معاشرہ سازی میں پاکستانی سینما کا کردار (۲)
از، عرفان احمد عرفی
(گذشتہ سے پیوستہ)
اچھی فلم وہ نہیں جسے آپ نے آغاز سے انجام تک نشست پر پہلو بدلے بغیر ایک ہی پوسچر میں سِٹل ہو کر دیکھا، اچھی فلم وہ ہے جو تھیٹر میں سے نکلنے کے بعد بھی آپ کے ساتھ ہے، آپ کے سامنے، اوپر نیچے، دائیں بائیں رہتی ہے اور اگر وہ دنوں یا ہفتوں یا مہینوں آپ کے ساتھ رہے تو پھر وہ ایک عظیم فلم ہے۔ بہترین فلم وہی ہوتی ہے جو اپنے دیکھنے والے کو Mesmerizeکر دے اور اپنے اختتام کے بعد بھی اُسے اپنے حصار میں رکھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ اسی فلم نے ریکارڈ توڑ بزنس کیا جسے شائقین نے بار بار دیکھا۔ فلم کوٹھے پر بیٹھی وہ سمجھدار طوائف ہے جس کی سیڑھی اترنے کے بعد بھی تماش بین بار بار چڑھنے پر مجبور ہو جائے۔ فلم کو اپنے ناظرین سے ہمدردی لینا ہوتی ہے اور یہ تب ممکن ہوتا ہے جب وہ اپنے تماشائیوں کے جذبات سے کھیلے اور خوب کھیلے اور ہر انداز سے کھیلے۔ فلم کی Archival Value کتاب کی طرح ہونی تو چاہیے مگر یہ حد درجہ کی معجزاتی کامیابی کے بعد ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ دنیا میں بہت کم فلمیں ہیں جنہیں کتاب کا سا درجہ دیا جا سکتا ہے کہ جس دور میں انھیں کھولا جائے وہ اپنی تازگی اور Richness کے ساتھ آپ کو Cater کر رہی ہوں۔ اگرچہ کچھ فلموں نے اپنے تماشائیوں کے جذبات سے کھیلنے کے ساتھ ساتھ انھیں ’’فوڈفارتھاٹ‘‘ بھی دینے کی کوشش کی ہے، مگر یہ تجربہ اتنا کامیاب نہیں ہو سکا، لہٰذا سرمایہ کاروں نے ایسے سینما سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ پاکستان میں بھی جاوید جبار نے ’’مسافر‘‘ کے نام سے ایسا تجربہ کیا جس کا انگریزی ورژن Beyond The Last Mountain ہے۔ احمد بشیر کی ’’نیلا پربت‘‘ اور سلمان پیرزادہ کی ’’زرگل‘‘ اور ’’بلڈ آف حسین‘‘، فریال گوہر کی فلم ’’ٹبی گلی‘‘ اس ضمن میں چند مثالیں ہیں۔ مگر یہ تمام فلمیں تکنیکی اور پیشہ ورانہ محاذ میں مختلف ایوارڈز تو لے گئیں، لیکن عوام سے پذیرائی نہ مل سکی۔
۱۹۵۹ء میں مصنف و ہدایتکار سیف الدین سیف نے فلم ’’کرتار سنگھ‘‘ بنائی۔ فلم تقسیمِ ہند کے پس منظر میں پاکستانی ادب کے ایک کلاسیکل افسانے ’’مہیتر سنگھ‘‘ سے بہت حد تک ماخوذ تھی، جس کے خالق احمد ندیم قاسمی ہیں۔ سیف الدین سیف پاکستان کے مایہ ناز شاعر اور فلموں کے لکھاری تھے، وہ اس فلم کے پروڈیوسر بھی تھے۔ اس فلم کی مرکزی کاسٹ میں مسرت نذیر، بہار، سدھیر، علاؤ الدین، اجمل، غلام محمد اور عنایت حسین بھٹی تھے۔ یہ ۱۹۴۷ء کے فسادات کے پس منظر میں پہلی پاکستانی فلم تھی جس میں متحدہ پنجاب کی زندگی کا بہت خوبصورت نقشہ کھینچا گیا تھا۔ سکھوں اور مسلمانوں کی باہمی محبت تقسیم کے محاذ پر کس چیلنج کا سامنا کرتی ہے، اس فلم کا تھیم تھا۔ اس فلم میں ہندوؤں اور سکھوں کے خلاف کہیں بھی نفرت کا جذبہ اُبھارنے والی کسی بات کو اتنا زیادہ ہائی لائٹ نہیں کیا گیا تھا، اور یہ فلم اپنے دور کی کامیاب ترین فلم تھی۔ ممکن ہے اُس دور میں چونکہ پاکستان کی فلمیں بھارت میں نمائش کے لیے جایا کرتی تھیں اور بھارت کی فلمیں پاکستان میں نمائش کے لیے آتی تھیں، لہٰذا مذہب کی بنیاد پر نفرتیں پھیلانے والی کہانیوں کو مارکیٹ میں نہیں لایا جاتا تھا۔ پھر ۱۹۶۲ء میں ہدایتکار خلیل قیصر اور مصنف ریاض شاہد کی معروف فلم ’’شہید‘‘ ریلیز ہوئی، جس میں ۱۹۲۲ء کے صحرائے عرب کا زمانہ دکھایا گیا۔ یہ فلم کافی حد تک علامتی اور تجرباتی پلاٹ پر مبنی تھی۔ مشرقِ وسطیٰ اور مغرب کی طاقتوں کے درمیان ترقی اور غلبے کی جنگ کے ساتھ آنے والے زمانے میں ان خطوں کے حوالے سے گلوبل پالیٹکس اور ورلڈ اکنامکس کیا رنگ لائے گی، ریاض شاہد نے نہایت ذہانت اور دور اندیشی کے ساتھ اس موضوع کو فلم کی کہانی میں چھیڑا تھا۔ پھر پاکستان میں مارشل لاء کے تسلّط کے حوالے سے اُس فلم میں آمریت کے خلاف آواز اُٹھانے والے Sequences بہت بامعنی اور سہ رُخی جواز کے حامل تھے۔ اس ضمن میں فیض احمد فیض کی نظم ’’نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں۔۔۔ چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے، جو ۶۰ کی دہائی میں مارشل لاء کے دَور میں مزاحمتی ادب کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتی ہے۔ اگرچہ اس فلم کا کلائمکس ایک عرب لڑکی کے خودکش حملے پر ہی مبنی تھا، مگر دو باتیں بہت اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ محبت کے جذبے کے تحت وطن کی آزادی کے لیے جان دیتی ہے، نہ کہ نظریے کی خاطر یا مذہب کو بچانے کے لیے۔ اور دوسرا اس حملے میں صرف اُس کی جان جاتی ہے۔ وہ تیل کے اُس کنویں میں اپنے کپڑوں کو آگ لگا کر کودتی ہے جو مشرقِ وسطیٰ کی اُس دولت کی علامت ہوتا ہے جسے بیسویں صدی اور بعد ازاں اکیسویں صدی میں مغرب کی بڑی طاقتوں نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ اس فلم میں نارکاٹیکس کے حوالے سے اہلِ مشرق میں مغرب کی سازش پر بھی بہت خوبصورتی سے Comment کیا گیا تھا۔
۱۹۶۴ء میں فلم ساز و ہدایتکار خلیل قیصر نے مصنف ریاض شاہد کے ساتھ ایک اور فلم بنائی جس کا نام ’’فرنگی‘‘ تھا۔ اس فلم کے نغمہ نگاروں میں فیض احمد فیض اور قتیل شفائی تھے۔ سرحد کے پس منظر میں پٹھان قبائل کی مزاحمت کے حوالے سے بنائی گئی اس فلم میں اگرچہ حب الوطنی کا جذبہ اُبھارا گیا تھا مگر پٹھان قبائل کی تاریخ اور روایت کے پیشِ نظر کہانی کا Scenario اپنا ایک ٹھوس جواز رکھتا ہے۔
پھر اکتوبر ۱۹۶۶ء میں ہدایتکار ، فلم ساز اور رائٹر سیف الدین سیف نے فلم ’’مادرِ وطن‘‘ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے حوالے سے نمائش کے لیے پیش کی۔ اگرچہ اس فلم میں انڈیا اور پاکستان کی جنگ کے نتیجے میں شہادت کے امکانات پر کہانی بُنی گئی تھی، لیکن یہ فلم اُس زمانے میں جنگ کے تازہ ترین اثرات میں سے ایک تھی۔ اور چونکہ ساری قوم نے حال ہی میں جنگ کا تجربہ کیا تھا، لہٰذا ایک بیتی ہوئی واردات پر فلم بنانا اتنے اچنبھے کی بات نہیں تھی۔
۲۳؍ مارچ ۱۹۶۷ء کو ہدایتکار خان عطاء الرحمن کی فلم ’’نواب سراج الدولہ‘‘ ریلیز ہوئی۔ یہ ایک تاریخی فلم تھی اور اس کے ساتھ ساتھ تجرباتی اور مختلف بھی تھی۔ کسی حد تک ہم اسے آرٹ فلم کا درجہ بھی دے سکتے ہیں، جو بہت کم بجٹ میں بنائی گئی تھی، مگر ایک کاسٹیوم اور پیریڈ فلم تھی۔ جنگ کے مناظر تکنیکی اعتبار سے بہت اچھی طرح یا تو فلمائے گئے تھے یا جوڑے گئے تھے۔ خان عطاء الرحمن بنگلہ زبان میں فلمیں بنایا کرتے تھے، یہ اُن کی پہلی اُردو فلم تھی۔ اس فلم میں گانے بھی کم تھے اور کاسٹ بھی نئی تھی، مگر اس کے باوجود یہ ایک کامیاب فلم تھی۔ اگرچہ اس فلم میں بھی مسلمانوں کی سیاسی قوت اور غلبے کو اُجاگر کیا گیا تھا، لیکن اس میں کہیں بھی مذہب کی بنیاد پر جان سے کھیل جانے پر اُکسانے کی کوشش نہیں کی گئی تھی۔ یوں تو مذہبی موضوع پر بیشتر فلمیں بنتی رہیں، مثلاً نورِ اسلام، غازی علم دین شہید، لیکن تب مذہب کی محبت کو ایک تاریخی واقعے کے بہانے سامنے لایاجاتا تھا۔
پھر ۲۳؍ اپریل ۱۹۶۷ء کو ہدایتکار رضامیر کی مشہورِ زمانہ فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ ریلیز ہوئی، جسے معروف فلم رائٹر ضیاء سرحدی نے لکھا۔ مگر یہ فلم ہندو لڑکی اور مسلمان لڑکے کی محبت کی کہانی تھی اور انڈیا اور پاکستان کی تقسیم سے کہیں زیادہ اُس سوشل پہلو پر کمنٹ کرتی تھی جو مذہب کی بنیاد پر ایک جیسی زندگی جینے والے انسانوں کو تقسیم کر دیتی ہے۔ یہ ایک میوزیکل فلم تھی۔ بعد ازاں بہت سالوں بعد بھارت کے بہت بڑے فلم ڈائریکٹر راج کپور نے یہی کہانی پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین سے لکھوائی اور ’’حنا‘‘ کے نام سے اپنے بینر تلے اس فلم کا آغاز کیا۔ ’’حنا‘‘ کی ہیروئین پاکستان سے ہی ایک اداکارہ ’’زیبا بختیار‘‘ تھیں۔ کشمیر کے پس منظر میں یہ فلم امن کا پیغام لے کر سامنے آئی۔
پھر ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو ہدایتکار، مصنف اور فلمساز ریاض شاہد اور نغمہ نگار حبیب جالب کی فلم ’’زرقا‘‘ ریلیز ہوئی۔ فلسطین کے بیک ڈراپ پر یہ فلم بھی بہت تجرباتی اور نہایت کامیاب کمرشل فلم تھی۔ اگرچہ یہ فلم مسلمانوں پر یہودیوں کے تسلّط کے خلاف ایک آواز تھی، مگر اس تھیم کو اس قدر فنکارانہ مہارت کے ساتھ سنبھالا گیاتھا کہ یہ فلم کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔
ریاض شاہد نے ہی نومبر ۱۹۷۱ء کو کشمیر کے حوالے سے ’’یہ امن‘‘ نمائش کے لیے پیش کی۔ اس فلم میں اگرچہ کشمیر کے تنازعہ کو ہائی لائٹ کیا گیا تھا مگر کسی بھی مقام پر معصوم آڈئینس کو مرمٹنے پر اُکسانے کی بھونڈی کوشش نہیں کی گئی۔
۲۳؍ مارچ ۱۹۷۹ء کو تقسیمِ ہند کے پس منظر میں نیف ڈیک کی پروڈکشن ’’خاک اور خون‘‘ ریلیز کی گئی، جسے مسعود پرویز نے ڈائریکٹ کیا اور اِس کے گیت قتیل شفائی اور احمد فراز نے لکھے۔ یہ دونوں وہ شاعر ہیں جو بہرطور انڈیا جا کر مشاعروں میں اپنے فن کی دھاک بٹھا کر آتے رہے ہیں اور خوب داد سمیٹتے رہے ہیں۔ نظریاتی اور ذاتی طور پر دونوں شاعر مذہب کی بنیاد پر نفرت اور امتیاز کے شدید خلاف ہیں۔
البتہ ۹۰ کی دہائی میں پاکستان فلم انڈسٹری کے بہت کامیاب اور ذہین فلم سازوں اور ڈائریکٹروں نے چند ایسی فلمیں بنانا شروع کر دیں جن میں جذبۂ حب الوطنی اور جذبۂ جہاد کو ایک خاص تسلسل اور شدت سے فلموں کا موضوع بنانا شروع کر دیا۔
۲۷؍ اپریل ۱۹۹۰ء کو پاکستان فلم انڈسٹری کے سب سے بڑا بینر ’’ایورنیو پکچرز‘‘ نے اپنی ایک فلم ’’انٹرنیشنل گوریلے‘‘ کے ٹائٹل سے پیش کی اور یہ فلم پنجابی اور اُردو دونوں زبانوں میں بنائی گئی تھی۔ فلم میں ’’سلمان رشدی‘‘ کو ایک منظم دہشت گرد دکھایا گیا اور وہ پاکستان میں دہشت گردی کا منصوبہ بناتا ہے۔ ’’سلمان رشدی‘‘ فار ایسٹ کے کسی نامعلوم جزیرے میں سخت سیکورٹی میں ہے اور اُس کی ایک مسلح فوج ہے جو اُس کے دفاع پر مامور ہے۔ پاکستان سے انٹرنیشنل گوریلے سلمان رشدی کو تباہ کرنے جاتے ہیں اور آخر فلم کے کلائمکس پر آسمانی عذاب نازل ہونے کے نتیجے میں رشدی جل کر بھسم ہو جاتا ہے۔ ’’رشدی‘‘ کے موضوع پر عوام کے مشتعل جذبات سے کھیلنے کا حق یقیناًفلم ٹریڈ کے تاجروں کے پاس تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اُس کے خلاف پاکستانی عوام میں غصے اور نفرت ک آگ تھی جو یقیناًمارکیٹ میں منہ بولے داموں بیچی جا سکتی تھی، لیکن بہتر ہوتا کہ اُس کے کردار کو ایک لکھاری کے طور پر ہی پورٹریٹ کیا جاتا اور جسے فلم سے تخریب کاری کرنے والا دکھایا جا سکتا تھا، جس نے جان بوجھ کر خودساختہ تاریخی مغالطے سے مذہب اسلام کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی اور انجام کسی حد تک تو آج کے دور سے لگا کھاتا۔
پھر فلم ساز محمد یونس ملک اور ہدایتکار محمد پرویز کلیم کی پیشکش ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۹۴ء کو ’’بُت شکن‘‘ کے نام سے ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں جذبۂ شہادت کو نہایت غیرپختہ ہنرکاری سے موضوع بنایا گیا تھا، جبکہ پرویز کلیم نے ’’گناہ‘‘ اور ’’جلتے بدن‘‘ جیسی فلمیں خاصی پختہ تخلیقی ہنرکاری سے ڈائریکٹ کی ہیں۔ ان دِنوں ہمسایہ ملک بھارت کی فلمیں بھی یکے بعد دیگرے حب الوطنی کے موضوع پر ہی بن کر سامنے آرہی تھیں اور ڈش انٹینا کے آنے کی وجہ سے اُن فلموں کی پبلسٹی اور مقبولیت کی یلغار نے پاکستان فلم انڈسٹری کے فلمسازوں کو بھی حب الوطنی کے موضوع پر فلمیں بنانے پر اُکسایا۔ لیکن انڈیا نے جب بھی ۱۹۶۵ء یا ۱۹۷۱ء کے حوالے سے یا کشمیر کے حوالے سے فلم بنائی اُس کا مرکزی خیال امن ہی ہوتا ہے۔ وہ اپنے ڈھکے چھپے طریقے سے امن پسندی اور سیکولر اپروچ کی آڑ میں اپنے قومی مفادات اور نظریات کا پرچار کیا کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے فلمساز جب اپنی خام خیالی کا براہِ راست اظہار نہایت جذباتی پن کے ساتھ کرتے ہیں تو مجموعی طور پر اُن کی یہ پیشکش خاص Immature ہو جاتی ہے۔
حب الوطنی کے جذبے کو اُبھارنا اور بات ہے اور ہمسایہ ملک یا دوسری غیر مسلم دنیا کے خلاف انتقام اور نفرت ک آگ اُگلنا ایک اور الگ موضوع ہے۔ لیکن ہمارے ہاں دوسروں کو ملیا میٹ کر کے اپنے وطن کے استحکام کو مضبوط بنانے کی تحریک پر زور دیا جانے لگا ہے۔ اُس پر انڈین فلموں کی پاکستان میں غیر قانونی رسد نے پاکستانی فلمسازوں کو نہایت Insecure کر دیا تھا۔ انڈیا جس طرح میوزک، سیکس اور قومی نظریے کا پیکج فلم کے نہایت ارزاں پراجیکٹ کے توسط سے مارکیٹ کر رہا تھا، پاکستانی عوام کی ساری توجہ اس جانب مبذول ہو گئی۔ ایسے میں پاکستانی فلم کے تقریباً ہر بڑے ادارے نے دیکھا دیکھی اُن کے مقابلے میں فلمیں بنانا شروع کر دیں۔ اب ہونے یہ لگا کہ میوزک،سیکس اور رومانس میں پاکستانی فلمساز انڈین آرٹ اور تکنیک کی تقلید کرتا اور نظریہ اپنا پیش کر دیتا، جس میں اسلام دشمن عناصر کے ساتھ جہاد میں مار مٹانے اور مرمٹنے کی دونوں انتہاؤں کو شدید جذباتی پن کے ساتھ پروجیکٹ کیا جانے لگا۔
پہلی فلموں میں بھی اشتہا انگیز رومانس کو مارکیٹ کیا جاتا تھا، مگر ایک تاریخی اور حب الوطنی کے موضوع پر بنائی گئی فلم میں اس کی شدت کو قدرے دھیما رکھا جاتا۔ خاص طور پر فلم کے کلائمکس پر اگر کسی اہم کردار کی ایسی ٹرانسفارمیشن کو دکھایا جاتا جس کی بنیاد مذہبی جذباتی پن ہے تو پھر اس Sequence کے بعد سکرین پر ہر طرح کے غیر اسلامی مناظر سے احتراز برتا جاتا۔ ۱۹۷۸ء میں ہدایتکار حسن طارق کی فلم ’’سیتا مریم مارگریٹ‘‘ ایک مکمل اور بھرپور سیکسی فلم تھی مگر فلم کے کلائمکس میں مارگریٹ پر اذان کی آواز اور قرآن کی قرأت کچھ اس انداز سے اثرانداز ہوتی ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیتی ہے، تو اِس منظر کے بعد فلم میں رانی کو کہیں بھی نیم برہنہ حالت میں نہیں دکھایا گیا اور نہ ہی کسی گانے کی کوئی گنجائش باقی رکھی گئی۔۔۔ ایسی لاتعداد مثالیں ہیں جب پہلی فلموں کے کلائمکس پر کسی مزار یا پیر فقیر کے آستانے پر کوئی حمدیہ یا نعتیہ قوالی دکھائی جاتی تو اُس کے بعد کسی بھی ناچ گانے کی گنجائش نہ رکھی جاتی۔ لیکن ۹۰ کی دہائی میں اسلامی مناظر کو بھی فلم کے فوٹوسیٹ پر اسی طرح Exhibit کیا جانے لگا جس طرح اشتہا انگیز اور نیم مناظر کا ڈسپلے کیا جاتا۔۔۔
’’سیّد نور‘‘ پاکستان فلم انڈسٹری کے بہت منجھے ہوئے لکھاری تھے جو گزشتہ کئی برسوں سے بہت بڑے بڑے ڈائریکٹروں کے ساتھ فلموں کے سکرپٹ پر کام کر رہے تھے۔ آخر ہدایتکاری کے میدان میں اُتر آئے۔ اُن کی ایک فلم ’’جنگل کوئین‘‘ میں ہیروئین صائمہ ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کر رہی ہے جو حادثاتی طور پر بچپن میں جنگل کے جانوروں میں آ گئی اور انھی کی حفاظت میں پل بڑھ کر جوان ہو گئی، فلم کے پہلے ہاف میں ہی اس کی ملاقات فلم کے ہیرو معمر رانا سے ہوتی ہے جو کسی فضائی حادثے کے نتیجے میں جنگل میں گر جاتا ہے۔ صائمہ، جس نے اپنی چھاتیاں اور ناف کے نیچے کا حصہ پتّوں اور ٹہنیوں سے چھپا رکھا ہے، جانوروں کی ہی مختلف آوازوں اور اشاروں میں Communicate کرتی ہے۔ معمر رانا کو پہلی نظر میں ہی جنگل کوئین سے پیار ہو جاتا ہے۔ اب وہ اسے بولنا سکھاتا ہے تو سب سے پہلے کلمہ طیبہ پڑھواتا ہے۔جونہی صائمہ کلمہ طیبہ پڑھ چکتی ہے وہ معمر رانا اور سینما ہال میں بیٹھے شائقین کے لیے گویا حلال ہو جاتی ہے اور اگلے ہی لمحے وہ اپنے اسی مختصر لباس میں جھیل میں گرتے جھرنوں میں بھیگتی ہوئی معمر رانا کے ساتھ گانا بھی گا رہی ہے اور بہت Erotic رقص بھی کر رہی ہے۔ وہی آڈئینس جس نے اُس کے کلمہ طیبہ پڑھنے پر نعرۂ تکبیر بلند کیا تھا، رقص کے مناظر پر رونگٹا رونگٹا بلند کرتی ہے۔
اسی دہائی کی ایک اور فلم ’’شرافت‘‘ میں جس سین نے فلم بینوں کو بار بار سینما ہال میں آنے پر مجبور کیا اور فلم کو ریکارڈ توڑ بزنس سے نوازا، وہ کچھ یوں ہے کہ فلم کی سائیڈ ہیروئن ’’مدیحہ شاہ‘‘ گینگ ریپ کے لیے ٹریپ کی جا رہی ہے اور وہ غنڈوں کے جھرمٹ سے خود کو بچاتی ہوئی فرار ہو جاتی ہے۔ غنڈے اس کا پیچھا کرتے ہیں، بھاگتے بھاگتے مدیحہ شاہ کو دور درختوں کے جھنڈ میں ایک بزرگ خاتون (بہار بیگم) چارپائی پر قرآن کی قرأت میں مگن دکھائی دیتی ہے۔ مدیحہ شاہ پناہ لینے کے لیے چارپائی کی طرف بھاگتی ہے اور پھر اس چارپائی کے گرد سات چکر کاٹتی ہے۔ غنڈے اس کے تعاقب میں چارپائی کے گرد بھاگ رہے ہیں۔ بہار بیگم قرآن پاک کی تلاوت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ایک دو مرتبہ اپنے اردگرد ہوتے طواف پر چونکتی ہے مگر دوبارہ قرآن کی تلاوت میں گم ہو جاتی ہے۔ آخر ایک مقام پر لڑکی جس پر ریپ کی کوشش کامیاب ہو جاتی ہے، مگر سماج کے سامنے سرخرو ہو جاتی ہے اور یہ سب اُسی قرآن کی برکت سے ہوتا ہے، جو اُس پر ہونے والی ظلم کی گواہی بنا تھا۔
بالکل ایک اسی طرح کا سین ہدایتکارہ شمیم آراء کی فلم ’’بیٹا‘‘ میں بھی ہے۔ جب ریما سری لنکا کی لوکیشن میں اسی طرح کی سچوایشن میں گرفتار ہے اور گینگ ریپ کی کوشش سے خود کو بچاتی ہوئی ایک مزار نما عمارت کی سیڑھیاں چڑھنے لگتی ہے۔ ان سیڑھیوں پر سبز رنگ کے چوغوں میں ملبوس کچھ دیسی مگر مسلمان ملنگ بھی بیٹھے ہیں جن کے گلے میں مالائیں ہیں اور ہاتھوں میں تسبیحیں۔ ریما جب سیڑھیاں چڑھنے کے بعد اُس مقبرہ نما مقام پر پہنچتی ہے تو وہاں ایک انسان کا بہت بڑے سائز کا نقشِ قدم Monument کے طور پر محفوظ ہے۔ ریما پاؤں کے اس نشان پر التجائیں کرتی ہوئی گر جاتی ہے اور گڑگڑا کر دعا مانگتی ہے کہ ’’اے آدمؑ ! تیری حوا کی بیٹی کی عزت خطرے میں ہے، تُو اسے بچا لے۔‘‘ روایت ہے کہ اس مقام پر حضرت آدمؑ کے پاؤں کا نشان ہے۔ آسمان پر بجلی کڑکتی ہے اور قرآنی آیات نازل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ حضرت آدمؑ کے پاؤں کے نشان سے نور کی ایک کرن فضا میں اٹھتی ہے اور معجزاتی طور پر گینگ ریپ کرنے والوں کو بھسم کر دیتی ہے۔ اس سین کے دوران سینما تھیٹر اسلامی نعروں سے گونج اٹھتے ہیں اور فلم بین بہت جذباتی ہو جاتے ہیں۔
۹۰ کی دہائی میں بزنس اور کیرئیر میں بریک تھرو اور انڈسٹری میں رجحان ساز کے طور پر جو فلم سب سے زیادہ اہم رہی وہ سیّد نور کی بطور ہدایتکار پہلی فلم ’’جیوا‘‘ تھی۔ یہ فلم ۱۹۹۵ء میں ریلیز ہوئی اور اس نے بزنس کے بہت سے تاریخی اور نامور ریکارڈ توڑ دیے۔ فلم ترکی میں شوٹ کی گئی تھی اور موضوع کے اعتبار سے یہ ایک میوزیکل، رومانی اور انتقام کی کہانی پر ایکشن اور تھرل سے بھرپور نہایت تفریحی اور کامیاب فلم تھی۔ فلم کی کہانی کے مطابق اداکار ندیم، جو لیڈ رول پلے کر رہے ہیں اور اُن کا نام ’’جیوا‘‘ ہے، پاکستان میں ایک عدد قتل کرنے کے بعد ترکی میں آ بسا ہے۔ جاوید شیخ اس مقتول کا بیٹا ہے جس کا قتل ندیم کے ہاتھوں ہوا تھا۔ جاوید شیخ انتقام کے جذبے کے تحت ندیم یعنی جیوا کو ڈھونڈتا ہوا ترکی میں آ جاتا ہے اور آخر تعاقب کرتا ہوا اُسے ڈھونڈ لیتا ہے۔ فلم کے اہم سیکوئنس میں جب جاوید شیخ جیوا کا پیچھا کر رہا ہے تو جیوا کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کادشمن اُس کا سر اُتارنے کے لیے اس کے تعاقب میں ہے۔ ندیم ایک عمارت میں گھس جاتا ہے اور جاوید شیخ اُس کے پیچھے چلتا ہوا عمارت میں آ جاتا ہے۔ اب ندیم عمارت کی لابی میں ہے۔ جاوید اُسے کہتا ہے، ’’جیوا! آخر وہ وقت آ گیا جب میں تمہارا سر تمہارے دھڑ سے علاحدہ کرنے لگا ہوں۔‘‘ جیوا جواب دیتا ہے، ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں، اس مقام پر اگر میرا سر میرے دھڑ سے علاحدہ بھی ہو جائے تو اِس سے زیادہ خوش قسمت اور کون ہو گا۔۔۔‘‘
جاوید شیخ، جس کا نام زیرک خان ہے، جیوا کے اس ری ایکشن پر حیران ہوتا ہے اور اُس سے اِس قربانی کی وجہ دریافت کرتا ہے۔ جیوا کہتا ہے، ’’پاگل آدمی! تو نہیں جانتا تو کہاں کھڑا ہے اور یہ مقام کتنا مقدس اور کتنا عظیم ہے۔۔۔‘‘ تب جیوا جاوید شیخ کو اُس میوزیم میں محفوظ ایک عدد تلوار، عمامہ، داڑھی کا بال، اور کچھ اورباقیاتِ پیغمبرِ اسلام صلّی اللہ علیہ وسلّم دکھاتا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی کچھ تلواریں اور عمامے بھی دکھاتا ہے۔ پیغمبرِ اسلام صلّی اللہ علیہ وسلّم کے پاؤں کانشان بھی دکھاتا ہے۔ ہر چیز جو وہ دکھا رہا ہے، ایک منٹ کے لیے سکرین پر فوکس کی جاتی ہے۔ پس منظر میں قرآن کی تلاوت اور نعتیہ اور حمدیہ موسیقی کا آڈیو مونتاج ہے۔ سینما ہال میں نعرۂ تکبیر اور نعرۂ رسالت اور نعرۂ حیدری گونجتے ہیں۔ ہال کے تمام دروازے اس خاص سیکوئنس کے دوران کھول دیے جاتے ہیں تاکہ سینما ہال کے ارد گرد بزنس کرنے والے عام غریب عوام مقدس محفوظات کی زیارت کے لیے ہال کے اندر داخل ہو سکے۔ یہ رعایت نمائش کے دوران تینوں شوز میں اس خاص Footage کے لیے سینما کے مالکان کی طرف سے پورے سرکٹ میں مقدس فریضے کے تحت نوازی گئی تھی۔
جب زیرک خان وہ تمام محفوظات دیکھ لیتا ہے تو اُس کا دل موم ہو جاتا ہے اور وہ بھول جاتا ہے کہ وہ تو جیوا کا سر لینے آیا تھا۔ لہٰذا وہ ٹرانسفارم ہو جاتا ہے اور اُس کی جیوا سے دوستی ہو جاتی ہے۔ اگلے ہی سین میں اداکارہ ریشم اور اداکار بابر علی کا ایک بہت ہی Erotic Dance ہے جو وہ ترکی کے ایک ڈسکو ٹیک میں کر رہے ہیں۔ ریشم نے مختصر سکرٹ پہن رکھا ہے اور کیمرہ اسے نیچے سے ایکسپوز کر رہا ہے اور اس کی برہنہ رانیں اور زیرجامہ آڈئینس کو دکھایا جا رہا ہے۔ اگلے ہی لمحے اُس کے مختصر بلاؤز کا کھلا گلا اُس کے کلیوج (Cleaveage) کو ایکسپوز کر رہا ہے۔
وہ آڈئینس جس نے تھوڑی دیر پہلے نعرۂ تکبیر، نعرۂ رسالت اور نعرۂ حیدری لگاتے ہوئے اپنے جوش اور جذبے کا شدید مظاہرہ کیا تھا، اب سیٹیاں بجا کر اور فرسٹریشن سے بھرپور سرد آہیں بھر کے ان اشتہا پرور مناظر پر اپنا فیڈ بیک Express کر رہی ہے۔
ایک ہی نشست میں انسانی جذبات کی Commodification کی اتنی خوبصورت اور جامع مثال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ فلم ’’جیوا‘‘ کو دیکھنا شاید اتنا بڑا تجربہ نہیں جتنا اُسے دیکھنے والوں کو فلم کے دوران غور سے دیکھنا ہے۔
ایورنیو پروڈکشنز کے عظیم بینر تلے حب الوطنی کے موضوع پر دو بڑی پروڈکشنز گزشتہ چند سالوں میں سامنے آئیں۔ ایک ’’گھر کب آؤ گے‘‘ اور دوسری ’’تیرے پیار میں۔۔۔‘‘ دونوں فلمیں نظرےۂ پاکستان اور استحکامِ پاکستان کے موضوعات کے حوالے سے خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اور مزے کی بات ہے کہ دونوں فلموں کی کوریاگرافی بھارت کی کوریاگرافرز سے کروائی گئی۔ گانوں کی Musical Arrangement اور ریکارڈنگ بھارتی موسیقاروں کی نگرانی میں ہوئی۔ گانوں میں آوازیں بھارتی فلمی گلوکاروں کی تھیں اور فلم کے بیشتر Shots اور Sequences بھارتی فلموں سے Inspiredتھے۔ فلم بینوں کو تھوڑی دیر کے لیے یہی لگتا ہے جیسے وہ بڑی سکرین پر بھارتی فلم دیکھ رہے ہیں جو بھارت کے ہی خلاف ہے۔ اسی وجہ سے ان دونوں فلموں نے بے انتہا کامیابی حاصل کی۔ ’’گھر کب آؤ گے‘‘ کا ٹائٹل تو یوں بھی بھارتی فلم کے ہی ایک گانے سے مستعار لیا گیا ہے، جو انڈیا کے سیاسی نظریات کی حمایت میں بنائی گئی تھی۔ کشمیر کے بیک ڈراپ پر ایک اور اہم فلم ’’مسلمان‘‘ بھی قابلِ ذکر ہے، جس میں شروع سے لے کر آخر تک اسی بات کو پروجیکٹ کیا گیا ہے کہ کشمیر کے مجاہدین چونکہ مسلمان ہیں اسی لیے جان کی بازی لگا دینے پر ہر وقت تیار رہتے ہیں، یعنی خودکش حملے پر تیار ہونے کے لیے کسی بھی شخص کا مسلمان ہونا ہی کافی ہے۔ فلم میں جگہ جگہ مائیں اپنے کم سن بچوں کی شہادت پر حوصلہ افزائی دے رہی ہیں اور فلم کے کلائمکس میں فلم کا ہیرو، اداکار شان، اپنے سینے پر بم باندھ کر خودکش حملہ کرتا ہے۔ فلم کا تھیم سانگ ہی کچھ اس طرح کا ہے:
ڈرتے نہیں ہم موت سے ہم ہیں مسلمان
بم باندھ کے جسموں سے دیتے ہیں نذرانۂ جان
ہدایتکار اقبال کشمیری کی اس فلم نے بھی بہت بزنس کیا اور عوام سے بے انتہا پذیرائی حاصل کی۔
جہاد کے جذبے کو اُبھارنے کے موضوع پر سب سے زیادہ کامیاب ہونے والی اور قابلِ ذکر فلم ’’موسیٰ خان‘‘ ہے جو ماضی کے معروف فل رائٹر اور ہدایتکار و فلمساز ریاض شاہد کے فرزند اداکار و ہدایتکار شان کی ہدایتکاری کا بہت نمایاں کارنامہ ہے۔
موسیٰ خان کی لوکیشن اور پیریڈ بالکل واضح نہیں ہے اس لیے کہ اس میں ایک ایسا علاقہ دکھایا گیا ہے جہاں سعودی عرب کے مسلمان اور بھارت کے ہندو ایک ساتھ رہتے ہیں جو شاید کفارِ مکہ کی نمائندگی کر رہے ہیں اور اسی علاقے میں ویسٹرن کاؤبوائز بھی ہیں جن کی جیبوں میں بھرے پستول ہیں اور وہ گھوڑوں پر سواری کرتے ہیں۔ ویسٹرن کنٹری سائڈ کے شراب خانے اور سنوکر کلب بھی اسی لوکیشن میں ہیں اور مسلمانوں کی مسجدیں بھی یہیں ہیں۔ ہندوؤں کے پاس کلاشنکوفیں ہیں اور مسلمانوں کے ہاتھوں میں تسبیح ہے جو آسمان میں اُچھلتی ہے تو تلوار بن کر واپس مسلمان کے ہاتھ میں آ جاتی ہے۔ ہندوؤں کی کلاشنکوف میں سے جب گولیاں نکلتی ہیں تو وہ مسلمانوں کے سینوں میں اترنے کی بجائے فضا میں ہی ٹکرا کر واپس پلٹ جاتی ہیں۔ فلم کی ہیروئین اداکارہ صائمہ، جو مسلمان لڑکی ہے، سنوکر کلب میں نیم برہنہ لباس میں مغربی دھن پر مغربی انداز کا نہایت سیکسی رقص بھی کر سکتی ہے اور وقت پڑنے پر اپنے ہیرو ’’شان‘‘ کے اندر کا مسلمان بیدار کرنے کے لیے قرآن کی آیات کی تلاوت بھی کر لیتی ہے۔ ’’موسیٰ خان‘‘ نے اداکار شان کو اداکاری اور ہدایتکاری میں آئندہ آنے والے کئی سالوں تک کے لیے انڈسٹری کا مصروف ترین فنکار بنا دیا ہے اور فلم نے ریکارڈ توڑ بزنس کیا ہے۔ عوام سے اسے بے انتہا پذیرائی ملی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اداکار اور ہدایتکار شان نے فلم بناتے وقت کہانی کے پیریڈ اور لوکیشن کا خیال نہیں رکھا ہو گا۔ وہ اداکار شان، جس نے خالص رومانی اور سوشل میوزیکل فلم ’’مجھے چاند چاہیے۔۔۔‘‘ بھی بنائی اور خوب داد پائی اور جس میں لوکیشن اور پیریڈ کا خاص طور پر بہت خیال رکھا گیا۔ کیا فلم ’’جیوا‘‘ کے سیّد نور نے ہمیشہ مقدس مقامات اور محفوظات دکھا کر کامیابی حاصل کی۔ اُن کی شہرہ آفاق فلم ’’چوڑیاں‘‘ میں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا، وہ ایک سافٹ اور رومانی میوزیکل فلم تھی جس نے پنجابی فلم کے سٹائل کو بدل کر رکھ دیا۔۔۔ ہدایتکارہ شمیم آراء کے کریڈٹ پر لاتعداد ہلکی بھلی تفریحی اور میوزیکل فلموں کی فہرست ہے جنہوں نے بزنس کے ریکارڈ توڑ دیے۔ مشرقی روایات کے حق میں خالص پاکستانی موضوع پر اُن کی بنائی ہوئی فلم ’’پلے بوائے‘‘ نے بھی کامیابی کے اَن مٹ نقوش چھوڑے تھے۔
اقبال کشمیری، سیّد نور، شمیم آراء، شان، شہزاد گل اور ایسے تمام ہدایتکار اور فلمساز جو مارکیٹ میں وقتاً فوقتاً مذہبی جذباتیت پر مبنی فلمیں لے کر آتے ہیں، ایسی فلمیں بھی بنا لیتے ہیں جن میں جذبۂ حب الوطنی، نظرےۂ پاکستان اور استحکامِ پاکستان جیسے حسّاس موضوعات کو نہایت پختگی، احتیاط اور فنکارانہ مہارت کے ساتھ ہینڈل کیا جاتا ہے۔ جس طرح ’’پرویز ملک‘‘ بطور ہدایتکار اور فلمساز ایک ایسا نام ہے جس نے ہمیشہ اپنی رومانی اور میوزیکل فلموں میں پاکستانیت کے وقار کو ملحوظِ خاطر رکھا۔ ’’کامیابی‘‘ اور ’’غریبوں کا بادشاہ‘‘ اس ضمن میں قابلِ ذکر مثالیں ہیں۔ اسی طرح نذر الاسلام بھی جو رومانی فلموں کے ڈائریکٹر تھے مگر اپنے کیرئیر کے آخری سالوں میں اُن کے کریڈٹ پر میڈم باوری، کالے چور اور خواہش، جیسی فلمیں خالص پاکستانیت کے حوالے سے مثالی کاوشیں ہیں۔ لہٰذا یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان ہدایتکاروں اور فلمسازوں میں مہارت، وژن، دور اندیشی اور پروفیشن کے ساتھ دیانت داری اور خلوص کی کمی نہیں۔ لیکن ایسی کون سی بات ہے جو انھیں ایسی بے تکی اور مضحکہ خیز مذہبی جذباتیت اور عقیدے کی انتہا پسندی کو Blend کر کے فلم کا پیکج پیش کرنا پڑتا ہے۔ وہ کون سے عوامل ہیں جو اِن فلم میکرز کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے بنیادی پیشہ ورانہ معیار اور ذاتی ذہانت سے پرے ہٹ کر ایسا کمرشل کارنامہ انجام دیتے ہیں۔ عوام کی یہ کونسی اکثریت ہے جو اُن سے ایسی فلموں کا مطالبہ کرتی ہے جس میں سیکس، اسلام اور بھارتی کلچر کی مہک، تینوں تضادات کا ایک ساتھ امتزاج ہو۔ فلم بینوں کی یہ کیسی نفسیات ہے اور اُن کی وہ کونسی لاشعوری خواہشات ہیں جو پردۂ سکرین پر بھارتی فلموں کا ناچ بھارتی گلوکاراؤں کی آوازوں پر Lip-Singing کرتے ہوئے اُن کے اپنے اداکار دکھائے جاتے ہیں تو اطمینان حاصل ہوتا ہے اور یہی کردار جب پردۂ سکرین پر بھارتیوں کو ہی گولی مار رہے ہوتے ہیں تو سونے پر سہاگہ جیسی کیفیت کا مزا ہوتا ہے۔ اور وہ بار بار وہی فلم دیکھنے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں، اپنی سواری پر سینما ہال تک آتے ہیں اور پہروں ٹکٹ گھروں کے سامنے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر ٹکٹ خریدتے ہیں۔
کیا یہ سجاد گل، شمیم آراء، سیّد نور اور شان کی کوئی سازش ہے؟۔۔۔ جو وہ عوام کو Exploit کر رہے ہیں اور اُن کی ادھوری خواہشات، فرسٹریشنز اور Fanticies کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، یا معاملہ اس کے برعکس ہے اور Suffer کرنے والے ہمارے یہ فلمساز اور ہدایتکار ہیں جن کا بنیادی مضمون رومانس، سوشل ڈرامہ اور میوزک ہے اور انھیں عوام کی ڈیمانڈ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں اور وہ مذہبی جذباتیت کو مزید غیر حقیقی بنا کر نہایت پُرشور انداز میں اپنی فلموں میں پروجیکٹ کرنے پر مجبور بھی ہو جاتے ہیں۔ مافوق الفطرت واقعات کی پروجیکشن مذہبی روحانیت کے زمرے میں کس نوعیت کی خوش گمانیوں کی غماز ہے، یہ بہت اہم سوال ہے۔ اس پر یہ کہ یہ عوامی مطالبہ گزشتہ دس بارہ سالوں سے ہی کیونکر زور پکڑتا جا رہا تھا اور فلمسازوں کی توجہ کھینچ رہا ہے، جبکہ فلموں کا معیار دوسری بہت سی وجوہات کی بنا پر تنزل کی جانب رواں تھا، اُس پر اِس بوجھ کو سہارنے کے لائق بھی نہیں تھا۔ تو یہ طے ہے کہ گزشتہ دہائی میں پاکستانی عوام کی ایک خاص سائکی ڈویلپ ہوئی جو ایک ایسے اُلجھاؤ کا مظاہرہ کر رہی ہے کہ وہ اپنی شناخت اور اصلیت کو پہچاننے سے معذور ہو رہے ہیں اور سخت Confusion کا شکار ہیں۔ آشا بھوسلے کی آواز پر نجمہ ملتانی کا کریڈٹ دیکھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ اس خودساختہ فکری فریب میں اپنی مرضی سے گرفتار ہو کر سکون اور سرور پاتے ہیں۔ ایمان کو خطرے میں نہیں دیکھتے اور احساسِ تحفظ سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اسے کسی قوم کی اجتماعی فکری خودکشی یعنی Collective Intellectual Suiside نہ کہیں گے تو اور کیا کہیں گے۔ اس تاریخی جائزے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ گزشتہ پانچ دہائیوں میں نظرےۂ پاکستان بدلتے بدلتے نوّے کی دہائی تک کس نوعیت کی نفسیات پاکستان کا روپ دھار گیا ہے، اس کچومر سلاد کی بنیادی غذائیت کا پتہ لگانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ البتہ اس کی لذتیں اپنی تمام تر Verities اور Diversifications سمیت ہر پاکستانی کی زبان پر ہیں۔ یہ بحث کہ ’’نظرےۂ پاکستان‘‘ نام کی کوئی حقیقت تخلیقِ پاکستان کی وجوہات میں سے تھی بھی کہ نہیں اور اگر کوئی ’’نظرےۂ پاکستان تھا بھی تو وہ دراصل کیا تھا اور بعد میں کیا بن گیا۔ قائداعظم کی ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر، جو انھوں نے قانون ساز اسمبلی کے سامنے کی تھی، کی روشنی میں ابھی تک کسی خاطرخواہ نتیجے پر پہنچی نہیں، اپنی جگہ ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے۔
ایسے میں کسی قوم کے وزڈم کا کھو جانا حیرت کی بات نہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت کی کسی بھی فلم کو اُٹھا کر دیکھ لیجیے، قطع نظر اس کے کہ وہ کس معیار کی فلم ہے، لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عوام کے Tastes اور Fanticies کیا ہیں اور انھیں اپنا ثقافتی ٹارگٹ کتنا واضح ہے، مگر ہماری حسیات اور جمالیات جس پیکج سے محظوظ ہوتی ہیں وہ ہمارے نارمل ہونے کو مشکوک کر دیتا ہے۔
جب کسی معاشرے کا مؤقف superficiality کی انتہاؤں تک پہنچ کر گم ہو جائے تو اُس کی بے سمتی کا تعیّن کرنا بھی مشکل نہیں۔ Perceptions اور Beliefs کے حوالے سے ہم ڈبل سٹینڈرڈ سے بھی بہت آگے ملٹی سٹینڈرڈ کی حدوں کو چھو رہے ہیں اور یہ صورتِ حال بہت الارمنگ ہے۔
زخمی کون ہے؟۔۔۔ اور مسیحائی کون کر رہا ہے؟۔۔۔ فلم ساز یا فلم بین؟
یا پھر ایسا ہے کہ دکھ دونوں کا ایک ہی ہے۔
A very insightful article on filmography Urfi has beautifully juxtaposed diffrent perspectives plus a pungent satire thar is peculiar only to him..