آنکھ بھر تماشا ہے: افسانہ یا حقیقت
از، فارحہ ارشد
کلیشے کا بازار پہلے بھی گرم تھا اب بھی ہے۔ سطحی لکھنے والے اورگہرائی و گیرائی سے لکھنے والے بھی ہر دور میں رہے ہیں ۔بس فرق یہ ہے کہ سطحی لکھنے والا دوسروں کےقائم کردہ طلسمی ہالےکے اندر ہی اپنا تخلیقی ہنر آزماتا رہتا ہے جبکہ گہرائی میں اترنے والا کلیشے کا طلسم توڑتا ہے اورجدت و تازگی سے روشناس کراتا اپنا نیا طلسم کدہ تعمیر کرتا ہے۔ فنی ہنر مندی تخلیقی صلاحیتوں میں ضم ہوکر ایک نیا جہان آباد کرتی ہے۔ تخلیقی صلاحیت ایک خدائی عطیہ ہے جیسا کہ غالبؔ نے کہا ہے؎ آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں۔جبکہ فن پہ دسترس غیب سے آنے والے انہیں مضامین کویوں پیش کردینا ہے کہ وہ خیال زندہ جاوید حقیقت بن کر ہم سب کی ترجمانی کرنے لگےاور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب آپ اس پورے عمل سے گذریں گے جسے میں تخلیقی بھٹی کے نام سے موسوم کرتی ہوں۔
افسانہ لکھنا شاید اس لیے بھی آسکتا ہے کہ کہانی ہر انسان کے اندر موجود ہے بلکہ اس کا جنم ہی ایک کہانی میں ہوا اور وہ اساطیری قصوں کا خود بھی کردار رہا۔ کہانی جب اندر موجود ہو تو ذرا سی فنی مہارت کہانی لکھوا لیتی ہے اور ذرا سی محنت سے وہ افسانہ بھی بنا لیتا ہے۔ مگر کیا صرف افسانہ لکھنا آنا ہی کافی ہے اور کوئی واقعہ ، خبر یا کیفیتی بیان کو (جوپہلے کئی بار تحریر ہو چکا ہو) مشاہدے کی مدد سے پیش کر دینا ہی اس فن کی حقیقت ہے؟
فن افسانہ نگاری کےاگر اپنے داؤ ں پیچ ہیں تو اس کی حقیقت نگاری کا رنگ بھی تو الگ ہی ہوگا ۔۔۔ نا!
فن یہ ہے کہ اگر آپ لکھیں کہ ” نرتکی نے پوری مہارت سے رقص کیا ” تو یہ جملہ کہیں سے غلط نہیں مگر اس میں افسانویت اور تخلیقیت کہاں ہے۔ اگر میں مضمون لکھوں تو میں یہ جملہ لکھنا ہی مناسب سمجھوں گی مگر افسانے میں اسی کی پیشکش کے لیے احساسات کی گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ایک ایسی افسانوی فضا بھی درکارہے جو ایک سحر میں لے جائے۔ ایک فسوں طاری ہو جائے۔ اور اس حقیقت تک لے جائے جو آپ بیان کرنے جا رہے ہیں ۔سو افسانے میں یہ ’خبریہ یا بیانیہ ‘ جملہ لکھنے کی بجائے میں وہاں ایک ایسا منظرپیش کروں گی جو اس کے رقص کی مہارت کی عکاسی کرے گا۔اور یہی افسانوی فضا ہوگی اور یہی سین اسے خبر کوافسانے میں تبدیل کرے گا۔
آج کل تنقیدی تبصروں میں اچھے خاصے عمدہ لکھنے والوں سے جب یہ سننے میں آتا ہے کہ ” ایسا تو نہیں ہوتا ” تو مجھے ایک ٹی وی سیریل کا وہ کردار یاد آجاتا ہے جو ہر بات کے جواب میں حیران ہو کر کہتا تھا ” ایلکامونیا میں تو ایسا نہیں ہوتا” ۔
حظ اٹھانے کے بعد جب سنجیدگی سے سوچتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ ہم نے جانے کب اور کیسے یہ مغالطہ پال لیا کہ حقیقت بیانی ہی حقیقت نگاری ہے ۔ مختصراً بتاتی چلوں کہ
حقیقت نگاری (Realism) کی تحریک انیسویں صدی عیسوی میں فرانس میں شروع ہوئی۔جس نے نا صرف مغربی ادب کو متاثر کیا بلکہ مشرقی ادب( اردوادب)پر بھی اس نے اپنے گہرے اثرات مرتب کیے۔معروف محقق ڈاکٹر شکیل پتافی اپنی کتاب ’ اردو ادب اور مغربی رجحانات‘میں لکھتے ہیں کہ حقیقت نگاری کی ابتداء شان فلیوری کی تحریروں سے شروع ہوئی ۔ اس کی قابلِ ذکر تصنیف “Violon Defaience”،1862ء میں شائع ہوئی مگر فرانس میں یہ تحریک بہت جلد فطرت نگاری کی تحریک میں ضم ہو گئی مگر شان فلیوری کا بطور مصنف مرتبہ اتنا اونچا نہیں بتایا گیا۔ اسی لیے حقیقت نگاری کے بانی انیسویں صدی عیسوی کے عظیم فرانسیسی ناول نگار فلابیر 1881_1821)ئ(کو مانا گیا۔فلابیر کے شہرئہ آفاق ناول” مادام بواری” کی اشاعت 1858ء کے بعد فلابیر کو حقیقت نگاری کا مفسرِ خاص مانا گیا۔
اُردو ادب میں حقیقت نگاری کے حوالے سے محققین کسی ایک نام پرمتفق نہیں۔کچھ محقق اس کی رونمائی پریم چند کے قلم سے منسوب کرتے ہیں تو کچھ اس کی ابتداء سر سیّد احمد خان کے ہاتھوں سمجھتے ہیں۔ حقیقت نگاری کے حوالے سے جو پختہ اور صحت افزاء ادب پریم چند نے اپنے افسانوں میں تخلیق کیا وہ یقینا اپنی مثال آپ ہے۔پریم چند سے پہلے اردو ادب کا محور رومانیت کے گرد گھومتا تھا لیکن پریم چند نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں گاؤں اور شہر کی زندگی کے حقیقی عکس پیش کیے۔ بطور حقیقت نگار پریم چند کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے بجائے کسی ایک قوم،ذات ‘ فرقہ دھرم اور مذہب کے تمام انسانوں اور معاشرے سے جڑے ہر فرد اور تمام انسانوں کو در پیش مسائل اور سماجی برائیوں کی نشاندہی کی۔ نمک کا داروغہ۔کفن۔ عید گاہ۔ دو بہنیں۔ پگلی۔ تصویرِ حسرت۔ تصویرِ خودداری۔دینداری۔ انسان کی قیمت۔غریبی کا انعام۔ وہ محبت کی پتلی۔انسان نما حیوان۔شطرنج کے کھلاڑی۔کفّارہ۔ منتر اور نجات قابلِ ذکر ہیں۔ان کے بعد کی نسل میں منٹو ، پریم چند ، ممتاز مفتی ، عصمت چغتائی ، کرشن چندر، غلام عباس نے بھی حقیقت نگاری کو اپنے اپنے انداز میں پیش کیا۔
حقیقت نگاری
واپس نفس مضمون کی طرف آتی ہوں کہ حقیقت نگاری کیا ہے؟ کیا سپاٹ بیانیہ (جس کی ضد کے طور پر”شاعرانہ نثر “پر تنقید کی جاتی ہے) کے تحت بیان کی جانے والی کہانی حقیقت نگاری ہے؟ کیا محض ایسے مناظر کو پیش کرنا کہ جمالیاتی حس مجروح ہو یا من و عن واقعات کو ترتیب دے دینا حقیقت نگاری ہے تو پھر افسانہ کیا ہے؟ (یاد رہے کہ اردو زبان میں لغوی معنوں میں افسانہ حقیقت کی ضد کے طور پر بولا جاتا ہے)۔ متذکرہ بحث طلب سوال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افسانے میں حقیقت نگاری اپنے اصل لفظ سے کچھ زیادہ ہے۔
جہاں تک میں سمجھتی ہوں حقیقت نگاری کا مطلب یہ نہیں کہ بہت کھردرے الفاظ میں جوں کا توں کوئی فسوں پیدا کیے بغیربیان کیا جائے بلکہ حقیقت نگاری یہ ہے کہ حقیقت کو بیان کریں اور اس کے لیے لفظوں کا فسوں مانع نہیں۔دراصل یہی فسوں ہی تو افسانویت ہے اور جب وہ فسوں حقیقت پر مشتمل ہوتووہی افسانے کی معنی آفرینی ہے۔
افسانے میں تخیل اور حقیقت کے باہمی تناسب و توازن سے ایسی کرشمہ سازی کرنا کہ حقیقت بھی موجود رہے اور تخیل کا حُسن اور احساسات کے ساتھ غوروفکر کی آبیاری بھی ہو۔ یہی ہے افسانے میں حقیقت نگاری جس میں آپ کسی خاص زاوئیے سے کسی مخصوص حقیقت کا راز عیاں کرتے ہیں۔
ایک سپاٹ بیانیہ میں لکھا گیا من و عن مشاہد ہ کے ساتھ پیش کیا جانے والا واقعہ ہی اگر لکھنا ہے تو مضمون نویسی اس کے لیے بہترین انتخاب ہوگا۔ اساتذہ جب کسی افسانے کو مضمون یا خاکہ کہتے ہیں تو درحقیقت ہم یہی غلطی کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے من و عن واقعہ مشاہدہ کی مدد سے پیش کر دیا۔ یا کسی کردار کو ایسے سپاٹ انداز میں بیان کر دیا کہ بھول ہی گئے کہ کردار کے گرد بُنا گیا افسانوی تانہ بانہ کیا تھا۔ اور جس حقیقت کو پیش کرنے جا رہے تھے وہ تو کہیں کونے میں پڑی رہ گئی۔
حقیقت کیا ہے؟
افسانہ لکھنے سے پہلے کسی حقیقی واقعہ ، بات یا کیفیت سے افسانہ نگار متعارف ہوتا ہے۔ جونہی تخیل بتدریج حقیقت پر حاوی ہوتا ہے حقیقی واقعہ یا بات ایک نقطے میں سمٹ جاتے ہیں ۔ جس حقیقت نے آپ کو متاثر کیا وہ احساسات کی سطح پر باقی رہ جاتا ہے ۔ اب افسانہ نگار کی اپنی مرضی ہے کہ وہ حقیقی واقعہ کو کس حد تک استعمال کرنا چاہتا ہے یا کہ اسی سے ملتا جُلتا ایک نیا واقعہ ترتیب دیتا ہے یا سرے سے نیا واقعہ احاطہ تحریر میں لاتا ہے۔ اب اس کے لیے اس واقعے یا بات سے زیادہ وہ حقیقت اہم ہے جو اس نے زیرِ مشاہدہ واقعے سے دریافت کی۔ یہی حقیقت شناسی بصیرت کے در وا کرتی ہے
افسانے کا خام تحریری مواد
اب آتا ہے مواد کو اس حقیقی واقعہ کے قریب ترین استعمال کرنے کا فن۔ مواد سے مراد الفاظ کا مناسب انتخاب، بیانیہ کی اثر پزیری یعنی ایسی زبان ( تشبیہات ، استعارے ، کنائے ) استعمال کرنا کہ حقیقت کسی طنزیہ جملے یا اشتعال کے بغیر کاٹ کے رکھ دے۔ منٹو کا وہ عدالتی واقعہ تو ہم سب کو یاد ہوگا جس میں اس نے کہا تھا کہ” میں شلوار کو شلوار نہ کہوں تو کیا کہوں؟ “
لفظ ” شلوار ” کی گونج آج تک لوگ نہیں بھولے۔ منٹو جانتا تھا کہ لفظوں کی اپنی سیاست ہوتی ہے کون سا لفظ کب اور کہاں لگانے سے مفہوم کے کون سے نظر اور نہ نظر آنے والے بھید کھلیں گے۔ بیانیہ کی تہہ داری ایسی خوبی ہے کہ بظاہر آپ ایک واقعہ یا بات پڑھ رہے ہونگے مگر وہ واقعہ اس طرح سے ڈھالا گیا ہوگا کہ ذہن میں کئی سمتیں کُھلتی چلی جائیں گی اور زیریں سطح پر آپ اس حقیقت سے روشناس ہو رہے ہونگے جو اس افسانے کا جواز بنی۔
وہ افسانے جو کسی خاص کیفیت یا شعوری رو کے تحت لکھے جاتے ہیں ان میں بھی بیانیہ کی تہہ داری اس طرح سے موجود ہوتی ہے کہ قصہ اور کردار یا تو ہونگے ہی نہیں اور اگر موجود ہونگے بھی تو حقیقت احساس کی سطح پہ ابھر کر اپنا ادراک مکمل طور پہ کروا جائے گی۔ ضرورت محض اس امر کی ہے کہ کیا مصنف نے تحریر اور قاری کے درمیان اس حقیقت کو ٹھیک سے قائم بھی کیا ہے یا نہیں ۔ کیا اس نے اپنے تحریری مواد کے ذریعے اپنی بات قاری تک پہنچانے کا اہتمام کیا یا سارا واقعہ محض ایک اخباری تراشا بنا کر پیش کر دیا ، یا منظر کشی کی جزئیات میں اصل بات سےہٹ گیا۔
فکشن کی حقیقتیں واقعات، کردار اور ان کے اعمال کے ساتھ ساتھ مواد کے مناسب استعمال کی وجہ سے اور افسانے کی فضا سے پیدا ہونے والے فسوں اور احساسات پر مصنف کی مضبوط گرفت سے جڑی ہوتی ہیں اس لیے اگر افسانہ نگار اپنی بات کی ترسیل کر پایا تو ہی کسا ہوا پلاٹ ، بیانیہ میں موجود افسانویت اور افسانے کی فضا سب اس قدر اثر انگیز اور حقیقت کے قریب ہوگا۔
اس لیے فکشن میں کردار نگاری، واقعہ نگاری اور منظر نگاری کے ساتھ ساتھ جزئیات ، کیفیات کا بیاں حسب ضرورت استعمال ہونا ضروری ہے۔
ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ ایک عام قاری تک حقیقت نگاری کی ترسیل قاری کے اپنے ماحول ، نفسیات ، مشاہدہ اور اخلاقیات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ وہ اپنی معلومات کو استعمال میں لاتا ہے اور جہاں کسی ایسے واقعے یا ایسے کردار سے اس کی مڈبھیڑ ہو جسے وہ قبول نہیں کرتا تاکہ اس کے شعور پر اثر نہ پڑے تو وہ بحث چھیڑ دیتا ہے کہ ” ایسا تو نہیں ہوتا” ۔۔۔۔
ایسے میں ایک اچھا افسانہ نگار اس کے طے شدہ راستوں سے ایک نیا راستہ نکالتا ہے اور غوروفکر پیدا کرکے اسے سوچنے پر مجبور کر لیتا ہے۔
اس کے اساتذہ نے تین طریقے بتائے ہیں
سوال اٹھا کر
تجسس پیدا کر کے ( کہ ایسا کیسے اور کیوں ہوا)
حقیقت میں افسانویت پیدا کر کے جو افسانوی چاشی کے ریپنگ پیپر میں ایسی کڑوی گولی رکھتی ہو جو صرف غورو فکر سے ہی میٹھی بن سکے اور نگلنے کے قابل ہو سکے۔
یعنی ایسا افسانہ جو روایتی سوچ اور روایتی باتوں سے ہٹ کر ایسی تہہ داری رکھے جس میں افسانہ نگارکردار یا واقعہ کو تجزیاتی سطح سے بلند کر کے اس کی موجودگی اور پیشکش کو ہی ایک سوال کے طور پرکھڑا کرکے غوروفکر کی اتھاہ گہرائیوں میں لے جائے ۔
حقیقت نگاری کی چند مثالیں
افسانہ میں حقیقت نگاری کے حوالے سے کرشن چندر کے افسانوی مجموعہ ”ہم وحشی ہیں“ کے افسانے ”پشاور ایکسپریس“ ”ایک طوائف کا خط“ ”امرت سر آزادی سے پہلے امرت سر آزادی کے بعد“ وغیرہ اور سعادت حسن منٹو کے افسانے ” ٹوبہ ٹیک سنگھ“ ”شریفن“ اور ”گورمکھ سنگھ“ شامل ہیں کرشن چندر اور سعادت حسن منٹو کے علاوہ ان کے ہم عصروں میں تقریباَتمام افسانہ نگاروں نے اس انسانیت سوز موضوع پر اپنے طور پر اظہار خیال کیا ہے۔ جن میں سے بعض افسانے بلا شبہ اس موضوع پر شاہکار اور نمائندہ افسانے ہیں۔ حیات اﷲ انصاری (شکر گزار آنکھیں۔ ماں بیٹا)احمد ندیم قاسمی (پرمیشر سنگھ) عصمت چغتائی (جڑیں) خواجہ احمد عباس (سردارجی، میں کون ہوں، انتقام)عزیز احمد (کالی رات) سہیل عظیم آبادی (اندھیارے میں ایک کرن) خدیجہ مستور (مینو لے چلا بابلا) ہاجرہ مسرور(امت مرحوم) شامل ہیں۔قرة العین حیدر ،خدیجہ مستور، جیلانی بانو ،اور رضیہ سجاد ظہیر بھی زندگی کے مسائل کوحقیقت نگاری کے ساتھ پیش کر رہی تھیں۔
آج کا ادب اور حقیقت نگاری
آج کا ادیب بھی ان نثری تیکنیکوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے مگر اب حقیقت نگاری کسی تحریک کی وجہ سے اختیار نہیں کی جا رہی بلکہ اسے افسانے کی پیشکش میں ایک اہم اور لازمی جُز کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ حمید شاہد ، مشرف عالم ذوقی، طارق چھتاری ، نیلوفر اقبال،آصف فرخی،محمد الیاس، طاہرہ اقبال، حامد سراج ، ابدال بیلا،امجد طفیل، عرفان جاویداور عرفان احمدعرفی کے افسانےاگر پڑھں، تو آپ کو محسوس ہوگا کہ حقیقت نگاری کو کسی ” حقیقت نگاری کی تحریک ” کی بھی ضرورت نہیں ۔ حقائق اپنے پورے لوازمات کے ساتھ نفسیاتی ، معاشی ، سیاسی اور معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ احساسات کی بھرپور شدت لیے موجود ہیں
فسانوں میں ماحول سازی، جزئیات نگاری، کرداروں کی تشکیل اور ان کے احساسات کی ترجمانی ہر طرح کے فیشن اور مصلحت سے بلند نظر آتی ہے ۔ اپنے لوکیل سے گہری فکری جڑت رکھتے ہیں ۔ کئی تحریروں میں لوکیل کی زبان و بیان اور ثقافت کے علاوہ سماجی و خاندانی اقدار کے انحطاط کو بھی زیر بحث لاتے ہیں۔ان کے افسانے کا حسن بیانیہ نہیں، بیانیے کی تہہ داری ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں سچ تہہ در تہہ ملتا ہے محض کسی ایک منظر یا کردار میں نہیں۔
ان سب کی تحریروں میں حقیقت اپنے اپنے انداز میں جھلک رہی ہے اور بتا رہی ہے کہ انہیں حقیقت نگاری کے لیے کسی تحریک کی ضرورت نہیں ۔ ان کا لکھا خود ” سچ کی تحریک ” ہے ۔ ایسا سچ جو بھید بھرے جہان سے کشید کر کے سامنے لایا جا رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کا افسانہ نگار کسی تحریک کے زیر اثر نہیں ۔ وہ سچ کو اپنے انداز میں لکھنے کے لیے آزاد ہے۔
انہی میں سے زندہ رہ جانے والے نام نکلیں گےکیونکہ
ابھی تو بانکپن ہے یارابھی تو سانس پھولے گی ۔۔۔۔
آخری بات
افسانہ حقیقت کو پیش کرنے کے اپنے لوازمات رکھتا ہے اس کی حقیقت نگاری کو مخصوص سٹیریو ٹائپس پہ مبنی روایتی حقیقت بیانی میں مت بدلیے۔
اور پھر جاننے والے تو جانتے ہیں کہ حقیقت کی بھی ” حقیقت ” کیا ہے؟۔۔۔
ہمیں دیکھنا ہے کہ کیا “آنکھ بھر تماشا” ہی افسانے کی حقیقت ہے کہ کسی سڑک پر کھڑے مداری کی طرح لمحاتی ڈراما رچایا ، بھیڑ اردگرد اکٹھی کی اور اگلے روز تک اس بھیڑ کو یاد بھی نہیں رہتا کہ کسی مداری نے کتنی دیر اسے اپنے گرد کھڑا رکھا اور وہ دکھا کیا رہا تھا؟۔۔۔
یا پھر افسانے کی حقیقت ایسا آنکھ بھر تماشا ہے جو صدیوں پر محیط سچائی کا نام ہے۔ زندہ رہ جانے والی سچائی۔
آنکھ جو بصارت ہی نہیں بصیرت بھی عطا کرتی ہے بشرطیکہ آنکھ ‘ دیکھنے’ والی ہو۔
سو تماشے تماشے میں بھی فرق ہے۔
آنکھ وہی دیکھتی ہے جو آنکھ والا دیکھتا ہے اور دکھانے والا اگر مداری نہیں تخلیق کار ہے تو وہ بھی دکھا جاتا ہے جو کہیں نظر نہیں آتا مگر موجود ہے۔ جو سوچنے کا انداز بدل دیتا ہے حالانکہ کہیں کوئی تقریر نہیں کرتا۔ بس آنکھ بھر تماشا رچاتا ہے ۔۔۔
ایسا آنکھ بھر تماشا جس کی سچائی کے بل بوتے پر منٹو یہ کہنے کے قابل ہوا تھا کہ ” خدا بڑا افسانہ نگار ہے یا میں۔۔۔۔ “
نوٹ : ( اس مضمون کے لیے پیغام آفاقی کے مضمون ” فکشن میں حقیقت نگاری اور حقیقت بیانی ” اور ” اردو ادب میں حقیقت نگاری ” ازسلیم سرمد سے استفادہ کیا گیاہے)