چترال : محبت اورنفرت
(اورنگ زیب نیازی)
دیر زیریں سے لواری ٹاپ تک کا دشوار سفر اس قدر تھکا دینے والا ہے کہ آپ کی آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں۔دوسری طرف ستاون دشوار مڑنے کے بعد آپ چترال کی حیرت زا وادی میں اترتے ہیں تو آنکھیں ایسے کھلتی ہیں کہ کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں جیسے آپ فردوس بریں میں داخل ہو چکے ہیں۔دنیا میں بہت جگہیں بہت خوب صور ت ہیں۔مگر چترال میں ایک عجیب بات ہے۔ہر چار قدم کے بعد آپ رک کر چاروں طرف دیکھیں،چار مختلف نظارے ہوں گے۔جتنے موسم اتنے رنگ۔آٹھوں پہر آٹھ منظر۔شام کے بعد آپ درش سے چترال ٹاؤں کی طرف چلیں،ایون کے مقام پر کسی بلند جگہ سڑک کنارے ایک لمحے کو رکیں۔سامنے دریا کے پار جلتی بجھتی بتیاں جیسے جگنوؤں کے غول بلندی کی طرف جا رہے ہیں۔برف باری کے موسم میں،منفی سولہ ڈگری پر تازہ،قدرتی گرم پانی۔۔۔یہ گرم چشمہ ہے۔ ادھرشندور ہے ،جہاں ہزاروں فٹ کی بلندی پر دنیا کا سب سے بلند پولو گراؤنڈ ہے۔بونی روڈ پر رشین آتا ہے۔یہاں سب کچھ سرخ ہے۔مٹی کے پہاڑ سرخ ہیں،دکانیں ،مکان،کھیت سرخ ہیں۔یہاں سے آگے بونی قصبہ سے تھوڑا پہلے بائیں طرف ایک تنگ دشوار راستے سے گزر کر سیکڑوں فٹ کی بلندی پر ایک وسیع و عریض میدان ۔۔۔تا حد نگاہ سبزہ ہی سبزہ۔۔چاروں طرف چمکتی ہوئی برف پوش چوٹیاں۔۔گویا ردائے سبز پر کسی نے ہیرے رکھ دیے ہیں۔۔۔یہ قاقلشٹ ہے۔ کالاش کی تین چھوٹی وادیوں میں ہزاروں سالہ قدیم تہذیب تغیرات زمانہ سے بے پروا اپنے اصل رنگ میں اپنے قدموں پر جم کر کھڑی ہے۔چترال میں میرا اولین شاگرد بل کہ دوست نما شاگرد رحمت حنیف رہتا ہے،کھوار زبان کا شاعر میرا دوست سعادت مخفی رہتا ہے،اور فراخ دل پروفیسر شفیق احمد رہتا ہے،جس کی دوستی میرا سرمایہء ناز ہے۔اس لیے مجھے چترال سے عشق ہے۔کار جہاں دراز سہی مگر عشق چترال لے جاتا ہے۔کسی نے شرافت،سیادت،ملنساری،مہمان نوازی اور خوش اخلاقی کو مجسم دیکھنا ہے تو چترال جائے۔پاکستان میں سب سے زیادہ شرح خواندگی چترال میں ہے،یہاں اسی فی صد سے زاید لوگ خواندہ ہیں۔سارا سال مختلف حصوں میں جشن منائے جاتے ہیں،لوگ موسیقی اور شاعری کے دلدادہ ہیں۔چترال کے بازار میں کوئی خاتون برقعے میں جائے یا جینز میں کوئی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتا،نہ غصے سے نہ ہوس سے،انھیں جیسے کوئی سروکار ہی نہیں۔ یہ لوگ سیاسی طور پر بالغ نظر اور آزاد رائے ہیں۔چترال میں ایک سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔یہاں ایک سے زیادہ مذاہب اور مسالک کے لوگ بستے ہیں۔بڑی تعداد میں آغا خانی ہیں،کافرستان کے کافر ہیں لیکن کبھی کسی نے مذہب،مسلک اور زبان کی بنیاد پر کسی پر انگلی نہیں اُٹھائی۔۲۰۰۳ء میں رحمت حنیف نے بتایا تھا،یہاں کے کسی تھانے میں قتل کا کوئی مقدمہ کبھی درج نہیں ہوا۔۲۰۱۵ء میں پروفیسر شفیق سے میں نے پوچھا تو اس نے سر جھکا کر قدرے شرمندگی سے کہا،اب تین چار ایسے کیسز سامنے آچکے ہیں۔چترال کے لوگوں کے مزاج کو مزیدسمجھنے کے لیے یہ دو واقعات معاون ہوں گے:
۱۔رات جب مقامی موسیقی کی نجی محفل جوبن پر پہنچی تو ہمارے میزبان چچا بھتیجے نے مسکرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔چچا نے بھتیجے کی منشا جان کر کہا ،جا فریج سے نکال لا،بھتیجا ایک کے بجائے دو بوتلیں اُٹھا لایا۔
۲۔ہم نے رات شندور میں گزاری،صبح چترال اور گلگت کے پولو میچ کا فائنل تھا۔میچ عصر سے ذرا پہلے ختم ہوا۔میچ ختم ہوتے ہی لوگ اپنی گاڑیوں کی طرف لپکے،گلیشیر پگھلنے سے پہلے اس علاقے سے نکلنا ضروری ہے،ورنہ یخ بستہ رات راستے میں گزارنی پڑتی ہے۔ہماری گاڑی نے کافی فاصلہ طے کر لیا تو یاد آیا ہم اپنا کیمرہ اس موٹر سائیکل پر رکھ کے بھول آئے ہیں جو ہماری گاڑی کے ساتھ کھڑی تھی،تب سمارٹ فون اور ڈیجیٹل کیمرے عام نہ تھے،ہمارے پاس ریل والا سادہ کیمرہ تھا جس میں اس سفر کی ساری روداد محفوظ تھی۔راستہ اتنا تنگ کہ مشکل سے ایک گاڑی گزر سکتی ہے،پیچھے میلے سے واپس آنے والی گاڑیوں کی لمبی قطار،یہاں سے گاڑی موڑنے کو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا،سو کفِ افسوس ملتے رہ گئے،پہاڑوں سے کافی نیچے سڑک کنارے ایک ہوٹل پر چائے کے لیے رک گئے۔شام ہو چکی تھی،تھوڑی دیر بعد ایک موٹر سائیکل ہمارے پاس آکر رکی۔دھول میں اٹا ایک شخص اترا اور کہا کئی گھنٹے سے موٹر سائیکل پر آپ کو ڈھونڈتا آ رہا ہوں،آپ کا کیمرہ میری موٹر سائیکل پر رہ گیا تھا۔میں نے دور سے دیکھ لیا تھا مگر آپ کی گاڑی نکل آئی،گھر تو میرا بہت پیچھے ہے لیکن سوچا آپ پریشان ہوں گے،شکر ہے آپ یہاں مل گئے۔
اس سیاق و سباق میں چترال سے آنے والی حالیہ خبر نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔مذہبی شدت پسندی اور مذہب بے زار شدت پسندی کی آگ نے اس جنت نظیر کو بھی نہیں چھوڑا۔ہجوم نے توہین مذہب کرنے والے شخص کے ساتھ اس امام مسجد کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جس نے اس شخص کو بچانے کے لیے پولیس کو اطلاع دی تھی۔توہین مذہب کرنے والا شخص مبینہ طور پر پاگل ہے،مبینہ طور پر کیا،ایک سو دس فی صد پاگل ہے ورنہ کوئی ہوش مند کسی بھی مذہب کی توہین نہیں کرسکتا۔ناچیز نے انھی صفحات پر بار ہا گزارش کی ہے کہ بے شک مذہب آپ کا انفرادی اور ذاتی معاملہ ہے،آپ کسی بھی مذہب سے کلی یا جزوی طور پر اختلاف کا حق رکھتے ہیں لیکن کسی مذہب کی سر عام توہین کا حق آپ کسی صورت بھی حاصل نہیں۔اسی خبر میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر چترال جیسے خطے کے نرم مزاج اور پر امن لوگ اپنے مذہب کی توہین برداشت نہیں کر سکتے تو پھر کم از کم پاکستان میں تو کسی جگہ کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔یقیناََ یہ عفریت الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے کاندھوں پر سوار ہو کر یہاں پہنچا ہے۔چتراال کا سب سے بڑا مسئلہ لواری ٹنل کی تعمیر ہے جس کے مکمل نہ ہونے کے سبب یہ ضلع سردیوں کاپورا موسم باقی پاکستان سے کٹ جاتا ہے۔میری یہ بات میرے دوست پروفیسر شفیق کو بہت بری لگی تھی جب میں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں لواری ٹنل کبھی نہ بنے۔شفیق نے بہت ناراضی سے میری طرف دیکھا تھا۔میں نے کہا ،سیاحوں کی گاڑیوں اور ساز و سامان کے ٹرکوں کے ساتھ نفرت،تعصب،منافرت اور جھوٹ بھی چلا آئے گا۔اللہ آپ کو ان بلاؤں سے محفوظ رکھے۔