وجاہت مسعود صاحب کے نام کُھلا خط : خدارا! اسے کچھ بھی کہہ لیجئے ، انکلوژن مت کہیئے
(یاسر چٹھہ)
چھٹی کا دن ہے، اور اسلام آباد کے خوشگوار موسم کی ایک صبح ہے۔ حسب عادت، فیس بُک ٹائم لائن پر نظر دوڑائی، اور ہوتے ہوتے قاسم کیہر صاحب کے فیس بک گروپ روشنائی تک جا پہنچے، جہاں وجاہت مسعود صاحب کا ایک طویل ویڈیو انٹرویو پوسٹ کیا گیا تھا؛ پس منظر کا تو اندازہ تھا ہی، موضوع بھی علم میں تھا، لیکن میں خود کتنے دنوں سے اس بحث سے پہلوتہی کر رہا تھا۔ سوچتا تھا کچھ اور کرتے ہیں، اس بات کو رہنے دیتے ہیں۔ پھر جانے کیا دل میں آئی کہ ویڈیو پر کلک کردیا۔
انٹرویو کرنے والے صاحب نے پہلے وطن عزیز میں انٹرویو کے مروجات پر اپنا بیان سنایا اور پھر اپنے آپ کو جس رستے کا راہی گردانتے ہیں، وہ گوش گزار فرمادیا۔ اگلے چند لمحوں میں ہی تصدیق ہوگئی کہ انٹرویو کا موضوع اور لُبّ لُباب “مولانا احمد لدھیانوی کے “ہم سب” پر شائع ہونے والے انٹرویو کا “دفاع” تھا۔ انٹرویو کرنے والے صاحب کے پہلے دو سوالات کے وجاہت مسعود صاحب کی جانب سے جوابات سے اندازہ ہوگیا کہ وہ بولیں گے زیادہ، لیکن کہیں گے کم (کیا کریں ہم فارغ لوگوں کے پاس بھی وقت کی جنس کی کمی رہتی ہے، کچھ غم روزگار، کچھ غم محبت کے)۔
جملہ معترضہ آن ٹپکا، تو قبلہ وجاہت مسعود صاحب وضاحت کررہے ہیں کہ حضرت لدھیانوی کو “ہم سب” کے دائرہ میں کیوں لایا گیا، لیکن ان کی تمثیلیں اور مثالیں نیلسن منڈیلا جیسی ہستیوں اور ان کے سفید فام حکمرانوں سے مذاکرات کے تناظر میں ہیں۔ کسی آزاد فکر اور سوچنے والے ذہن کے لئے یہ دعوت عام ہے کہ کوئی اپنے دفاع میں مثالیں کون سی لاتا ہے؛ مثالیں شور ڈالتی ہیں کہ صاحب بیان تحت الشعور کی کس حالت کا ناقابل تردید بیان جاری کر رہا ہے۔
یہ شمولیت پسندی اور شمولیت کو شرف قبولیت دینا تو پڑھا سنا تھا کہ حاشیہ پر پھینکے گئے لوگوں، سماجی متروک شدہ روایات اور معاشرتی گروہوں کے لئے ہوتا ہے۔ لیکن ایسا خود سے متعدد بار اپنے اوپر الزامات کا اعتراف کرنے والوں کے لئے شمولیت کے اعلٰی انسانیت دوست اصول کی بھینٹ کیوں کر چڑھایا جا سکتا ہے؟ اسے اپنی غلط روی کو عقلی لباس پہنانے کی مشکل کوشش میں، پہلے سے موجود بے چارے خوبصورت اصولوں کو، اپنی لذّت تقریر بنانے کی بہت ناپسندیدہ کوشش سے تعبیر کرنا مناسب معلوم پڑتا ہے۔
ساجد نقوی شیعہ سنی کارڈ۔۔۔ پہلے دو سوالوں کے جوابات کے بیچ ہی میں حضرت وجاہت مسعود صاحب، لدھیانوی صاحب کو رومانویت کے سرخ جوڑے میں لپیٹ کر پیش کرنے کے “عذر (نا)گناہ” کے طور پر کہتے ہیں کہ اب کی رومانوی قسط پر پر کبیدہ خاطر ہونے والے اس وقت شانت ہوجائیں گے کہ جب ساجد نقوی صاحب بھی “ہم سب” پر جلوہ افروز ہونگے۔
اب ذرا اس جواب میں سے دیکھئے کہ شمولیت پسندی کے کس حاشیائی مطلب کو قبلہ وجاہت مسعود اپنے من میں سجائے بیٹھے ہیں؛ کہ کس ثنویت کے شانوں کی سواری کرکے اخلاقی بمعنی ethical پستی کا قد بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے کئی ممکنہ مطالب میں سے ایک تو یہ ہوسکتا ہے کہ ساجد نقوی کے انٹرویو کے شائع ہوجانے سےگویا کسی “مفروضہ بگڑے توازن” کا حاصل کرلینا ہے؛ دوسری طرف انہیں احمد لدھیانوی صاحب کے برابر قرار دینے کی سبیل نکال کے ایک political statement دے دیا۔
اس دلیل کی دوسری جہت کے طور پر انہوں نے اپنے فہم کے مطابق انٹرویو کے سامعین کو یہ باور کرانے کی بھی کوشش فرما دی کہ حضرت لدھیانوی صاحب کی رومان پروری کا دکھ اور صدمہ زیادہ تر، یا مجموعی طور پر، انہی لوگوں کو ہے جو کسی “خاص” مکتبہ فکر سے جُڑے ہیں۔ وجاہت مسعود صاحب اپنے آپ سے مختلف رائے رکھنے والے کی کس طرح استعاراتی اور بیانیاتی تخفیف کرتے ہیں، راقم کم از کم دو مواقع پر اس کا گواہ ہے۔ (بہرحال اس کو ایک طرف ہی رکھتے ہیں) خیر اجازت ہے قبلہ کو کہ یہ تخفیفی فارمولا آزاد منڈی کے اصولوں کے بعینہ بکتا ہے؛ اور جو بکتا ہے وہی معرکئہ خیر و شر میں سے سرکردہ اور فتح یاب خیر ہی ہوتا ہوگا۔
کیا گیت نوحہ بننے کو ہے؟
بلاگنگ ویب سائٹس پوری دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے وطن عزیز میں بھی ایک تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتی آئی ہیں۔ یہ کچھ زیادہ دور کی بات نہیں۔ ہمارے ملک کے قارئین، سامعین اور ناظرین پر اطلاعاتی، معلوماتی اور آزادانہ رائے بنانے کے ذرائع سے exclusion اور نا رسائی کے اسباب کی وجہ سے ہماری جمہوریت، اور معاشرے کو کتنے ہی سابقہ عشروں سے حبس بے جا میں رکھا گیا ہے۔ اب چند ایک برسوں سے کچھ تازہ ہوا میسر ہونا شروع ہوئی تھی۔ امید رہی ہے کہ سیٹھ مارکہ کارپوریٹ ذرائع ابلاغ کی معاشرتی نمو کے برخلاف تیرہ دستیوں کی ڈھال کے طور پر متبادل میڈیا کا تصورایک خوش آئند اضافہ ہے۔
لیکن بحث مذکورہ کے تناظر میں امیدیں، توقعات کی سیڑھیوں سے ہوتی خدشات کی گہری کھائیوں میں جاتی نظر آتی ہیں۔ رب کرے ایسا نا ہو۔ پچھلے چند ماہ سے احباب کہہ رہے تھے کہ اب پاکستان کے عامیوں کی اطلاعات تک رسائی کو پا بہ زنجیر رکھنا محال ہوگیا ہے۔ ہم اس وقت بھی سوال کرتےتھے؛ ہم آج بھی استفہام کے دروازے پر کھڑے ہیں کہ “وہ منزل ابھی نہیں آئی”۔ کہتے ہیں کہ منزل آنی بھی نہیں چاہئے۔ منزل اگر آجائے، تو وہ کسی بھی ترقی پسند کے تخیل اور ضمیر کو جوہڑ بنا دینے کی طاقت رکھتی ہے۔
خدارا! سیٹھ کارپوریٹ میڈیا کی طرح، اپنے لئے طاقت کے مراکز میں جگہ پانے کی خواہش میں، اپنے بھرم اور اپنے سے وابستہ آس کا خواب مت چکنا چور کیجئے۔ جاہ و مرتبہ کی حرص سات مہلک گناہوں کے بیچ میں مسندنشین رہی ہے۔ طاقت کی بہم رسانی، اپنے لئے “اثر” کے سراب کے پیچھے اپنے آدرش کی قربانی دینے سے رک جائیے۔ جگہ گھیرنے اور وزن رکھنے کی مادی خواہشوں کی نذر ہو جانے کی نہ سوچئے۔
ہمیں پاکستان میں اچھی اور متبادل آوازوں کے سانس لینے کی فضا بننا ہے۔ تکلیف دہ اور آدرشوں سے عاری راہوں کا چلن ٹھیک نہیں کہا جاسکتا۔ خدا کرے کہ اس مضمون کے الفاظ، تیوریوں پر بل ڈالے، جن خیالوں کی زبان بن رہے ہیں، وہ سب صرف راقم الحروف کے اوہام کا شاخسانہ ہوں۔ خدا کرے کہ بدلتے موسموں میں، جب کہ احسان اللہ احسان ہمارے قومی بیانیے کی تزئین شُدہ عمارت کے ستون قرار دئیے جارہے ہیں، انہی موسموں میں آپ کے “ہم سب” پر بھی کوئی نیا تزویراتی کرونک انفیکشن نہ آن پڑے۔ یاد رکھئے اپنے اعلی آدرشوں میں کہیں آپ کہیں یہ باور کرانے کے سزوار تو نہیں ہورہے کہ احسان اللہ احسان بھی ابھی تک بظاہر ‘انوسنٹ ٹل پروون گلٹی’ ہی ہیں۔ کہیں انکلوژن اور توازن کے اصول وہاں تک نہ پہنچ جائیں۔
ہم تو یہی عرض مدعا کرتے ہیں اور یہی دعوت دیتے ہیں کہ ہم اثرو نفوذ کے چکر میں، اقتدار کی غلام گردشوں میں رسائی کی ذاتی خواہش کی خاطرانکلوژن، نمائندگی، اور ترجمانی کے تصورات کی من مانی تشریح نہ کریں، اور خدارا! مذہبی، سماجی، اور کلچرل عدم برداشت کی نمائندہ قوتوں کا اونٹ ‘ ہم سب ’ کے خیمے میں نہ لائیں۔
Very well put!