اب یہ پھرتیاں کس لیے ؟
وسعت اللہ خان
یا تو آپ لینن، ماؤزے تنگ، کاسترو یا آیت اللہ خمینی کی طرح کے کوئی انقلابی ہوں اور جاری نظام کو ہی یکسر ختم کر کے ایک نیا نظام تعمیر کرنے پر یقین رکھتے ہوں تب تو آپ کی ہر بات جائز ہے۔
لیکن اگر آپ جاری نظام میں ہی رہ کر کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو جس طرح دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر ممکن نہیں اسی طرح کسی سیاسی و آئینی سسٹم میں رہتے ہوئے عدلیہ سے بیر خواہشِ مرگ کے برابر ہے۔
اگر کسی ناقص فیصلے کی ذمہ دار عدلیہ ہے تو اس کی درستی یا نظرِ ثانی کا اختیار بھی عدلیہ ہی کے پاس ہے۔ لہٰذا عدالت سے باہر چیخنے چلانے سے کچھ لوگوں سے کچھ دیر کی توجہ تو مل سکتی ہے مگر مداوا نہیں ہو سکتا۔
میاں صاحب کی جانب سے جی ٹی روڈ مارچ اور اس دوران فیصلہ ساز ججوں کی ’عزت افزائی‘ کے بعد اسی عدالت میں نظرِ ثانی کی درخواستوں کا پیش کیا جانا ایک اچھا شگون ہے۔ مگر یہ کام تو جی ٹی روڈ پر آئے بغیر براستہ شاہراہِ دستور بھی ہو سکتا تھا۔ یہ وہ والی عدلیہ تو نہیں جو سیاسی قوت کے مظاہرے سے مرعوب ہوتی رہی ہے۔ یہ تو وہ نئی عدلیہ ہے جسے دلیل اور اصول کی سربلندی کے لیے بحال کرانے میں خود میاں صاحب کی کوششوں کا بھی دخل رہا ہے۔
شاید میاں صاحب کو کسی نے کبھی یہ قصہ بھی سنایا ہو کہ ایک صاحب نے اپنے بچے کو مدرسے میں داخل کروایا۔ چند دن بعد بچے نے والد سے شکایت کی کہ ایک استاد نے اسے کمرے میں بلا کے عجیب انداز میں ڈرانے کی کوشش کی لہٰذا اب وہ کبھی پڑھنے نہیں جائے گا۔ والد سیخ پا ہو کر پرنسپل کے پاس پہنچا اور سارا ماجرا سنانے کے بعد کہا کہ اب میں ہرگز اپنے بچے کو یہاں بھیجنے کو تیار نہیں، اسے میں کسی اور مدرسے میں داخل کرا دوں گا۔ پرنسپل نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ بے شک بچے کو کہیں اور داخل کروا دیں مگر نصاب ہر جگہ ایک ہی ہے۔
زور اس پر ہے کہ 70 سال میں کوئی وزیرِ اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکا اور اسے کسی نہ کسی سازش کا شکار ہونا پڑا۔ ایسے کب تک چلے گا، اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ لاکھوں ووٹوں سے منتخب ہونے والا وزیرِ اعظم کوئی بھی جنرل یا جج کیسے بیک بینی دو گوش نکال سکتا ہے یا قلم زد کر سکتا ہے؟
یہ نوبت نہیں آنی چاہیے لیکن جب یہ بات آپ کو تب یاد آئے جب آپ پر مصیبت آئے تو پھر کوئی کیوں آپ کے ساتھ اور کتنی دور چلے گا۔
کیا آپ نے 1988 سے 2012 تک سوائے اپنے کسی اور وزیرِ اعظم کی معزولی کی مخالفت کی؟ اس کے لیے بھی اسی طرح سڑک پر نکلے؟ رسمی ہی سہی مگر اظہارِ یکجہتی کیا یا پھر خالی جگہ خوشی خوشی پُر کی؟
ضروری تو نہیں کہ وزیرِاعظم کا بدل جانا جمہوریت کا لپٹ جانا ہو۔ اہمیت نظام کی ہے کہ فرد کی؟ اس اعتبار سے تو اٹلی دنیا کی سب سے بدقسمت جمہوریت ہے جہاں پچھلے 70 برس میں 28 منتخب وزرائے اعظم میں سے ایک بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکا۔ کچھ کرپشن کا شکار ہوئے، کچھ جوڑ توڑ میں مارے گئے اور کچھ کے جرائم پیشہ گروہوں سے رابطے ثابت ہو گئے۔ کیا وہ کروڑوں ووٹوں سے منتخب نہیں ہوئے تھے؟ کیا اٹلی کا شمار آج بھی سات ترقی یافتہ ممالک میں نہیں ہوتا؟
جاپان میں دوسری عالمی جنگ کے بعد پچھلے 69 برس میں 31 وزرائے اعظم آئے۔ ان میں موجودہ وزیرِ اعظم شنزو آبے سمیت صرف پانچ ایسے ہیں جو اپنی آئینی مدت مکمل کر پائے۔ تو کیا جاپان میں جمہوریت کا مستقبل ڈانواں ڈول ہے؟ کیا وہ تیسری بڑی عالمی صنعتی طاقت سے پھسل کر دسویں نمبر پر چلا گیا؟
ایسا وہاں کیوں کر ممکن ہوا؟ کیونکہ شخصیات مضبوط ہوں نہ ہوں ادارے مضبوط ہیں۔ اور جہاں ادارے مضبوط ہوں وہاں اگر ہر ماہ بھی حکومت بدل جائے تب بھی کاروبارِ ریاست رواں رہتا ہے۔
1947 سے 58 تک کے 11 برس کے دوران سات وزرائے اعظم کن حالات میں کیسے تبدیل ہوئے؟
جھرلو، ون یونٹ، رپبلکن پارٹی، نوکر شاہی کی بیساکھی، حاضر سروس آرمی چیف کو وزیرِ دفاع کا قلمدان تھمانا، مشرقی پاکستان کی اکثریت کو خاطر میں نہ لانا، اپنے سے چھوٹے صوبوں کو نوآبادی سمجھنا، صنعتِ غدار سازی کا فروغ، امریکہ سے معاشقہ، خفیہ سمجھوتے۔
کیا اس سب میں بس فوج، عدلیہ اور نوکر شاہی ہی شامل تھے؟ نوکر شاہی اور بیوروکریسی کو اقتدار کا خون کس نے سنگھایا؟ کون کون اسلام پسند یا غیر اسلام پسند چیخا کہ یہ مت کرو کل یہی ہمیں باربرداری کا جانور نہ بنا لیں؟ اس دور کا کوئی ایک وزیرِ اعظم جس کا عہدہ صرف اس اصول پر قربان ہوا ہو کہ وہ ادارہ سازی کرنا چاہتا تھا یا پارلیمنٹ کی بالادستی کا دل سے قائل تھا؟
دو مسلسل فوجی ادوار کے بعد بھٹو صاحب کو اور تیسرے آمر کے بعد آپ کو بھی موقع ملا تھا کہ ادارہ سازی پر توجہ دے سکیں اور پارلیمنٹ کو بھی دیگر اداروں کے برابر بااختیار اور بالغ بنانے کی کوشش کریں۔ مگر آپ دونوں ہی اپنی عوامی مقبولیت کو کام میں لاتے ہوئے یہ کام نہ کر سکے اور خود کو طاقتور مگر پارلیمان کمزور رکھنے کی خواہش بالاخر سببِ زوال اور گلے کا رسہ ہو گئی۔
یا تو آپ میں اتنی طاقت ہو کہ سامنے کی دیوار ہی گرا دیں اور پھر اپنی مرضی کی دیوار تعمیر کریں بصورتِ دیگر جو بھی دیوار سامنے ہو اسے صبر اور تدبر کے ساتھ پھلانگنے کی تدبیر سوچیے۔ ٹکر مارنے سے دیوار کا آخر کتنا نقصان ہوگا؟ مگر یہ بات سمجھنا بھی کس قدر مشکل ہے۔ کسی اور سے نہیں تو اپنے آئیڈیل رجب طیب اردوغان سے ہی پوچھ لیں کہ انھیں یہاں تک پہنچنے میں کتنا وقت لگا؟
بشکریہ بی بی سی اردو