نادر یافتہ فردا نژاد: کلیات آفتاب اقبال شمیم
از، سعید احمد
آفتاب اقبال شمیم کی نظم نو دریافت کردہ ہیئت کی داخلی ساخت پرت در پرت پھیلے بسیط متن، منفرد و نامانوس لفظی و معنوی کیفیات، انفرادی و اجتماعی زندگی کی داخلی و خارجی حوالوں سے تصویر کشی کرتے ہوئے عصری آگہی کے آئینے میں ایک ایسے وجودی ویژن کا اظہار یہ ہے جو جدید اردو نظم کی تاریخ میں ایک لا ثانی روایت کا نقطۂ آغاز ہے۔ یہ فردا نژاد روایت اپنی انتہاؤں کو پہنچ کر بھی گم سمندر کی مثال نادریافتہ ہے جس کا سبب مروج پیمانوں سے وضع کردہ معیارات کی اندھی تقلید کے سوا کچھ نہیں۔ آفتاب اقبال شمیم نظم کے تخلیقی انہماک میں عمر بسر کرنے والے ایک اصیل شاعر ہیں انھوں نے نظم نگاری کا آغاز اس وقت کیا جب ادب میں ترقی پسندی کی روایت غیر فعال ہورہی تھی جب کہ حلقہ ارباب ذوق کی جدیدیت کے تسلسل میں نئی نظم کا غلغلہ عروج پر تھا۔ آفتاب اقبال شمیم نے ان تینوں دھاروں کے تخلیقی انجذاب کے باوجود اس قدر منفرد آغاز کیا کہ ’’ادبی دنیا‘‘ میں ان کی پہلی نظم’’ ستمبر کا شہر‘‘ کی اشاعت پر ڈاکٹر وزیر آغا کو کہنا پڑا کہ ’’بہت سے اہم شاعر جہاں اپنے ادبی سفر کا اختتام کرتے ہیں آفتاب اقبال شمیم نے وہاں سے آغاز کیا ہے۔‘‘
ادبی سفر کے ایسے پرشکوہ آغاز کی انتہا’’نادریافتہ ‘‘ ہے لیکن آفتاب اقبال شمیم کے تخلیقی وفور میں ابھی کوئی کمی نہیں آئی جس کا ثبوت اس کلیات میں شامل ان کا غیر مطبوعہ مجموعہ’’ممنوعہ مسافتیں‘‘ ہے۔ تقریباً ۱۱۰۰صفحات کو محیط یہ ضخیم کلیات آفتاب اقبال شمیم کے تخلیقی وفور ہی کی گواہی نہیں ہے بلکہ اعلیٰ فنی و فکری معیار کی حامل ایک ایسی ادبی دستاویز ہے جس کی مثال آزاد نظم کی تاریخ میں موجود نہیں۔ آزاد نظم کے ساتھ ان کی محبت کا یہ عالم ہے کہ لگ بھگ ۴۵۰ نظموں میں انھوں نے کہیں بھی پابند ہیئت کا سہار ا نہیں لیا یہاں تک کہ جزوی طور پر بھی کہیں پابند یا معرئ نظم کا کوئی ٹکڑا ان نظموں میں شامل نظر نہیں آتا۔ یہ اختصاص ان کے انتہائی غیر روایتی شاعر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے باوجود روایت کے ساتھ ان کا سلوگ نئی نظم کے شاعروں سے مختلف ہے جو روایت کے مکمل انقطاع کے داعی تھے۔
آفتاب اقبال شمیم نے روایت کے تخلیقی انجذاب کو اہمیت دی ہے لیکن روایتی ہیئتوں، لفظیات اور تکنیکوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ تقریباً تمام نظمیں Run on lineکی تکنیک میں ہیں۔ جس میں شعور کی رو، داخلی خود کلامی، مکالمہ، کولاژ، اساطیری علامات و استعارات، عصری آگہی کی حامل مثالیں اور شعریت سے بھر پور نثری آہنگ ان کے منفرد اسلوب کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آفتاب اقبال شمیم کی نظموں میں تنوع نظم کی داخلی ساخت کے ساتھ نوع بہ نوع تجربات و احساسات کے بیان سے پیدا ہوتا ہے ۔ منفرد احساسات کے اظہار کے لیے وہ عموماً ایسی لفظیات کا انتخاب کرتے ہیں جو آزاد نظم کی روایت سے آگاہ قاری کے لیے بھی نامانوس ہیں ان نظموں کا یہی انفراد قاری اور متن کے درمیان ایک ایسی دھند پیدا کرتا ہے جو ابہام کا باعث بنتی ہے حالانکہ ان نظموں کے طلسم کدے کا در ایک بار تلاش کر لینے کے بعد ابہام تحلیل ہوکر فنی حسن کاری کا نمونہ نظر آتا ہے۔ ان نظموں کی قرأت اور تفہیم میں اگر کوئی مشکل ہے تو یہ کہ آفتاب اقبال شمیم اپنے اظہار کے لیے جو اسلوب اختیار کرتے ہیں وہ قاری کی تربیت کے منطقے سے باہر ہے ۔ خصوصاً طویل نظموں میں ان کے تجربات کی بے پایاں وسعت اور تنوع ، عصری آگہی، تاریخی شعور، فلسفیانہ تصورات اور جدید علمی اکتشافات جذبات و احساسات میں آمیخت ہوکر ایک ایسے بسیط اور دبازت کے حامل متن کی تشکیل کرتے ہیں جس کا تجربہ جدید اردو نظم کے قاری کو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا ۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی مصور کائناتی کینوس پر ایک ایسا میورال بنانے میں مصروف ہے جو استفہامیہ رنگوں کا لامتناہی سلسلہ ہے۔ جس کا نمایاں ترین رنگ اس بنیادی سوال سے عبارت ہے کہ وقت، عناصر اور تاریخ کا تیار شدہ پیکر اپنی اصل میں کیا ہے؟ آفتاب اقبال شمیم اس سوال کا جواب کسی مابعدالطبیعاتی نظام میں تلاش کرنے کی بجائے اسے انسانی محرومیوں اور نارسائیوں کے آئینے میں زندگی کے فہم سے حاصل ہونے والی روشنی میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یوں ان کی نظموں میں زمان و مکاں کی قید میں تینوں زمانوں کو کھوجتے ہوئے ایک ایسے انسان کا تصور اجاگر ہوتا ہے جو بیک وقت حال کی نارسائیوں سے آگاہ ، ماضی کی کرب انگیزی کا گواہ ہونے کے باوجود امیدا فزا خواب فردا اپنی نگاہ میں رکھتا ہے۔ یہ خواب فردامحض موجود منظر نامے کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھال لینے سے کچھ زیادہ یعنی کسی دائمی ساعت کے بے پایاں سکون کی تلاش کا نام ہے۔ لیکن انسانی فہم و نارسائی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا یہ شخص اس دکھ کا بھی شکار ہے کہ وقت کے جبر سے نکل کر بھی کہیں اس کا واسطہ کسی خلا ہی سے نہ پڑے۔ اس تاریک زنداں سے پرلے بھی کوئی واہمہ یا سراب ہی اس کا منتظر نہ ہو۔ یہی Existential depression اس کے ہونے کی سزا ہے۔ زندگی کے راز کی یہ کھوج اسے اس کرہ ارض پر اجنبی بنا گئی ہے ایک ایسا اجنبی جواپنے جیسے لوگوں میں اپنے تصورات کی آگہی کی بنا پر تنہا ہے لیکن سمجھتا ہے کہ وہ محض ایک وجود تنہا نہیں ہے بلکہ انسانی وجود یا فرد کی تنہائی کی علامت ہے جو وجودی سطح پر انسانی شعور کی بلندی اور انسانی جبلت کی گہرائی سے عبارت ہے۔ آفتاب اقبال شمیم اس گھمبیر تنہائی میں ایک ایسے کردار زید کی تخلیق کرتے ہیں جو ان کا ہمزاد یا ضمیر نہیں بلکہ ان کی اصل ہے۔ جو زمان و مکان میں ناپید ہے اور جسے لفظ کے پنجرے میں قید کرنے کے لیے وہ زید سے طویل تخلیقی مکالمے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ زید فرد کی اصل ذات کی بازیافت کا استعارہ ہی نہیں بلکہ آفتاب اقبال شمیم کی تخلیقی تحریک کا ایک ایسا فعال کردار ہے جس کی تلاش و جستجو ان کی نظموں کی تخلیق کا سبب ہے۔ یوں زید نہ صرف ان کے تخلیقی عمل کا سرچشمہ ہے بلکہ ایک ایسا آئیڈیل بھی ہے جو ہر فرد کی ذات کا اصل اصیل بھی ہے ۔ جس کا سراغ آفتاب اقبال شمیم وجودی سطح پر لگاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وجودی کرب سے گزرتے ہوئے فرد اپنی بے پایاں صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر موجود منظر نامے میں اپنی مرضی کے رنگ بھرسکتا ہے۔ ہم اسے ایک رومان انگیز خواب قرار دے سکتے ہیں لیکن آفتاب اقبال شمیم اسے رومان میں تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں وہ شعوری سطح پر یہ خواب دیکھتے ہیں اور انسان کی بے پناہ صلاحیتوں سے پرامید ہونے کے باوجود سمجھتے ہیں کہ زندگی کے بے معنی سفر میں خود سے متصادم تنہا فرد جہاں خود سے آگے نکلنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہیں اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ وہ اپنی اصل کی تلاش میں خود سے متصادم ہونے کے عمل میں خود کو فنا کے گھاٹ بھی اتار سکتا ہے۔ ان کے ہاں یہ خوف انسانی زندگی کی صدیوں پر محیط جبر و استحصال سے بھری ہوئی تاریخ کے مطالعے سے پیدا ہوا ہے۔ یہ آگہی انھیں کسی قدر مایوس بھی کرتی ہے لیکن وہ اس کے اظہار سے خائف نہیں اسی باعث ان کی نظموں میں گہرے ہوتے ہوئے تاریک سائے بھی اتنی ہی اہمیت کے حامل ہیں جتنے روشن لمحات کی تصویر کشی کرتے ہوئے استعارے۔ کیونکہ وہ فرد کو نیک و بد کے خانوں میں بانٹ کر دیکھنے کے بجائے کلیت میں دیکھنے کے قائل ہیں زمانوں پر پھیلے استبداد و استحصال کے سامنے سپر انداز ہوتے ہوئے وہ تقدیر ، تاریخ اور لاشعور تک کے جبر سے انکاری ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انسانی ارادہ ایسی زبردست قوت ہے جو فرد کی بے مشروط آزادی کے خواب کی تکمیل کے لیے فرد کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ یوں ان کی نظمیں جہاں ایک بڑے خواب کے لیے سمت نما کی حیثیت رکھتی ہیں وہیں موجود منظر نامے اور گہرے عصری شعور کا جدید حسیت کے ساتھ معیناتی و جمالیاتی اظہار بھی ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں وہ ترقی پسند فکر سے متاثر ہونے کے باوجود اس سے الگ راستہ بناتے نظر آتے ہیں وہ ادب کے لیے عصری تقاضوں کو ضروری خیال کرنے کے باوجود فکری واسلوبیاتی سطح پر ادب کی دائمی اقدار کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے قومی و بین الاقوامی سطح پر انسان کے ساتھ پیش آنے والے جبر و محکومی کے المیے کی محض تصویر کشی ہی نہیں کی بلکہ فلسفۂ وجودیت کی روشنی میں معانی و مفاہیم کی داخلی وسعت کا اہتمام بھی کیا ہے۔ ان کی نظمیں ذاتی تجربات و مشاہدات، فکری وابستگیوں، عصر سے ورائے عصر تک پھیلے آفاقی سوالات، تاریخی تناظرات، انسان کی نفسی کیفیات اور وقت کے ساتھ بدلتی ہوئی حسیت کی طویل داستان ہیں جس کا نقطۂ آغاز ان کا پہلا مجموعہ ’’فردا نژاد‘‘ ہے جس میں ۷۸ نظمیں شامل ہیں جو فکری گہرائی، منفرد استعارہ سازی، تمثال پسندی اور دیومالائی علامتوں کے ذریعے صوری و معنوی جمالیات کی تشکیل کرتی نظر آتی ہیں ان نظموں میں شاعری کے عمومی مزاج سے ہٹ کر جذباتی انداز کو اعتدال میں رکھتے ہوئے آفتاب اقبال شمیم نے شعری مواد کو شعور کی بھٹی میں پگھلا کر پیش کیا ہے۔ فکری سطح پر اس مجموعے کی نظموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، چونکہ علامتی طرزِ اظہار میں متن کا کثیر المعنی ہونا ایک لازمی عنصر ہے،سو یہ چند موضوعاتی زاویے محض ایک اشارہ ہیں جن کی ضرورت صرف اس لیے ہے کہ اس نقش اول میں چند ایسے بنیادی حوالے موجود ہیں جو آفتاب اقبال شمیم کی ساری شاعری کو محیط ہیں، ان میں سب سے اہم عالمی سماج سے ان کی جڑت ہے۔ تیسری دنیا کے محکوم و مجبور عوام ان کے ساتھ پیش آنے والی عالمی سامراجی سازشیں اور پھر اس کے خلاف اٹھنے والی تحریکیں ان کے خصوصی سروکار ہیں۔’’ افریقہ۔ اگلے محاذ پر‘‘ اور’’ اعلان نامۂ بیروت‘‘ اس سلسلے کی اہم نظمیں ہیں۔ اس حوالے سے ملکی سطح پر سیاسی جبر کے خلاف مزاحمتی رویے کی حامل نظمیں بھی شامل کی جاسکتی ہیں جو مارشل لا کے زمانوں میں تخلیق ہوئی ہیں اور ہماری تاریخ کے ایک سیاہ باب کے خلاف سخت ردعمل کی حامل ہیں ان نظموں میں مٹی کا زنگ، مہر نیم شب(ایپی لاگ) ، میں کیاکرتا، گرتے ستون کا منظر، حبس کی خراب گاہ سے (ایک پورتاژ)، حصار سزا میں اہم ہیں لیکن فروا نژاد کی اصل پہچان وہ نظمیں ہیں جو اساطیری علامتوں میں وجودی کرب کا فکر انگیز اظہارہیں جس میں نمایاں ترین Sisyphus myth ofسے سے پیدا شدہ شعور کی روشنی میں موجود زندگی کے منظر نامے میں فرد کے داخلی احساسات کا بیان ہے ۔ سسی فس شعور کی نمائندگی کرتے عصری تلازمے فراد نژاد کے بعد کی شاعری میں بھی جابجا دکھائی دیتے ہیں اور وہ تکرار کی تکرار کرتی اس زندگی کی یکسانیت اور لایعنیت سے پیدا شدہ احساسات کو مسلسل تخلیق کے قالب میں ڈھالتے نظر آتے ہیں ۔ البتہ ایک سطح پر تکرار کا شکار زندگی کی بے معنویت کا شعور اور اس کا تخلیقی اظہار کرنے کے باوجود آفتاب اقبال شمیم اس یکسانیت اور لایعینت کا شکار ہونے کے لیے تیار نہیں یہی وجہ ہے کہ فردا نژاد ہی میں ایسی نظمیں بھی تعداد میں کم نہیں جن میں لایعینت کا شکار فرد اپنی ہی آگ میں جل کر نیا جنم لینے کی تمنا کا اقرار کرتا نظر آتا ہے۔ ہر دو حوالوں سے اس مجموعے کی اہم ترین نظموں میں(ایک مکالمہ)، سنگ بے حیا، سو ضرب صفر، زخم بینا،بے زور آور، سمے اور میں، منجمد ندی کی زنجیر، ایوری باڈی نو باڈی، اور نوعِ جسم اہم ترین ہیں۔ یوں تو اردو نظم فلسفۂ وجودیت کے اثرات سے تہی ہرگز نہیں ہے لیکن جس شعوری سطح پر آفتاب اقبال شمیم نے اس فلسفے کے اثرات کو جدید زندگی کے تجربات و احساسات سے کشید کر کے اپنی تخلیقات میں ڈھالا ہے وہ یقیناًایک منفرد اسلوب کی مثال ہے۔ دراصل آفتاب اقبال شمیم ایک ایسے منفرد نظم نگار ہیں جن کی فکری تشکیل میں زمانی وجود بنیادی واقعیت ہے۔ جو تنہائی لایعنیت اور لا حاصلی کا شکار ہونے کے باوجود ارادے کا سرمایہ ساتھ رکھتا ہے۔ جس کی بنا پر آفتاب اقبال شمیم کو انسان میں ہر طرح کے جبر کی نفی کا حوصلہ دکھائی دیتا ہے یہ نظمیں ایک سطح پر انتہائی شخصی ہیں لیکن دوسری سطح پر علامتی اور وسیع معنوی اکائی کی تشکیل کرتی نظر آتی ہیں۔
اس مجموعے کے تیسرے انداز کی حامل وہ نظمیں جو آفتاب اقبال شمیم کے چین کے قیام میں تخلیق پذیر ہوئی ہیں۔ اشتراکی فلسفے کے عملی اثرات کی عکاس یہ نظمیں شاعر کے بدلے ہوئے مزاج کی غماز ہیں ان نظموں میں آفتاب اقبال شمیم کے مزاج کی عمومی تلخی کے برعکس نرمی اور کوملتا کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شاعر کو اپنے آدرش کی تکمیل کی سرزمینِ خوش آثار نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔ اس نوع کی نظموں میں ’’دیوارِ چین‘‘، ’’تاچائے‘‘ کوی لنگ اور لیوسان چے شامل ہیں۔
’’زید سے مکالمہ‘‘ آفتاب اقبال شمیم کی نظموں کا دوسرا مجموعہ ہے جو فردانژاد کے تقریباً چا ر سال بعد ۱۹۸۹ میں شائع ہوا۔ لیکن زید سے مکالمہ اور فردا نژاد کی نظموں کی تخلیق کم و بیش ایک ہی عہد میں ہوئی ہے۔ ابتدا ہی سے آفتاب اقبال شمیم نے اپنے تخیل کے رہوار کی آزادی کو مقدم جانتے ہوئے اسے طویل تخلیقی مسافتوں سے روکا نہ مختصر قیام گاہوں پر رک کر آگے بڑھنے پر کوئی قدغن لگائی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے طویل تخلیقی سفر میں مختصر ، طویل اور طویل ترین نظموں کی تخلیق میں ہمہ وقت مصروف رہے ہیں۔ البتہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ طویل نظم سے ان کی طبیعی مناسبت کچھ ایسی ہے کہ اس حوالے سے آزاد نظم کا کوئی دوسرا شاعر ان کا ہم سر دکھائی نہیں دیتا۔زید سے مکالمہ کے علاوہ ان کے دوسرے مجموعوں میں بھی جابجا انتہائی سہولت کے ساتھ کہی ہوئی طویل نظمیں بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ اب تک کا آخری مجموعہ جو ’’ممنوعہ مسافتیں‘‘کے نام سے کلیات میں پہلی بار اشاعت پذیر ہورہا ہے کی آخری نظم ’’رات‘‘ بھی لگ بھگ ڈیڑھ سو سطروں پر مشتمل ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان پر جب بھی کوئی تخلیقی لمحہ وارد ہوتا ہے۔ رنگ رنگ کے تصورات اور تجربات و احساسات کا وفور ان کے تخیل کو جگمگا دیتا ہے اور وہ ہر تصویر بڑے سے بڑے خیالاتی کینوس پر بنانے میں منہمک ہو جاتے ہیں لیکن فطری صناعی کی دولت سے مالا مال ہونے کے باعث طویل سے طویل تخلیقی بیانیوں میں بھی ان کی سطروں میں کوئی جھول نظر آتا ہے نہ ہی کوئی سطر، کوئی خیال، کوئی احساس کم تر یا زائد محسوس ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ’’زید سے مکالمہ‘‘ ان کا نمائندہ ترین مجموعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس مجموعہ میں کل آٹھ طویل نظمیں شامل ہیں۔ ان میں سب سے مختصر’’درخت‘‘ بھی سو سے زائد سطروں پر مشتمل ہے جب کہ طویل ترین نظم’’نہیں اور ہاں سے آگے‘‘ کوئی پندرہ سو سطروں پر مشتمل ہے ۔ آفتاب اقبال شمیم ذاتی سطح پر انتہائی خاموش طبع ہونے کے باوجود سماجی سطح پر مکالمے کے اس قدر قائل ہیں کہ انھوں نے نہ صرف اس مجموعہ کا نام ’’زید سے مکالمہ‘‘ رکھا بلکہ طویل نظموں میں مکالماتی اسلوب کو برتر فنی حسن کا نمونہ بنا کر بھی پیش کیا ہے۔
اس مجموعے کی پہلی نظم’’ستمبر کا شہر‘‘ ادبی حلقوں میں ان کا اولین تعارف بن کر سامنے آئی تھی۔ آفتاب اقبال شمیم اس اولین اشاعت ہی سے ایک کامل فنکار کے طور پر نمایاں ہوئے۔ یہ نظم موضوع کے انتخاب ، ہیتی و فنی ساخت پر شاعر کی گرفت نیز اسلوبیاتی صناعی کے لحاظ سے نہایت عمدہ ہے۔ جذبے کی پگھلانے والی تپش اور گہرائی پیدا کرتے ہوئے تفکر کے احساس کے ساتھ ساتھ منفرد تمثال سازی استعاراتی طلسم کاری اور بلیغ علامات کے استعمال نے اسے ایک منفرد لہجے کی حامل نظم بنا دیا ہے۔ مکالمہ ، تخاطب اور بیانیہ رنگ میں مصرعوں کی تکرار نے بھی نظم کے حسن میں اضافہ کیا ہے۔ فکری سطح پر یہ نظم شاعر کے تاریخی شعور کی ترجمان اور تغیر و ارتقا کی چکی میں پستے ہوئے مضمحل مگر پر عزم فرد کے یقین کا بیان بھی ہے۔ ’’زید سے مکالمہ‘‘ کی دوسری نظم ’’اپنے ہونے کی سزا‘‘ میں علامتی اور بیانیہ اسلوب کو یوں آمیخت کیا گیا ہے کہ اس کی قرأت کے دوران احساس ہی نہیں ہوتا کہ شاعر نے کہاں علامتی پیرا یہ اختیار کیا ہے اور کہاں بیانیہ انداز اپنایا گیا ہے۔ شعور کی روکی تکنیک کے تحت داخلی خود کلامی کے دوران نظم کا مرکزی کردار اشیاء و مظاہر اور حالات و واقعات کو کبھی تجسیم کے عمل سے گزار کر کبھی علامتی و استعاراتی انداز میں ڈھال کر دیکھنے اور محسوس کرنے کے عمل سے گزرتا ہوا نظر آتا ہے۔ تلمیحات کو تحلیل کرکے پیش کرنے کا فن اس نظم میں خصوصی طور پر بروئے کار لایا گیا ہے۔ حیرت افزا امیجز کا استعمال نظم کے فن حسن میں اضافے کا باعث ہے۔ لیکن امیجز بقول ن۔ م راشد محض عیاشی کے لیے نہیں بلکہ نظم کے فکری مواد کی معاونت اور علامتی پیرایہ برقرار رکھنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔یہ نظم وجودی سطح پر صنعتی عہد میں ہونے کے سوال کے روبرو کھڑے فرد کے احساسات کا الم، انگیز اظہار ہے۔ نظم کا اختتامیہ بنجر تہذیب میں بے ثمر خواب دیکھتے رہنے اور نسل در نسل اس عذاب سے گزرتے رہنے کے دکھ کے بیان کی بنا پر بھر پور حزنیہ تاثر پیدا کرتا ہے۔ نیزفرد کے داخلی آشوب کو شاعر نے تمثالوں اور علامتوں کے پیرائے میں ڈھال کر بیان کیا ہے جو نظم کے معینیاتی ابعاد میں اضافے کا سبب ہے۔
’’بے انت کاسپنا‘‘ یونانی کلاسیکی ڈرامے کی تکنیک کی حامل نظم ہے جس میں ایک سے زیادہ اوزان استعمال کیے گئے۔ نظم کا بنیادی قضیہ ویت نام کی تحریک مزاحمت ہے اس تحریک کے حوالے سے، سامراج کی چیرہ دستیاں، یورپ کے تاجر پیشہ سفیدکرگسوں کی خون آشامی، جلی ہوئی بستیاں، کھنڈرات، خون آلودمناظر اور ویت نامیوں کے عزم و حوصلے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ آدرش کے حصول کے لیے ’’نوجوان لڑکوں ‘‘ کو علامت بنایا گیا ہے جو اپنی جدوجہد میں آخری سانس تک لٹا دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
’’میں ابد ہوں‘‘ خود آگہی کی دہلیز پر بیٹھ کر تخلیق کی ہوئی ایسی طویل نظم ہے جس میں موجود منظر نامے کی خارجی و داخلی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ اس منظر نامے میں فرد کی موجودگی کی بنا پر پیدا ہونے والی کیفیات و احساسات کا تجربہ بھی گرفت میں لیا گیا ہے۔ اس نظم کی فکری ساخت کے تناظر میں آفتاب اقبال شمیم کی مجموعی نظم نگاری کے حوالے سے یہ کہنا بے جا نہیں کہ یہ نظمیں اپنی ماہیئت میں جدید اس لیے بھی ہیں کہ ان میں کسی ہیرو کا کردار نہیں تراشا گیا۔ یہ طویل رزمیے ایک ایسے فرد کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں جو علم و آگہی کی وسعتوں اور انکشافات کی زد پر آیا ہوا ایک ایسا انسان ہے جو بیک وقت عالمی قوتوں کی چیرہ دستیوں کے خلاف نبرد آزما بھی ہے لیکن اپنی ذات کے کرب سے نجات بھی نہیں پاسکتا۔ جدید انسان حقیقتاً ایک المیہ ہے۔ اسے معلوم ہے کہ ظلم کی قوتوں کے خلاف لڑنا جتنا ضروری ہے اتنا ہی ضروری اس حیات فانی میں اس ابدی لمحے کی تلاش بھی ہے جس کے سائے میں کچھ دیر زندگی کی حسینہ سے مکالمہ ہوسکے۔قدیم انسان اس دوہرے کرب کا شکار ہرگز نہیں اس کے جسم کی اکائی کو پارہ پارہ کرنے کے لیے ایسی آگہی ہی موجود نہیں تھی جس سے جدید دور کا انسان دوچار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آفتاب اقبال شمیم کی ان طویل نظموں کا مخاطب نسوانی حسن کہیں نہیں ہے۔ بلکہ وہ جابجا نوجوان لڑکوں ، نوجوان لڑکا یا وہ لڑکا کہہ کر خطاب کرتے ہیں یہ نوجوان لڑکے جو ظلم کے خلاف نبرد آزما ہیں ان کا خواب ہیں۔ لیکن جابجا یہ احساس بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ نوجوان لڑکا خود آفتاب اقبال شمیم ہے جو وجود کے محاذ پر خود سے نبرد آزما ہے جسے عالمی قوتوں کی ریشہ دوانیوں کے خلاف جنگ کی خواہش ہی بے چین نہیں رکھتی بلکہ فیصلوں کی کشمکش ، ماضی کے حسن کی جھلک، فردا کے خواب اور پھر لمحہ بہ لمحہ تغیر پذیر موڈز بھی ناآسودہ رکھتے ہیں۔
ان طویل نظموں میں امیجز کو علامتی سطح پر استعمال کا اسلوب تو جابجا نظر آتا ہے لیکن اس مجموعے کی ایک بہت خوبصورت نظم’’ درخت‘‘ ہے جس میں درخت کے امیج کو تجسیم کے عمل سے گزارتے ہوئے علامت بناکر معنیاتی و جمالیاتی تہہ داری پیدا کی گئی ہے۔ درخت بیک وقت فطرت کے ساتھ انسان کے غیر فطری سلوک کا استعارہ بھی ہے جس کا سبب صنعتی آشوب ہے فطرت کے ساتھ انسان کا رشتہ منقطع کر دیا ہے ۔ جب کہ ’’درخت‘‘ جدید دور کا وہ انسان بھی ہے جو باطن کی گہرائیوں میں زندگی کا اصل جو ہر رکھنے کے باوجود استحصالی نظاموں کا زندانی ہے جس کا المیہ یہ ہے کہ درخت کی سی فطری نمود، بلندی اور شوکت اس سے چھن گئی ہے۔
آفتاب اقبال شمیم کی شعری تمثالوں میں سوانحی تصویریں بھی بہت اہم ہیں۔یہ کیفیت ان کی طویل نظم شجرستان ہجر کا مسافر‘‘ میں نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ یہ نظم ان کے عزیز دوست اور اردو نظم کے ایک اور بڑے شاعر احمد شمیم کی موت پر کہی گئی ہے لیکن یہ نظم محض ایک نوحہ نہیں بلکہ ایک دوست کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کے تناظر میں اپنی ذات کو از سر نو دیکھنے کی جستجو ہے۔
آفتاب اقبال شمیم کی نظم ’’نہیں اور ہاں سے آگے‘‘ہکار نظم قرار دی جاسکتی ہے۔ اردو آزاد نظم کی تاریخ میں اسی نظم کے مقابل اس کی طوالت کے اعتبار سے ہی نہیں بلکہ ایک بڑے کینوس پر بڑے سوالات کو معلوم تاریخ کے حوالوں اور انسانی باطن کی تصویر کشی کے اعتبار سے بھی شاید کوئی دوسری نظم نہیں پہنچ سکتی۔ چھہ ذیلی عنوانات کے تحت چھ حصوں پر مشتمل یہ نظم انسانی زندگی کے خارجی مظاہر اور داخلی کیفیات کا حامل ایک ایسا رزم نامہ ہے جو ذات ، اصل ذات، اور خد اکے ساتھ ساتھ اس زمین پر برپا زندگی کے المیے کی لہو لہو تاریخ اور پھر تاریخ اور وقت کے جبر کا شکار انسان کے دکھ کا جواز تلاش کرتے ہوئے سوالات اور ان سوالات کے جوابات کی جستجو سے ترتیب پاتا ہے۔ نظم کا آغاذ مابعد الطبیعاتی حوالوں کی روشنی میں انسان کے داخلی آشوب کو نمایاں کرتے سوالوں، خدا، آفرینش، تقدیراور جبر کی نوع بہ نوع صورتوں کے ساتھ انسان کی ازلی جنگ، تہذیبوں کی شکست و ریخت، خالق اور تخلیق کا ربط پھر تخلیق کی الگ شناخت کا مسئلہ ایسے قضیے فکری و فنی ہنر کاری کے ساتھ نظم کے قالب میں ڈھلتے ہیں نظم کا تیسرا حصہ ذات کے آئینے میں گردو پیش کی عکس بندی کی سعی کے عمل سے عبارت ہے جس میں سوانحی حوالوں سے ماضی کی خوبصورت بازیافت اور تقسیم کے المیے کے الم انگیز واقعات نمایاں ہیں۔ یوں یہ نظم ذاتی، اجتماعی ، ملکی اور بین الاقوامی صورت حال میں فرد کی حیثیت یا بے حیثیتی کی طویل داستان وجودی حوالوں سے ، انسانی زندگی کی کئی پرتوں کوکھنگانتی وقت اور تاریخ کے جبر کو مسخر کر لینے کی رجائیت پر اختتام پذیر ہوتی ہے ۔
’’زید سے مکالمہ‘‘ کی آخری طویل نظم، ’’دھوپ اور دھند‘‘ ہے جس کا دوسراحصہ آفتاب اقبال شمیم کے تیسرے مجموعے ’’گم سمندر‘‘ میں شامل ہے ۔ یہ نظم آفتاب اقبال شمیم کے عمومی اسلوب سے ہٹ کر ہے۔ اس میں کولاژ کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے انھوں نے مقامیت کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ مقامی روزمرہ زندگی سے خوبصورت تمثالوں کو کشید کرکے زندگی کے مختلف النوع تجربات و احساسات سے ایک مکمل تصویر بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ’’گم سمندر‘‘ آفتاب اقبال شمیم کا تیسر ا مجموعہ نظم ہے جو ۲۰۰۰ میں شائع ہوا جس میں اکاسی(۸۱) نظمیں شامل ہیں ۔ یہ مجموعہ ان کے اسلوب میں نمایاں تبدیلی کا مظہر ہے۔ ’’زید سے مکالمہ‘‘ کے برعکس اس مجموعہ میں نسبتاً مختصر نظموں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ اس سے پہلے کی شاعری میں ان کے ہاں قافیے کا استعمال تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن اس مجموعے کی اکثر نظموں میں قافیے کا اہتمام دکھائی دیتا ہے جس سے نہ صرف موسیقیت کا احساس ہوتا ہے بلکہ قاری کے نقطۂ نظر سے جو نامانوسیت ان کی پہلی تین کتابوں میں تھی وہ قدرے کم نظر آتی ہے۔ نظمیں اپنے اختصار کے ساتھ ساتھ انتہائی پر تاثر اور معنوی تہہ داری کی حامل ہیں۔ اس مجموعے کی بیشتر نظموں میں احتجاج ایک شیریں طنز کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ ایک آئیڈیل انسان معاشرہ کا خواب انسانی کی نفسی کیفیات کے بیان کے ساتھ ساتھ ان نظموں کی پہچان ہے۔ ’’میں نظم لکھتا ہوں‘‘ آفتاب اقبال شمیم کا چوتھا نظمیہ مجموعہ ہے جو اٹھانوے(۹۸) نظموں پرمشتمل ہے۔ اس مجموعے کی بیشتر نظمیں پوسٹ نائن الیون صورت حال کی عکاس ہیں۔ ’’سقوط بغداد‘‘، ’’بخت خان وار کر‘‘، اور نیو کلیر ہولوکاسٹ سے پہلے‘‘ مشرق وسطیٰ میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی اور سارے خطے پر اس کے اثرات کی روداد ہی نہیں سامراجی طاقتوں کے متشدد دانہ عمل کے خلاف شدید احتجاج کی لے بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں جس میں یہ کرب بھی شامل ہئے کہ کہیں یہ نام نہاد ترقی یافتہ عہد خود اپنے ہاتھوں ہی کسی تباہی کا شکار نہ ہوجائے۔ ’’میں نظم لکھتا ہوں‘‘ میں شامل نظموں میں احتجاج کا دوسرا اہم حوالہ صارفی معاشرت کے خلاف شاعر کا شدید ردعمل ہے۔ اس تناظر میں ان کی طویل نظم ’’زمانہ بازار بن گیا ہے‘‘ مثالی شہرت کی حامل ہے۔ اس نظم کے تین حصے مذکورہ مجموعے میں شامل ہیں جب کہ چوتھا حصہ ان کے غیر مطبوعہ مجموعہ ’’ممنوعہ مسافتیں‘‘ میں شامل ہے۔ ماس پاپولر کلچر، ماس مارکیٹ اور میڈیا کے پیدا کردہ مسائل کا شاعرانہ بیان ان نظموں میں نمایا ں ہے۔اس مجموعے کی دیگر اہم ترین نظموں میں ’’رہٹ چلتا ہے نہ،’میں سادہ سا زمین زادہ‘‘، ’’سنگِ سفر نما‘‘ اور روشنی سے گفتگو ‘‘ شامل ہیں۔ یہ سلسلہ ان کے آخری مجموعہ نظم ’’ممنوعہ مسافتیں‘‘ تک چلتا ہے جس کی آخری نظم’’رات‘‘ کوئی ڈیڑھ سو سطروں پر مشتمل ایک طویل نظم ہے۔ آخری دونوں مجموعوں میں ناسٹیلجیا کے اثرات کی حامل نظموں کی تعداد بھی خاصی ہے۔ جو ماضی کے خوبصورت لمحات کی بازیافت کے احساس کے ساتھ ساتھ ایک رومان پرور کرب کی لہر سے بھی مزین ہیں۔
آفتاب اقبال شمیم کی غزل کا اسلوب ان کے باطن سے پھوٹتا ہے، جس کا اثبات معروضی حوالوں سے ہوتا ہے۔ جدید نفسیاتی تصورات، سائنسی انکشافات اور روشن فکری کی روایت اسے پس منظر فراہم کرتی ہے۔ جدید انسان کے ذہنی و فکری رویوں اور پیچیدہ جذباتی کیفیات کے بیان کے لیے وہ روایتی لفظیات سے ہٹ کر نیا ڈکشن مرتب کرتے ہوئے عمومی اور روایتی قافیوں سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔ لہجے کی انفرادیت ، فکری پیچیدگی، جذباتی سچائی اور خارجی کائنات سے ایک نئی نسبت کا احساس ان کی غزل کو منفرد بناتا ہے۔ وہ غزل میں نیاپن روایتی مضامین کو محض اپنے مزاج میں ڈھال کر بیان کرنے سے پیدا نہیں کرتے، بلکہ ہر شعر کے لیے تازہ مضمون کی جستجو کرتے نظر آتے ہیں۔
میری رائے میں وقت اس عظیم شاعر کا نام آزاد نظم کے صفِ اول کے دو تین ناموں کے ساتھ درج کر چکا ہے، دیکھیے کب کوئی نقاد بنے بنائے چوکھٹوں سے نکل کر اس تختی کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ امید ہے اس کلیات کی اشاعت نادریافتہ کے لیے نو دریافتہ ثابت ہو گی۔
بہت محنت سے لکھا ہوا مضمون ہے۔ آفتاب اقبال شمیم صاحب کی شاعری آسان نہیں اسی لئے بہت سے سہل پسند قاری اس کو سمجھنےکی کوشش نہیں کرتے ۔ ایسی شاعری پر لکھنا بہت مشکل ہےمگر سعید احمد نے ضروری اشارے فراہم کر دیئے ین۔