(ظفر سید)
‘جب 1947 میں ڈوگروں نے حملہ کیا تو ہم سب لوگ گاؤں چھوڑ کر اپنے ساز و سامان سمیت پیچھے والے پہاڑ پر چڑھ گئے اور ان کے ہاتھ کچھ نہ آ سکا۔’
پھول دار سویٹر، گرم اونی چادر اور کالی واسکٹ میں ملبوس سو سالہ بزرگ حسن ابا نے کہانی سناتے سناتے حقے کا کش لیا تو پھانس لگ گئی اور کئی سیکنڈ تک کھانسنے کے بعد کہیں جا کر سانس بحال ہو سکی۔
‘سوائے علی حسین کے، جو افراتفری میں اپنی چادر پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ اسے ڈوگرے ساتھ لے گئے۔’
اس پر تمام چوپال میں قہقہہ بلند ہوا اور حسن ابا کے قریب بیٹھے لال سرخ علی حسین، جنھوں نے سفید اونی ٹوپی پر پیلے رنگ کا پھول لگا رکھا تھا، مزید لال سرخ ہو گئے۔
یہ چوپال سکردو سے 46 کلومیٹر دور کرگل روڈ اور مٹیالے دریائے سندھ کے کنارے پر واقع گاؤں سرمِک میں قائم ہے۔ یہاں ہر شام بڑے بوڑھے آ کر جمع ہوتے ہیں اور گردشی حقے کے کھانسی آلود کشوں کے دوران پرانے واقعات، حالاتِ حاضرہ، لطائف اور گپ شپ کا تبادلہ کرتے ہیں اور اس بیچ انوکھی مقامی سوغات پایو، یعنی گھی اور ستّو ملی نمکین چائے کا دور چلتا رہتا ہے۔
یہ لوگ مخصوص صوتیات والی بلتی زبان بولتے ہیں جو اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ پاکستان کی واحد زبان ہے جو چینی تبتی لسانی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔
ان لوگوں کو گلہ ہے کہ پاکستان بھر میں جاری مردم شماری میں صرف نو زبانیں بولنے والوں کی گنتی ہو رہی ہے جن میں ان کی زبان شامل نہیں ہے۔
صرف بلتی ہی نہیں، گلگت بلتستان کی دوسری زبانوں کو بھی اس مردم شماری میں نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ علاقہ زبانوں کے لحاظ سے خاصا مالامال ہے اور یہاں کی دنیا کی چند بلند ترین چوٹیوں کے دامن میں آباد وادیوں میں متعدد منفرد زبانیں بولی جاتی ہیں۔
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی میں میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز کی طالبہ سکینہ شینا زبان بولتی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘گلگت بلتستان پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہے، اس لیے کم از کم یہاں کی بڑی زبان شینا کو مردم شماری میں ضرور شامل کیا جانا چاہیے تھا جو نہیں ہو سکا۔’
انھوں نے زبانوں کے مسئلے کو گلگت بلتستان کو بطور صوبہ آئینی حقوق دینے کے مسئلے سے جوڑتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو گلگت بلتستان کو صوبے کی شکل دینی چاہیے، اس کے بعد اس کی زبانوں کو ملکی دھارے میں شامل کیا جائے۔
گلگت بلتستان اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی جماعت مجلس وحدت مسلمین نے اس معاملے پر اسمبلی میں ایک قرارداد بھی پیش کی تھی تاہم حکمران مسلم لیگ ن کی نے یہ کہہ کر اس پر بحث ہی ںہیں ہونے دی کہ یہ وفاقی حکومت کا معاملہ ہے اور اسے حکومت ہی کو نمٹنے دیا جائے۔
رکنِ اسمبلی حاجی رضوان علی نے گلگت میں اسمبلی کے سبزہ زار پر بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ‘ہم چاہتے ہیں کہ اس علاقے کے عوام کی شناخت ان کی ثقافت، تاریخ اور زبانوں کے ساتھ ہونی چاہیے۔ اگر یہاں کی زبانوں کی شناخت ہو جائے تو ہمیں پتہ چل جائے گا کہ گلگت بلتستان میں کس قدر تنوع ہےاور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں کس قدر ہم آہنگی اور اتفاق پایا جاتا ہے۔’
انھوں نے کہا کہ ‘اگر زبانوں کو شامل کیا جائے تو یہاں کے لوگ سمجھیں گے کہ وہ بھی کوئی حیثیت رکھتے ہیں اور انھیں بھی اس معاشرے میں شمار کیا جا رہا ہے۔’
حاجی رضوان کے مطابق ‘زبانوں کی شمولیت سے یہ معلوم ہو جائے گا کس زبان کے بولنے کی کیا شرح ہے، کتنی آبادی ہے اور ان کا علاقے میں کیا کردار ہے۔ یہی ہمارا مطالبہ ہے۔’
ملک کے بعض دوسرے حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی مردم شماری کے تناظر میں مقامی اور غیر مقامی کی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ حاجی رضوان سمجھتے ہیں کہ جب سے ملک کے دوسرے حصوں سے آبادکار یہاں آ کر آباد ہونا شروع ہوئے ہیں تب سے یہاں مسلکی اور فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور علاقے کو کئی سانحات سے گزرنا پڑا ہے۔
سرمک گاؤں میں برف پوش چوٹیوں کی چھاؤں تلے خوبانی کے برف سے سفید تر شگوفوں میں گھری چوپال میں بیٹھے ہوئے پایو کی چسکیاں لیتے ہوئے حسن ابا اور دوسرے بلتی بزرگوں کی نوک جھونک سن کر ایسا لگتا ہے جیسے وقت کا پہیہ الٹا پھر کر صدیوں پرانے کسی دور میں چلا گیا ہے۔
یہاں صحیح معنوں میں اندازہ ہوتا ہے کہ اس علاقے کی قدیم زبانوں کے اندر کس طرح سے ہزاروں برس سے کشیدہ کردہ لوک دانش اور مخصوص ثقافت کا خزانہ محفوظ ہے اور ملکی سطح پر اس ورثے کی شناخت اور ترویج کس قدر ضروری ہے۔
لیکن اس وقت اس ثروت مند ورثے کی جڑ یعنی زبان ہی کو ملکی سطح پر اپنی پہچان تسلیم کروانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ظفر صاحب صرف زبان ہی نہیں اس خطے کے انسانوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا رہا ہے۔ 61 سال تک قومی دھارے سے باہر رکھا گیا، کوٹہ کے نام پر منہ سے نوالے چھینے گئے، سر پر اجنبی لوگوں کو بٹھایا گیا، لوگوں کو تعلیم اور ہنر سے دور رکھا گیا۔۔۔۔۔ یہ سب ہونے کے بعد بھی اس ملک کے لئے سب سے زیادہ خون اسی سرزمین نے دی چاہے وہ کارگل کی لڑائی ہو یا فاٹا میں ملک دشمن عناصر کو پچھاڑنا ہو خون کی پہلی فوار اسی مٹی نے دی ہے۔۔۔۔