی کہ ان کے نام پر کسی شہری کے خلاف انتقامی کارروائی کی جائے۔
لیکن محض قوانین میں تبدیلی کافی نہیں اگر معاشرے میں انتہا پسندانہ سوچ، رویے اور قوتیں غالب ہیں جو شہریوں کو انتہا پسندانہ عمل پر اکساتی ہیں اور ان کا دفاع اور تحفظ کرتی ہیں۔ ان انتہا پسندانہ قوتوں اور رجحانوں کو معاشرے میں بتدریج کمزور کرنا اور ختم کرنا ضروری ہے جس کے لیے ریاستی سطح پر مذہبی انتہا پسند قوتوں اور رجحانوں کے کنٹرول اور خاتمے کے لیے اقدامات ضروری ہیں۔
ان اقدامات میں ملائیت کی جانب سے فرقہ واریت، نقصِ امن پھیلانے والے اور شہریوں کو مشتعل کرنے والے فتووں پر قابلِ سزا پابندی، تعلیمی نصاب سے مذہب، فرقہ و مسلک، زبان، نسل اور قومیت کی بنیاد پر متعصب و نفرت انگیز مواد کا اخراج، تعلیمی اور سرکاری اداروں میں تبلیغی جماعتوں کی سرگرمیوں پر پابندی، انتظامی اداروں اور سیکیورٹی اداروں خصوصاً پولیس کے افسروں اور اہلکاروں کی مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے خصوصی تربیت، ذرائع ابلاغ کے زریعے مذہبی انتہا پسندی کا پرچار کرنے پر سخت پابندی وغیرہ شامل ہونا چاہئیں۔ معاشرے سے مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ریاست کی جانب سے ایک جامع پالیسی اور اس سے متعلق تمام اقدامات سامنے آنا چاہئیں۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی یا مذہبی انتہا پسندی کوسیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کرنا ہو گی۔
سیاسی جماعتوں کا کردار اس سلسلے میں سب سے اہم ہے۔ سیاسی جماعتوں کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس کی صفوں میں مذہبی انتہا پسند عناصر کی کوئی جگہ نہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں جمہوریت کے استحکام کے لیے مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کو اپنے سیاسی پروگرام کا لازمی حصہ بنانا ہو گا اور اس حوالے سے اپنے کارکنوں کی تربیت کرنا ہو گی۔ سیاسی مسائل اور معاملات پر سیاسی جماعتوں کو سیاسی موقف اختیار کرتے ہوئے اس میں مذہب کو استعمال کرنے سے گریز کرنا ہو گا۔
روشن خیال اور ترقی پسند اہلِ قلم اور دانشوروں کا فریضہ ہے کہ وہ عوامی امنگوں اور جذبات کی بہترین ترجمانی کرتے ہوئے اور ان کی رہنمائی کرتے ہوئے مذہبی انتہا پسندی، تنگ نظری اور رجعت پرستی کے خلاف جدوجہد کو تیز تر کریں اور اپنی صفوں میں بھی نظم و ضبط، اتحاد اور مشترکہ لائحہ عمل پیدا کریں۔ اسی طرح بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور گروہوں کو ملائیت اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف متحدہ محاذ کی صورت میں جمہوری استحکام اور سیکیولرازم کی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہو گا اور اسے محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد سے، خصوصا زرعی اشرافیہ کے خاتمے اور کسانوں میں زمین کی تقسیم کی جدوجہد سے جوڑنا ہوگا۔
ریاست، حکومت اور حکمران سیاسی جماعتیں مختلف سطحوں پر ملائیت کے ساتھ گہرے مفادات میں جکڑی ہوئی ہیں لہٰذا اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ وہ مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے فوری، قلیل المعیاد یا طویل المدتی اقدامات اٹھائیں۔ یہ فریضہ عوامی جمہوری تحریک ہی ادا کر سکتی ہے۔ اس لیے مذہبی انتہا پسندی کے نتیجے میں مشعال خان کے بہیمانہ قتل کے خلاف اٹھنی والی عوامی تحریک کو مشعال کے قاتلوں کی سزا کے ہدف کے پورا ہونے کے بعد تحریک کو آگے بڑھاتے ہوئے اسے اس کے منطقی انجام تک لے جانے کی بھرپور جدوجہد کرنا ہو گی۔ عوام دیکھ چکے ہیں کہ ان کی متحدہ طاقت نے مشعال خان قتل کیس میں اپنی قوت کا کھل کر اظہار کیا ہے اور ریاست و حکومت کو وہ کرنے پر مجبور کیا ہے جس کی توقع ان سے بالکل نہیں تھی ۔ مایوسی، خوف اور ناکامی کی جگہ یقین، عزم اور ہمت نے لے لی ہے۔ اسی عزم و حوصلے سے تحریک کو مزید مضبوط، متحد اور یک آواز کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا ہوا تو کامیابی عوام کی ہوگی اور تاریخ کی رجعت پرست قوتیں نامراد و ناکام ہوں گی۔