کہاں ٹرپل ون بریگیڈ اور کہاں پھوکا سا ٹوئیٹ
(فاروق احمد)
یعنی کہاں وہ دور جب چھڑی گھمائی حکومت بھگائی اور کہاں یہ بے سرو سامانی اور بے بسی کا عالم کہ ایک چوچا سا ٹوئیٹ اور اس پر بھی لعن طعن
مدت ہوئی ہمارے پڑوس میں ایک بابا جی ہوا کرتے تھے ۔۔۔ کبھی تھے فوج کے دبنگ جرنیل ۔۔۔ چال ڈھال قد کاٹھ کا کروفر بتاتا تھا کہ کبھی عمارت بھی شاندار رہی ہو گی ۔۔۔۔ آواز پاٹ دار اور مونچھیں چنگار ۔۔۔ اپنے گھر میں کسی کو آواز دیتے تو چار گھر پرے نوبت بج اٹھتی ۔۔۔
غم بس ایک ہی پال رکھا تھا کہ جوانی گئی اور شان و شوکت ساتھ چھوڑ گئی تو لونڈے بات ہی نہیں سنتے ۔۔۔ چارپائی دالان میں ڈال رکھی تھی اور وہیں بیٹھ کر افرادِ خانہ کو احکامات جاری کیا کرتے تھے ۔۔۔ ایک وقت تھا کہ جوان لڑکوں کو کھڑے گھاٹ گھر سے نکال دیا کرتے تھے ۔۔۔
اب اس عمر میں بھی جلامکانی اور نکالے جانے کا حکم تو کسی نہ کسی کے لیے روز ہی صادر ہوتا تھا لیکن اب سنتا کون تھا ۔۔۔ جزبز ہوتے تو دو تین سطریں کاغذ پر لکھتے اور معتوب کے دروازے پر کیل سے ٹھونک آتے کہ میاں تمہاری فلاں حرکت ناقابلِ قبول ہے اور رد کی جاتی ہے ۔۔۔ لڑکے بالے جوان ہو چلے تھے منہ زور تھے ۔۔۔ کاغذ پر نظر پڑتی تو منہ کھول کرہنستے ۔۔۔ ازراہ تفنن کاغذ کو سیلوٹ مارتے اور ٹھٹھے مارتے اپنی راہ چل پڑتے ۔۔۔
کچھ یہی حال ہماری ٹوئیٹ بریگیڈ کا ہو چلا ہے۔
اب وہ گھن گرج تو نہیں کہ ٹرپل ون کریں ۔۔۔ اب تو ٹوئیٹ پر گزارہ ہے
اور یقین کیجئے اسی پر ہی رہے گا ۔۔۔ ورنہ دم ہوتا تو یوں دم اٹھا کے بس غرا کر ہی نہ رہ جاتے ۔۔۔۔
یعنی نوبت ٹرپل ون سے ٹوئیٹ پر تو لے ہی آئے اب کیا بابے کی جان لو گے