کراچی لٹریچر فیسٹول ، انجمن دلبراں
(نسیم سید)
کرا چی میں اس بار دو مہینے رہنا ہوا ۔اوردو مہینوں میں دوہزار واقعات تو ضرور ایسے ہونگے جو بہت دیر تک کرلا تے رہیں گے مجھ میں ۔ جی کرتا ہے ساری تصویریں اپنے ذہن کی پرنٹ کرڈالوں۔ بد صورتیوں کی کریہہ تصاویر سے لیکے محبتوں کی تفصیل تک ۔ وہ محبتیں جو دھول مٹی دھواں ، کیچڑ، بدامنی ، دھاندلی ، رشورت خوری سب کو سوچوں کے مضافات میں ڈال دیتی ہے۔ میری سبز مٹی میں بارود بونے والوں کا وہ خوف بیان کروں جس نے ہر عورت کو نقاب پوش بنا دیا ہے ۔ کراچی یونیورسٹی کا حال زار ، وہ کراچی یورنیوسٹی جہاں فرمان فتح پوری، جمیل جا لبی ،ابوالیث صدیقی جیسے گھنے درختو ں کے سا ئے میں ہم سبزہ زاروں پر کتابیں پھیلا ئے نوٹس بنا یاکرتے تھے ۔’’اب وہاں صرف خاک اڑتی ہے ’’ محبتیں ۔ دکھ حیرانیاں ۔ ڈیفینس کے خوبصورت صاف ستھرے ایئر کنڈیشن مال۔
پاکستان کے فنکارو ں کا فن کپڑوں کے تھان کی صورت آ نکھوں کو خیزہ کرتا ہوا۔ پینٹنگ مبہوت ہو کے دیکھنے پر مجبو کرتی ہوئی ،خوبصورت تھیٹرز، خوبصورت سے سجی ہوئی عورتیں انکے ساتھ بہت پیارے پیارے انگریزی بولتے بچے ، بچوں کے ساتھ انکی آ یا ئیں ۔( آ یا رکھنا اور انگریزی بولنا ضروت کے علاوہ عزت کا معاملہ بھی ہے اور سٹیٹس سمبل بھی ) بچوں کے صاف ستھرے سکول اور مگر اتنے مہنگے کہ میرے خاندا ن کے ایک ڈیڑھ سال کے بچے کے داخلے کی فیس ایک لا کھ روپے میرے سامنے دی گئی، ماہانہ فیس الگ تھی، خیر یہ تو صبر کرنے والی بات تھی مگر ان سکولوں کے گرد بچوں کی زندگی کو اپنے ہی ملک میں اپنوں ہی کی وحشت سے بچا نے کے لئے سخت احتیا تی تدا بیر کا درد ناک منظردھاڑیں مار مارکے رونے پر مجبور کرنے والا ہے ۔ ہائے افسوس ، صد افسوس کہ ہمارے ننھے ننھے بچے اپنے سکولوں میں محفوظ نہیں ۔ اوران سب کے ساتھ شام کے گہرے سایوں کے ساتھ طلوع ہوتی ہر گلی کے نکڑ پر نقاب پوش کال گرلز ۔۔۔۔ پھر ڈیفینس سے باہر کے منا ظر ۔۔بدصورت بدمزاج راستے منہ پر پلاسٹک کی تھیلیا اوردیگر کچرا کھینچ کے مارتے ہوئے ۔ گٹر کے ابلتے او ہوئے پانی سے چھپا چھپ کرکے گزرتے راہگیر ۔ برقع پوش خواتین سے اٹے بازار اور سڑکوں کے کنارے کنارے حسین وجمیل لڑکیوں کے طرح طرح کی اشیا بیچتے بڑے بڑے اشتہار ، ریلوے سٹیشن کی بدحالی ریل کے سفر کی یادگاروحشت ۔نادرا کی ایک ننھی سی کھڑکی کے آگے دھوپ میں ،کھلے آ سمان تلے قطار لگا ئے برقعے اوڑھے حال سے بے حال خواتین ۔ اتنا کچھ ہے لکھنے کو کہ ایک کتاب ہوجائے مگر مجھے خود پر سفر نامے لکھنے والی کا ٹھپہ لگنے کا ڈر ہے ۔ سو ان تفصیلا ت میں تو نہیں جانا لیکن کراچی کے اس لٹریچر فیسٹیویل کا کچھ احوال اس لئے لکھوں گی کہ یہ ایک بہت اچھی یاد ہے اور اسے محفوظ کرلینا ضروری ہے کہ بعد میں کبھی پڑھ کے مجھے خود لطف آئے گا ۔ کے ایل ایف یعنی کراچی لڑیچر فیسٹول اپنے سلیقے ، انتظامی صلا حیتوں ،منتظمین کی بے پناہ کا وشوں کا لا جواب مثالیہ تھا۔
فیسٹول میں شا عروں ، ادیبوں ، فنکاروں ، ڈرامہ اورفلم کے اداکاروں ، موسیقاروں ، طالبعلموں ، غرض فنون لطیفہ کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کی بھرپور شرکت ، سامعین کا ہزاروں کا ہجوم اور ہجوم کی ہر سیشن میں لا تعداد شرکت سب کچھ میرے لئے ایک بہت خوشگوار اور منفرد تجربہ تھا ۔ بات شروع کرتی ہوں دعوت نامہ سے ۔ پہلا دعوت نامہ ای میل میں ایک چھوٹا سا ہلکا سا سنہرا لفا فہ جس پر نام لکھا تھا ۔ لفا فہ پر کلک کیا تو اپنا ئیت سے لکھے پرتکلف الفا ظ نمودار ہوئے ۔ دس ، گیا رہ اور بارہ فروری دوہزار سترہ کو پروگرام میں شرکت کی دعوت امینہ سید کی جانب سے تھی۔ امینہ سیدآ کسفورڈ یونیورسٹی پریس کی مینجنگ ڈاریکٹر اور فاؤنڈرہیں ۔ پہلا دعوت نامہ امینہ سید کی جانب سے اس لئے اچھا لگا کہ گزشتہ کئی تجربا ت یہ تھے کہ کسی کانفرنس میں شرکت کرنے کا دعوت نامہ میزبان کے بجائے کسی والنٹئر ورک کرنے والے یا اسسٹنٹ کی جانب سے موصول ہوتا رہا ہے جبکہ تہذیب کاتقا ضہ ہے کہ میزبان خو د دعوت دے ۔
اس دعوت نامہ سے پہلے آصف فرخی جن کی کا وشوں کے سبب اردو کی بھرپور شمولیت ممکن ہوئی آ کسفورڈ کے پروگرام میں خود پیغام دے چکے تھے شرکت کی۔ایسی چھوٹی چھوٹی تفصیلات پر دھیان ہی کسی فلم ، ڈرامے یا ادبی اور نجی تقریبات کو کامیاب بنا تی ہیں لہذا اس چھوٹی سی مگر اہم بات کا ذکر سوچا کرتی چلوں ۔ میں نے کئی ادبی میلون میں شرکت کی ہے ۔ مگر وہ ہڑبونگ اوربد انتظامی دیکھی کہ واقعی وہ میلے ٹھیلے سے ذیا دہ اپنی کوئی اہمیت نہ بنا سکے لیکن اس فیسٹول کا الگ اپناایک اپناایک یک معیار اور مزاج تھا ۔۔ دس فروری کی شام سے خوش قدان دب جوق در جوق بیچ لگژری ہوٹل کے مین گارڈن کی طرف چل پڑے ۔ عجب شام تھی ایک طرف لق ودق لان میں کلا سیکی را گ سے لیکے روک تک موسیقی کی تان اور اس تان پر دھمال ڈالتی جھومتی موسیقی کی موج مین تیرتی ڈوبتی ابھرتی روحیں ۔ ۔ کیا بیاں ہو اس فضا کا جہاں ٹینا ثا نی ،صیف سمیجواور ظوئے وساجی اور یوسف کیرائی نغمہ سرا ہوں ۔ اسی شام مخصوص مہمانوں کے لئے ایک پرتکلف ڈنر کا اہتمام تھا ۔ یہ ڈنر جہاں تک مجھے یاد ہے آ سٹریلن سفارخانہ کی جانب سے مہمان ادیبوں کے لئے تھا ۔ ادھر یہ منظر ادھر جیسمین ہال میں ’’ نو آ نر ان آ نر کلنگ ، جنڈر وا ئیلنس ، مذہب ، اور طاقت کے قوانیں پاکستان میں۔ جیسے اہم ترین موضوعات پر نفیسہ شاہ ، محمد حنیف ، انیتا ، امرسندھو، اور نوشین احمد کے روح کوگرمانے اور سوچ کو تا زہ دھوپ لگا نے والا مکالمہ۔
دوسرے ہال میں اسی وقت ادب کے ستارے ، زہرہ نگاہ ، مسعود اشعر ، مستنصر حسین تا رڑ اور کشور ناہید کی روشنی سے مستفید ہوتے سیکڑوں سامعین ۔ پرنس ہال میں ہمارے ملک کا وقار اور ایک سنجیدہ تریں مفکر ’ ’ پرویز ہودبھائی کا ’’کلائیمٹ چینج اینڈ نیوکلیر وار ’’ جیسے اہم موضوع پر مکالمہ ، پھر ایک ہال میں ’’ نصاب میں تاریخ کی موت کیسے واقع ہوتی ہے ’’ جیسے موضوع پر اہم گفتگو۔ اس دورا ن ان تمام موضوعات سے دلچسپی رکھنے والے اس ہال سے اس ہال تک دوڑ لگاتے رہے کہ تھوڑی تھوڑی سوغات تو لے ہی لیں فکر کے لئے تمام معزز و محترم سپیکرز سے لیکن ممکن نہیں ہوسکا ۔ آ صف اسلم سے میں نے شکایت کی ایک وقت میں اتنے پروگرام کیون رکھے تو انکے چہرے پر مجبوری اورشادمانی کی ایسی ملی جلی کیفیات نظر آئیں کہ بغیر کچھ کہے ہی سمجھ میں آگیا ۔’’ ہزاروں کے مجمع کو اس کی پسندکی سوغات باٹنے کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ جس ہال میں اس کی پسند کا تبرک بٹ رہا ہو لے لے ’’ ہاں ایسا ہی سو چا ہوگا امینہ سید ، آ صف اسلم اور دیگر منتظمین نے۔
مگر ہم جیسے لا لچی ؟؟ ترس ترس کے رہ گئے ہر جگہ موجود ہونے کو ۔ وسرا دن اس سے بھی ذیا دہ یادگار تھا ۔ وہ سویرے سویرے اٹھ کے تیار ہونا ۔دوستوں کو جلدی جلدی فون کرنا ’’ شاہدہ کب پہنچوگی ۔ فون آ ن رکھنا [ ؟’’ آمنہ نو بجے نکل جائیں گے دس بجے کا نورالہدی کا سیشن مس نہیں کرنامجھے ، اور گیا رہ بجے علی اکبر ناطق کا بھی بیچ لگژری کے گیٹ سے داخل ہوتے ہی والنٹئر لڑکیاں اور لڑکے جو شا ید مختلف تعلیمی اداروں سے وابستہ تھے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے اور مہمانوں کے ہر طرح کے سولا ت کا جواب دینے کے لئے موجود تھے ۔ میں ان کو پیار سے دیکھتی ہوئی گزرگئی کہ اپنے دوستوں میں کوئی نظر نہیں آ رہا تھا خیر شا ہدہ کا فون آ گیا اور آ منہ بھی سامنے سے آ تی ہوئی دکھا ئی دی۔ شاہدہ نے پوچھا ۔ ’’ تم نے گیسٹ کے لئے جو بیگ ہے وہ لیا ؟ نہیں تو ! ’’ شاہدہ (شا ہدہ حسن ) مجھے جگہ جگہ لئے پھری اور آ خر کو وہ بڑا سا بیگ دلا کے دم لیا ۔ اب ہم کئی دوست اپنے اپنے پروگرام کی تفصیلا ت والا سات صفحا ت کا ایک چھوٹا ساتفصیل نامہ ہا تھ میں لئے آ ج کے دن کے چھتیس پروگرامز میں سے اپنے اپنے پسند کے سپیکرزاور اہم موضوعات پر نشان لگا نے کے لئے اس ہال میں پہنچے جہاں مہمان شرکا کے لئے وقت گزارنے کا پر تکلف انتظام تھا ۔
یہ ایک کشادہ ہال تھا جس کی د ائیں جانب کی دیوار کے ساتھ اور ہال کے درمیاں میں بہت سے صوفے پڑے تھے جن پر مہمان تخلیق کار ٹولیوں میں بیٹھے تھے ۔ سامنے کے صوفے پر زہرہ نگاہ بیٹھی تھیں ان سے ملنے کی خواہش اس گھیرے کو نہیں توڑسکی جوان کے گرد تھا ۔ مگر مجھ پرنظر پڑتے ہی زہرہ آ پا کی مخصوص مسکراہٹ اورہاتھ کے ہلکے سے اشارے نے دوسیر خون اوربڑھا دیا دل کی شادابی کا ۔ دائیں جانب پرویز ہود بھائی ایک صوفے پر بیٹھے اپنے بریف کیس میں سے کچھ کا غذات نکال رہے تھے ۔ کیلگری میں اقبال حیدر کی جوش کانفرنس میں اس محترم شخصیت کے ساتھ کئی دن گزارنے کا موقع نصیب ہوا تھا ۔ پاکستان کی خوش نصیبی کہ ہود بھائی کا تعلق پاکستان سے ہے اور ان کی بد نصیبی کہ وہ پا کستان میں پیدا ہوئے ۔ مگرخیر۔ ایک دنیا ان کی وہ عزت کرتی ہے جسکے وہ حق دار ہیں ۔
اچانک علی اکبر ناطق پر نظرپڑی ۔ہرے رنگ کا مفلرلپیٹے ، لا واہ سی جین اور انقلا بی سی شرٹ پہنے کسی دوست سے باتوں میں مگن تھے ۔ علی اکبرناطق اسی مخصوص سج دھج کے ہونگے جو اس ہال کے ایک صوفے پر سجی ہوئی تھی ۔ کہ وہ بھی ایک بہت اہم اور مشہور تخلیق کار ہے اردو دنیا کا ۔ یہ وہ ۔ علی اکبرناطق ہے جو کچی مٹی سے حروف ڈھالتا ہے اور اس مٹی کی خو ان حروف میں صاف نظر آ تی ہے ۔ اسکی سوچ بھی اسکے مزدور ہاتھوں کی طرح روح کا پیٹ پا لنے کے لئے بڑی محنت سے رزق کماتی ہے ۔ اس معروف نوجوان سے ملتے ہوئے پس ذہن سر د لہجہ اور روئے کی توقع تھی لیکن وہی گا ؤں کی فضا ؤں والی سادگی خوش اخلا قی ، گرم جو شی اس کے روئے میں تھی جس میں پرورش پائی ہوگی علی نے ۔ وہ علی اکبر ناطق جومنا فقوں کو اپنی تنقید سے لہولہان کرتا رہتاہے بے پناہ محبت کرنا بھی جانتاہے ، بہت اچھا لگا اس سے ملنا ۔ ابھی میں نے جن سجی سجا ئی شخصیت کاذکر کیا تھا جو ہال کے ایک صوفے پرسجے ہوئے تھے میں نے شا ہدہ سے انکے بارے میں چپکے سے پوچھا ’ یہ کلف لگے اور استری شدہ سے جو صاحب ہیں یہ کون ہیں ؟ اس نے پلٹ کے اس طرف دیکھا اور بولی ’’ ارے پا گل یہ فلاں ہیں ۔ تم نہیں جانتیں ’’ ؟ شا ہدہ نے میری نہیں والی چند گزارشات پر قہقہہ لگا یا اورہم جلدی جلدی اگلے پروگرام کی تفصیلا ت دیکھنے لگے ۔ اتنی دیر میں نیلم بھی آ چکی تھی اب طے کرنا تھا کہ کس کو کس پروگرام سے دلچسپی ہے اور کہاں جانا ہے ۔ کیونکہ مشا عرے سمیت آ ج یعنی گیارہ فروری کو مختلف ہال میں پینتیس کے قریب پروگرام تھے اور سارے کے سارے اہم موضوعات کے ساتھ گویا آ صف فرخی نے اس شوق کا اچھا خاصہ امتحان لینے کا انتظام کیا تھا جو سارے کے سارے پروگرام میں موجود رہنا چا ہ رہا تھا۔
صبح دس بجے دوپروگرام تھے اور میں نورالہدی کے سیشن میں شرکت کرنے کے لئے سویرے سویرے گھر سے نکل پڑی تھی ۔’’ سندھی سپیکرز ’ اس کا موضوع تھا اور نورالہدی چیئر کررہی تھیں ۔ یہ نور بھی کمال کی چیزہیں ۔ نظم ، نثر ، ڈرامہ جولکھ دے ایسا ٹھا کرکے دل کو لگے کہ سوجان سے صدقہ ہو جانے کو دل چا ہے ۔ اب کس پروگرام میں چلنا ہے ۔ نیلم صوفے سے سر ٹیکتے ہوئے سوال کیا ۔نیلم نے پروگرام کے صفحات کو پڑھنے سے انکار کردیا تھا اور ہماری معلومات پر گزارہ کررہی تھی ۔ شا ہدہ نے گنا۔ گیا رہ سے بارہ تک پانچ پروگرام ہیں ۔ پانچ ؟؟ میں نے گھبرا کے اپنے صفحات میز پر پھیلا ئے ۔مین گارڈرمیں علی اکبر نا طق، عارفہ سیدہ زہرہ ، اور افضال احمد سید کا مکالمہ ’’ اردو نو کیا ہوا ’’ بھئی میں تو چلی مین گارڈن ’’ میں نے اعلان کیا ۔ مگر باقی چا ر سیشنز کے موضوعات بھی تو بہت اچھے ہیں ۔ شا ہدہ کو پریشانی تھی ۔ ’’اینی مینی مانی مو ’’ ۔ نیلم نے تان لگا ئی۔
غرض گیارہ سے لیکے شام کے چھ بجے تک تیس سیشنز تھے ۔ اور ہر موضوع گویا مسکرا کے دیکھ رہا تھا ہماری طرف اور کہہ رہا تھا ’’ ادھر آ تا ہے دیکھیں یا ادھر جاتا ہے پروانہ ’’ تیس موضوعات،، سب میں تونہیں جا سکتے تھے لیکن جہاں جہاں پہنچے یوں لگتا تھا جیسے اندر کچھ مفت بٹ رہا ہوچلنے کے بجائے لوگوں کے دھکے سے ہوا میں اڑ رہے تھے گو یا ۔ ایسا جوش و خروش ۔ اتنی بڑی تعداد میں لو گوں کی موجود گی میرے لئے ایک حیران کن مگر بہت خوبصورت تھی۔ اسی دوران میں شا ہدہ ، نیلم اور آ منہ سے بچھڑ گئی کیونکہ مجھے نا صر عباس نیر کی اورچند اور ادیبوں کی تازہ تخلیقا ت خریدنی تھیں ۔ جس جگہ پر کتابو کے سٹال لگے تھے ادھر بھی ایک خلقت رواں تھی اور چند منٹوں کا فاصلہ بیس منٹ میں طے ہوا ۔ پاکستان میں کیا واقعی لوگ اتنے شوقین ہو گئے ہیں کتاب پڑھنے کے؟ بہت خوشگوار حیرت تھی۔
سا ڑھے تین بجے حارث خلیق کی نئی کتاب کا اجراتھا اور مجھے اور شا ہدہ کو اس پروگرام میں بھی دروازے پر کھڑے رہ کے شرکت کی ایسی وحشت تھی کہ ہم سب سے پہلے پہنچ کے پہلی صف میں جم گئے ۔ حارث خلیق کی کتاب پر گفتگوکرنے والوں میں ایک خاتون کسی مغربی ملک سے تعلق رکھنے والی دکھا ئی دیں ۔ موڈریٹر اپنے جانے پہچانے غازی صلا الدیں تھے ۔ خاتوں کا نام کرسٹینا تھا ( لا سٹ نیم یاد نہیں ) ہم سمجھے تھے کہ گفتگو انگریزی میں ہوگی لیکن کرسٹینا خالص لکھنوی لہجے اور شفا ف اردو میں جب مخا طب ہوئیں تو میں اور شا ہدہ ایک دوسرے کو حیرت سے تکتے رہ گئے ۔ ویسے یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ جب کوئی گورا اردو بولے تو ہم خوشی سے بے حال ہوجاتے ہیں ۔ فخر سے سینہ پھول کے غبارہ ہوجاتا ہے اور ہم انگریزی کو گھول کے پی بھی جائیں تو یہ گورے حیران نہیں ہوتے ، فخر نہیں کرتے ہمارے اوپر ، کلیجے سے نہیں لگا لیتے ہمیں مارے خوشی کے ، شا ید ایک سبب اور ہے اس کا ، ہم انگریز ی دنیا وی ضرورت کے سبب لکھتے اور بولتے ہیں اوریہ ضرورتیں مختلف لیبل کے تحت ہیں۔
مگر جب یہ گورے کوئی زبان سیکھتے ہیں تو پورے وجدان اور عشق کے ساتھ۔یعنی دل کی طلب ۔ خیر۔ اس خیال کو میرے ، جو بیچ میں دخل درمعقولات کررہا ہے جملۂ معترضہ سمجھیں ۔قصہ مختصر میں بھی سو جان سے نثار ہو گئی کرسٹینا کی اردو پر بعد میں انسے مل کے ، انہیں کلیجے سے لگا کے اپنی تمامتر حیرانی اور خوشی کاانہیں ثبوت بھی پیش کیا ۔ ویسے اردو بولنے کی بات الگ ۔ لیکن علمی لحا ظ سے بھی واقعی بڑی شخصیت ہیں ۔ حارث جیسے پیارے انسان ۔ سچے کھرے ذہین شا عر ذہین ادیب نے اپنے سیشن کے لئے ایسے ہی ذہیں ناموں کا بھی انتخا ب کیا تھا یا شا ید آصف فرخی نے انکے جیسے ہی تخلیق کاروں کو ان کی کتاب پر گفتگو کے لئے منتخب کیا تھا سو بہت ہی معلوماتی اوراچھا سیشن تھا۔
اسکے بعد چا ر سے پانچ بجے تک پانچ سیشن تھے۔جس میں سے زاہد ہ حنا اور مستنصر حسین تاڑ کا مکالمہ ہی اٹینڈ کرسکتے تھے ہم سب دوست کیونکہ بقیہ سارے پروگرام ایک ہی وقت میں ہو رہے تھے ۔ اور چھ بجے بین الا قوامی مشاعرہ بھی تھا جس میں مجھے بھی شرکت کرنی تھی ۔مشا عرہ کا منظر میرے لئے حیران کن تھا ۔ اتنا بڑا مجمع کہ حد نگاہ گویا ٹھا ٹھیں مارتا سمندر تھا انسانوں کا ۔ اس سے بڑی حیرانی یہ تھی کہ کمال کے باذوق سامعین تھے ۔ ہر شا عر کو اچھے شعر پر پوری طرح داد دینا اور شعر پسند نہ آ ئے تو خاموشی سے سننا ،،ہزاروں کی تعداد میں موجود سامعیں کا ایسا با وقار رویہ بہت متا ئثر کن بھی تھا اور یاد رہ جانے ولا بھی ۔مشا عرہ میں شعرا کی اتنی لمبی فہرست نہیں تھی کہ صبح کے چار بج جائیں اور مشا عرہ ختم ہوکے ہی نہ دے ۔ گانے بجانے والے شعرا سے گریزکیا گیا ۔سٹیج پر فہمدہ ریاض ، انورشعور، کشورناہید،امداد حسینی ،افصال احمد سید،حارث خلیق،علی اکبرنا طق، شا ہدہ حسن ،فاطمہ حسن ، حمیرارحمن ، خواجہ رضی حیدر ،تنویر انجم ، عقیل عباس جعفری، انعام ندیم ، کاشف غائر ، اور بشرااقبال کے ساتھ مجھے بھی شریک بزم کیا گیا تھا ۔ یسے ہی معیاری مشا عرے سامعین کے ذوق کو بنا تے سنوارتے اورنکھار تے ہیں جس کی موجودہ دور میں بہت ضرورت اور اہمیت ہے ۔ مشا عرہ مقررہ وقت پر چھ بجے شروع ہوا اور آ ٹھ بجے مقررہ وقت کے مطا بق ختم ہوگیا۔
مشا عرہ ختم ہوا تو وجدان شاہ سٹیج پرہی گلے لگ گئے ۔ وجدان پاکستان کا ایک نامور فنکار ہے ۔ ابھی اس سے مخاطب تھی کہ پشت پر کسی نے ہاتھ رکھا پلٹ کے دیکھا تو نورالہدی ۔ ہم یوں گلے ملے جیسے برسوں کے بچھڑے ہوئے ہوں ۔ ہائے یہ محبتیں۔ یہ محفلیں جو بچھڑ گئیں ہم سے ۔مشاعرہ کے بعد سب سے ذیادہ ہماری ڈنر ٹیبل جگمگا رہی تھی ۔ ایک بڑی سی گول میز کے گرد ۔ زاہدہ حنا۔ نورالہدی ،علی اکبرناطق، بشری انصاری ،نیلم احمد بشیر ، فلم سٹارشبنم ۔ انڈیاسی آ ئی ہوئی ایک مہان تخلیق کار اورپھر وہ باتیں ،، وہ لطیفے ، وہ قہقہے ۔ کیا بیاں ہو سب کا ۔ ساری یادیں بٹور کے دوسرے دن پھر سب ملینگے کی سرشاری سمیٹے گھر جانے کا کی خوشی میں کیسے دھت ہواجاتا ہے ۔ئی ہم پردیسیوں سے پوچھے ۔
دودن کی بے پناہ مصروفیت کے بعد جی تو چا ہ رہا تھا کہ آ ج تیسرے دن کم سے کم آ دھا اتوار تو منا ہی لیا جائے اور آرام سے بیٹھ کے چائے پی جائے لیکن صبح دس بجے سے گیا رہ بجے تک میرے ، حمیرا رحمان اور شا ہدہ حسن کے ساتھ ایک سیشن ’’ نئی بستیاں ، جانی پہچانی آ وازین ’’ کے موضوع کے تحت تھا جس کے موڈریٹر انعام ندیم تھے ۔ آ صف فرخی کو جتنے سیشن ہم لوگوں نے اٹینڈ کئے وہ سب میں موجود دکھائی دئے ۔ سو اس وقت بھی موجود تھے اور آخرتک موجود رہے ۔ عجب جن صفت انسان ہیں یہ آ صف فرخی بھی ۔ اتوار کا دن ۔اور سویرے سویرے پروگرام اس پر کمرہ پرجوش اور باہوش نوجوان لڑکے لڑکیوں سے بھرا ہوا ۔ نہیں بھئی اردو نہیں مرسکتی یہ کانفرنس ثابت کررہی ہے کہ اردو پوری آ ن بان اور شان سے زندہ ہے اور اسی تا بانی سے زندہ رہے گی ۔ میں نے ان تین دنوں میں کئی بار سوچا تھا۔
اس تین دن کے پروگرام کی بہت خاص ایک یہ بھی بات تھی کہ نئی نسل کے لا تعدا لڑکے لڑکیوں کو مختلف ذمہ داریاں نبھاتے دیکھا ۔ اور نہ صرف یہ کہ وہ پوری طرح شا مل تھے ذمہ داریاں نبھا نے میں بلکہ جب جب موقع ہوا سوال اٹھا ئے ا ور پورے اعتماد کے ساتھ اٹھا ئے ۔ جس کا بہتریں نمونہ بارہ بجے کا پروگرام تھا جوکہ ’’مین گارڈن میں تھا ’’ ہرروز طرح آ ج بھی تل د ھرنے کی جگہ نہیں تھی اور میری طرح بے شمار لوگوں نے کھڑے رہ کے پروگرام اٹینڈ کیا ۔ اس کا موضوع تھا ’’ دے برتھ آ ف ٹو نیشنز ’’ جو ظاہر ہے پاکستان کے وجود میں آ نے ، تقسیم اور قائد اعظم کی فکرئی اورعملی جدوجہد کے حوالے سے تھا اس سیشن کی ایک اہم اور پرجوش مقررہ عا ئشہ جلا ل تھیں ۔ اس دورانیہ میں عا ئشہ جلا ل سے سامعین نے اور خاص کر نوجوان نسل کے لڑکے لڑکیوں نے جوذہین اور بولڈ سوالات کئے وہ اس امید کی مہمیز کرگئے کہ پا کستان کا مستقبل جیسے ہی اس نسل نے اپنے ہاتھ میں لیا حالا ت بدل جا ئیں گے۔ ایک نئی امید کا دیا دل میں روشن کرنے والے کراچی لٹریچر فیسٹیویل کے منتظمین کی یہ کا وشیں بہت زیادہ لائق مبارک باد ہیں۔