وہ لڑکی اور اس کی کتاب
از، یاسر چٹھہ
رواں برس یعنی سنہ 2022 میں ادب کے نوبیل پرائز جیتنے والی لکھاری عینی ارنو Annie Ernaux کے تین ناول حاصل کیے۔
پہلا جو پڑھنا شروع کیا وہ A Girl’s Story ہے۔ زیادہ طویل نہیں، لیکن ایک نشست میں ختم کرنا کتاب کی توہین سمجھتا ہوں۔
ایک چوتھائی حصہ پڑھا؛ اس دوران جو سوادی سوادی خیال آئے ان میں سے ایک یہ تھا کہ اگر اسی کتاب کو اردو میں ترجمہ کر کے لکھاری کے طور پر عینی رانا لکھ دیا جاتا؛ لکھے جانے کے بعد پھر تبصرے کرنے والے، نقاد، مدیر اور خود فکشن لیکھک جو جو سوادی سوادی تبصرے لکھتے اور کھری کھری سناتے تو کیسی کامیڈی ہونی تھی۔
کہا ہے کہ نوبیل انعام یافتہ لکھاری عینی ارنو Annie Ernaux کی کتاب A Girl’s Story زیادہ طویل نہیں ہے۔ شکر ہے کہ یہ کتاب اتنی ہی ہے جتنی اسے ہونا چاہیے تھا: نہ کم، نہ زیادہ!
ضمیرِ واحد متکلم first person narrative کی چاشنی کسی بھی دیگر point of view کی نسبت زیادہ زود اثر لگی۔
ایسا احساس ہوا کہ جیسے کوئی ایسا دوست، جو آپ پر کُلی اعتماد کر سکتا ہو، وہ آپ سے انسان کی حیثیت سے ملے؛ بہ غیر کسی نوع کی inhibitions کے، بہ غیر کسی پردے کے، بہ غیر کسی سینسر کے، بہ غیر کسی جھجک کے۔
ایسا دوست کہ جس کے ماتھے پر آپ بوسہ دیں تو آپ دونوں کی آنکھوں کے بندھے ضبط کے بند ٹوٹ جائیں۔ آپ ایک دوسرے کو کچھ نہ کہیں، لیکن دونوں کی آنکھیں رواں ہو جائیں۔
اور ان آنسووں کا بہاؤ کسی guilt کا پروردہ نا ہو، بل کہ اس بیش قیمت موقعے کا خراج ہو کہ آپ دونوں باہم ملے تو کسی اپنے سے ملے، کسی ایسے اپنے سے ملے جو آپ کے سامنے اپنا سینہ کھول سکتا تھا۔
ویسے اپنا سینہ کھولنے کو کون کسی کو ملتا ہے؟ ہر ناتے اور تعلق سے کوئی نا کوئی پہلو اوجھل رکھنا بھی ہوتا ہے، اور اوجھل رہ بھی جاتا ہے۔
امید ہے کہ دنیا کی لغویات، اپنے روزگار کی لا یعنیّت اور مائیگرین کی کرم فرمائیاں چند قدموں کے فاصلے پر رہیں تو سینے کے کچھ عکس کھول کر کتاب پر تفصیلی تبصرہ کروں گا۔
بہ ہر کیف، تحریر میں جان ہو، کیفیت کا سچ ہو، اور سچ کا انکسار ہو تو وہ تحریر genre سے ما وراء ہو جاتی ہے؛ اور اوسط ذہن اس کے ختنے کرنے والے نائی کی طرح استرا لیے پڑا رہتا ہے۔ اسی بات کے چند اجزاء اور یہی احساس کسی پاکستانی خاتون کے ناول کے متعلق ادبی دنیا کے چھری لیے ملاؤں کے متعلق بھی سامنے لایا تھا، صرف لہجہ غیر جٹ والا تھا۔
آخری لمحوں کا احساس یہ تھا کہ جب آج A Girl’s Story کا آخری پیراگراف پڑھا تو ایسے لگا کہ کسی خاص دوست سے جدا ہو رہا ہوں؛ ملنے کے با وجود ملتے جانے کی کسک کا بار اٹھائے!