پاکستان کی تقدیر ضرور بدلے گی
(حر ثقلین )
پاناما وسطی امریکہ کا ایک چھوٹا ساملک ہے۔اس ملک کی وجہ شہرت بحر اوقیانوس اور بحرالکاہل کو ملانے والی مشہور اور تاریخی نہر ہے جسے پاناما نہر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔یہ نہر انجینئرنگ کے منصوبہ جات کی تاریخ کا سب سے بڑا اور مشکل ترین منصوبہ تھا۔اس منصوبہ کو فرانس نے 1880میں شروع کیا اور بعد میں امریکہ نے اسے مکمل کر کے 1914میں جہازرانی کے لیے کھول دیا۔77کلومیٹر اس طویل نہر نے اپنی تعمیر مکمل ہونے تک 27ہزار سے زائد مزدوروں کی جان لی۔پانامہ نہردنیا کے اہم ترین بحری راستوں میں سے ایک ہے جہاں سے ہر سال 14ہزارسے زائد بحری جہاز گزرتے ہیں۔اپریل 2016میں پاناما ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ۔انکشافات کی تاریخ کا سب سے بڑا انکشاف پاناما پیپرز کے نام سے سامنے آیا۔یہ دستاویزات پاناما کی ایک لاء فرم موساک فونسیکاسے افشاء ہوئیں اور ان کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہیں۔ان میں دو لاکھ چودہ ہزار افراد،کمپنیوں،ٹرسٹ اور فاؤنڈیشنز کا ذکر ہیں جنہوں نے ٹیکس بچا کر اور منی لانڈرنگ کر کے اپنی دولت کو چھپایا ہے۔ان دستاویزات میں دنیا کے کئی سابق اور موجودہ حکمرانوں کے نام بھی شامل ہیں۔ ان حکمرانوں پر الزام بھی رہا ہے کہ انہیں نے اپنی ناجائز دولت کو اپنے ملکوں سے باہر منتقل کیا ہے اور اپنے اثاثوں کو چھپایا ہے۔مہذب اور جمہوری ملکوں کے موجود سربراہوں نے مستعفی ہونے میں ہی خیریت جانی جبکہ بادشاہت اور کیمونسٹ ملکوں کے حکمران اسے خاطر میں نہ لائے۔
پاکستان میں صورتِ حال بڑی دلچسپ رہی۔ یہاں کے حکمران خاندان کا نام بھی ان پیپرز میں شامل ہے۔جب ان پیپرز کی شہرت پاکستان میں پہنچی تو صدرِ پاکستان نے 14مئی2016کو کوٹری سندھ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ پانامالیکس کا معاملہ قدرت کی طرف سے اٹھا ہے۔اس کی وجہ سے کئی معاملات مزید اٹھیں گے۔بہت سے لوگ جو سکون سے بیٹھے ہیں کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا وہ سب کے سب پکڑ میں آئیں گے۔جو غیر معمولی بد عنوان ہوتے ہیں ان کے چہروں پر نحوست ٹپک رہی ہوتی ہے۔کرپٹ اور بد عنوان لوگوں کو ٹھیک ہو جانا چاہیے اگر نہ ہوں تو انہیں سسٹم سے اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہیے۔اس ملک میں ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔محترم صدر نے مزید کہا تھا کہ آپ دیکھیں گے کہ کوئی امر دو ماہ بعد کوئی چار ماہ بعد کوئی چھ ماہ بعد اور کوئی سال باد وقوع پزیر ہو گا۔اس ملک کو جتنا خراب ہونا تھا وہ خراب ہو چکا اب اس ملک کو ٹھیک ہونا ہے۔صدر نے پاکستانیوں سے کہا تھا کہ آپ کو حق بات مضبوط اور زوردار انداز میں کرنی چاہیے۔اگر آپ کسی کرپٹ کو جانتے ہیں تو اسے درست راستے پر چلنے کی نصیحت کریں اگر وہ نہیں مانتا تو اس سے نفرت کریں اور اس کا بائیکاٹ کریں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنابِ صدر کے خیالات عملی تصویر میں ڈھلتے چلے گے۔ پاکستانی قوم نے کرپشن کے خلاف آواز کو بلند کیا۔ عمران خان نے حکمرانوں کو گھیر کر سپریم کورٹ میں لا کر کھڑا کر دیا۔یہاں حکمران خاندان نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کافی ہاتھ پاؤں مارے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ہی چالوں میں پھنستے چلے گے۔سپریم کورٹ کے فیصلے نے انھیں بند گلی میں داخل کر دیا ہے۔پانچ میں سے کسی بھی جج نے انھیں صادق اور امین نہیں قرار دیا ۔جس جے آئی ٹی کو بنانے کاعدالت نے حکم دیا ہے اس کے امور کی نگرانی بھی اسی معزز عدلیہ نے کرنی ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے کے ابتدائیہ میں حکمران خاندان کو مافیہ خاندان کے ساتھ تشبیہ دے کر ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔اپوزیشن وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے۔مسلم لیگ ن اس وقت شدید دباؤ میں ہے۔لوگ اب ان کوناپسند کرنے لگے ہیں۔لاہور میں کھیلوں کی ایک تقریب میں وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کونوجوانوں نے خطاب نہ کرنے دیا اور انھیں تقریب سے جانے پر مجبور کر دیا۔پاکستانی نوجوانوں نے صدرِ پاکستان کی اس نصیحت کو پلے باندھ لیا ہے کہ بدعنوان لوگوں سے نفرت کریں اور ان کا بائیکاٹ کریں۔
پاکستانیوں کو پاناما فیصلے سے کافی امیدیں وابستہ تھیں ۔اس فیصلے پر کافی بحث ہو رہی ہے مگر یہ بات درست ہے کہ اس فیصلے نے پاکستان کو مثبت تبدیلی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ جو لوگ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں کرپٹ افراد قانون کی گرفت میں نہیں آسکتے وہ اب دھیرے دھیرے اس گرفت میں آنا شروع ہو گے ہیں ۔عمران خان نے آصف علی زرداری کو بھی للکارا ہے۔عدلیہ بھی متحرک ہو رہی ہے۔پہلی بار عوام اور عدلیہ ایک پیج پر ہیں۔عدلیہ اپنا کام کر رہی ہے ۔پاکستانی قوم کو بھی اپنا کردار درست کرنا ہو گا ۔خود کو کرپٹ سیاستدانوں اور لیڈروں سے الگ کرنا ہو گا۔بدعنوانوں سے نفرت کرنا ہو گی۔لفظ پاناما کی ایک تاریخی حیثیت ہے ۔ہو سکتا ہے کہ یہ لفظ پاکستانیوں کے لیے بھی مبارک ثابت ہو ایک جدوجہد کے بعد انھیں بھی کرپشن سے نجات ملے۔پاکستان میں کچھ لوگ جلد باز اور جذباتی ہیں ان کی توقع تھی کہ پاناما کیس فیصلے میں بہت کچھ ایک دم ہو جائے گا مگر اانھیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستانیوں نے جو سفر کرپشن کے خلاف شروع کیا ہے وہ سست روی کا شکار ضرور ہے مگر بقول علامہ اقبال
تیز تر گامزن منزلِ ما دور نیست
اب امید ہو چلی ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ جب یہ ملک کرپشن سے مکمل پاک ہو گا۔اب یقین ہو چلا ہے کہ پاکستان کی تقدیر ضرور بدلے گی۔