آؤ نیا آئین بنائیں
تنویر احمد
عدالت سے نا اہلی کا داغ اپنے سینے پر سجا کر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے والے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف راولپنڈی سے لاہور جاتے ہوئے اپنے حامیوں اور ہمدردوں کے سامنے کبھی دبے الفاظ اور کبھی بلند آہنگ میں اپنی نا اہلی کے فیصلے پر برستے رہے۔ میاں نواز شریف کے لبوں پر فقط ایک ہی سوال بار با ر مچلتا رہا کہ ’’مجھے بتاؤ، مجھے کیوں نکالا گیا۔‘‘
جی ٹی روڈ ریلی کے دوران میاں نواز شریف کے ’’نظریاتی و انقلابی‘‘ہونے کی خوشخبری جہاں پاکستانی قوم کے کانوں میں رس گھولتی نظر آئی وہیں پر میاں صاحب نے قوم کو ایک نیا آئین دینے کا وعد ہ بھی کر ڈالا۔ اب نیا آئین بازار میں ملنے والی کوئی سستی سی جنس ہے کہ جسے میاں صاحب خرید کر جھٹ سے قوم کے ہاتھوں میں تھما دیں گے یا پھر ایک پیچیدہ اور حساس موضوع ہے کہ جس کے لیے ملک کے تمام طبقات اور صوبوں کی رضامندی لازمی ہوتی ہے۔
میاں صاحب کے نئے آئین کے مطالبے سے یہی لگتا ہے کہ 1973 کے آئین پر ان کی رائے نہیں لی گئی تھی اس لیے وہ اب قوم اس آئین کا تحفہ دیں گے جن میں ان کی مرضی و منشاء کے اوصاف بھی مزین ہوں۔ میاں صاحب کے نئے آئین کی پھلجڑی پر ہم جیسے نا قص الرائے کیا تبصرہ آرائی ک رپائیں گے تاہم اس پر ابن نشاء یاد آگئے۔ طنز و مزاح سے بھرپور اپنے کالموں اور مضامین کے مجموعے ’’خمار گندم‘‘ میں انشاء جی کا ایک مضمون’’آئین پر ہماری رائے تو لی ہی نہیں گئی‘‘ شاید آج بھی برمحل دکھائی دیتا ہے۔
ابن انشاء رقم طراز ہیں:
’’۱۹۴۷ء سے آئین بنانا ہمارا قومی شغل رہا ہے۔ جن دنوں آئین نہ بن رہا ہے، آئین بنانے کی باتیں ہوتی ہیں اور جن دنوں باتیں نہ ہو رہی ہیں آئین بن رہا ہے۔ دوسرے ملک تو ایک آدھ آئین بنا لیتے ہیں، اس سے مدت العمر کام لیتے ہیں۔ امریکہ نے اب تک ایک آئین بنایا ہے، حالانکہ کاروں کے ماڈل ہر سال نئے لاتا ہے۔ ہندوستان بھی ترقی کے اتنے دعوؤں کے باوجود ایک سے زیادہ نہیں بنا پایا اور برطانیہ تو قاعدے کا ایک آئین بھی نہیں بنا پایا۔ وہ میگنا کارٹا سے کام چلا رہے ہیں۔
“اس کے مقابلے میں ہمارے ایک آئین ۱۹۵۴ء میں بنا۔ ایک ۱۹۵۶ء میں ، پھر ایک ۱۹۶۲ء میں۔ جناب یحییٰ خان کے زمانے تو اور ترقی ہوئی اور آئین سازی کو گھریلو دست کاری کا درجہ حاصل ہوگیا ۔ جہاں چار آدمی بیٹھے، پہلے تاش کی گڈی تلاش ہوئی وہ نہ ملی تو آئین بنانا شروع کر دیا۔ چار تارے چرخ سے ٹوٹے چراغ ہو گیا۔ الیکشن کے دنوں میں ایک مولانا ناظم آباد کے حلقے میں تقریر کر رہے تھے کہ اے بھائیو! مجھے اسمبلی میں بھیجو تاکہ میں اسلامی آئین بنواؤں۔
“ایک بد تمیز نے پوچھا حضرت قانون اور دستور کا فرق تو بتایئے، مولانا نے سوال کرنے والے کو اپنے شکل دکھانے کو کہا۔ کوئی نہ اٹھا تو فرمایا کہ سوال کرنے والا سوشلسٹ معلوم ہوتا ہے۔ آخر ان الفاظ میں وضاحت کہ دستور دستور ہے اور قانون قانون ہے۔ دستور کیسے قانون ہو سکتا ہے اور قانون کیسے دستور ہو سکتا ہے۔ لوگ عش عش کرتے ہوئے جلسے سے اٹھ گئے اور پنڈال خالی ہوگیا۔
“انہی دنوں ایک لیڈر نے کراچی میں عورتوں کے ایک جلسے خطاب کیا اور فرمایا کہ مرد اپنی سی کوشش کر کے ہار گئے۔ اب عورتوں کو چاہیے کہ میدان میں آئیں اور آئین بنائیں۔ وہ کہہ کر اور زندہ باد کرا کر چلے گئے۔ بی بیوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ اس کام میں جت گئیں جسے دیکھو پکانا بندھنا چھوڑ کر اس فکر میں ہے کہ دو ایوانی مقننہ رکھے یا یک ایوانی جسے کے اندر وہ بیٹھے اور مرد کو با ہر دربانی پر بٹھائے۔
“بے شک مرد سیاست میں حصہ لیں لیکن سیاست دربان کی حد تک۔ کسی کو آواز دو کہ بوا چلو۔ جامع کلاتھ مارکیٹ میں کپڑے کی سیل لگی تو وہ فوراً جواب دے گی کہ بی بی تم چلو۔ میں آئین بنا کر اور ننھے کو چھی کرا کے آتی ہوں۔ جہاں دو نیک بیبیاں بیٹھیں گویا دبستان کھل گیا، سروتہ چل رہا ہے اور یہ بحث بھی کہ بنیادی حقوق کے بارے میں کیا لکھا جائے۔ آمروں کو کسی قسم کے حقوق دینے کی ضرورت ہے یا ان کا فرائض ہی سے کام چل جاتا ہے۔
“بعض اوقات تو سر پھٹول بھی ہوجاتی تھی۔ ایک روز آمنے سامنے کے دو فلیٹوں کی بیگمات تو ہم نے دیکھا کہ ہاتھ نچا نچا کر ایک دوسرے کے خاندان کی خودی اور رموز خودی فاش کر رہی ہیں کہ اری تیرے باوا نے بھی کبھی بنایا ہے آئین۔ ہم سمجھے کوئی مفت کا جھگڑا ہوگا۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سنجیدہ اختلاف ہو گیا ہے اس بات پر کہ دفاع اور کرنسی مرکز کے پاس رہیں گی یا صوبوں کے پاس۔‘‘
ابن انشاء کی یہ شگفتہ تحریر ۱۹۷۳ء کے آئین بننے کے وقت تھیں۔ اب اس آئین کے ساتھ آمروں نے کھلواڑ تو تو کیا لیکن یہ پھر بھی وفاق پاکستان کا مضبوط ضامن ہونے کے ساتھ ساتھ تمام صوبوں اور طبقات کی مشترکہ پراپرٹی ہے۔ میاں نواز شریف نے نئے آئین کا مطالبے کر کے ملک میں ایک نئی بحث آغاز کر دیا ہے۔ اب میاں صاحب اور ان کے حواری اس مطالبے میں حق بجانب ہوں گے کیونکہ اس آئین کے شقوں کی خلاف ورزی پر انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے رخصتی کا دکھ سہنا پڑا۔
اب کوئی ایسا آئین بنانا چاہئے جس میں میاں صاحب اور ان کے خاندان کے لئے تاحیات اقتدار کے رنگین محل میں قیام کو ممکن بنایا جا سکے۔ ایک ایسا آئین اب چاہیے جو سیاست میں میاں صاحب اور ان کے خاندان کے لیے شہرت عام اور بقائے دوام کا ضامن ہو۔اب ایسا آئین تشکیل دینا چاہیے جس میں میاں صاحب کو کسی نا اہلی کا ڈر اور خطرہ نہ ہو اب بھلا خطرے کی تلوار سر پر لٹک رہی تو کون بھلا مانس ملک و قوم کی ترقی کے لئے اپنی جان جوکھوں میں ڈالے۔
اب کسی ایسے آئین کی بنیاد ڈالنی چاہیے کہ جس میں خاندان شریف اور ان کے حواریوں کے لیے اقتدار و اختیار کا ایسا نخلستان آباد کیا جائے جس میں احتساب کے کسی گرم بگولے کا گزر تک نہ ہو۔ آؤ پاکستانیو! ایک ایسے نئے آئین کی بنیاد رکھیں جس میں’’رہبر پاکستان‘‘یعنی کہ اپنے بڑے میاں صاحب اور ان کا خانوادہ شریف جب اقتدار کے چمنستان میں چہل قدمی کو نکلیں اور وسائل و اختیار کے کھلے ہوئے پھولوں سے اپنے مشام جاں کو معطر کر رہے ہوں تو جواب دہی کے کسی خار کے چبھنے کا ڈر نہ ہو۔
آؤ پاکستانیو! اس ۷۰ ویں یوم آزادی پر ایک عزم کریں کہ میاں صاحب اور ان کی نسلوں کا ایک نئے آئین میں مستقبل محفوظ اپنی آخرت کو محفوظ بنا لیں۔اب کوئی نا ہنجار یہ نہ پوچھ ڈالے کہ ہماری دنیا کا کیا ہوگا؟اے لالچی انسان ! آخرت کی کامیابی کیا کم ہے جو ابھی بھی دنیا سنوارنے کی فکر میں گھلے جا رہا ہے۔