صادق رضا مصباحی ، ممبئی
آج ہم میں سے ہرانسان بڑا آدمی بننا چاہتا ہے اوربڑا آدمی بننے تک اسے کن کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اورکیسے کیسے جتن کرنے پڑتے ہیں یہ تووہی بتاسکتے ہیں جنہیں آج بڑا سمجھا جاتا ہے مگرواقعہ یہ ہے کہ آج ہرآدمی پربڑے بننے کی جتنی دُھن سوارہے، اگراس میں سے نصف فیصد بھی اچھاآدمی بننے کی دُھن سوارہوتی توآج ہمارامعاشرہ بیمارنہ کہلاتا اور معاشرے کا امن وامان غارت نہ ہوتا۔یہاں پربس ایک ہی بات کہی جاسکتی ہے کہ اچھاآدمی بننے کا سودا انہی خوش نصیبوں کے سروں میں سمایا ہوتا ہے جنہیں بارگاہِ الٰہی سے خاص توفیق ارزاں ہوتی ہے۔ ہمارے دین ہمیں اصولاًاچھاآدمی بنانا چاہتا ہے، بڑا آدمی نہیں کیوں کہ دنیا کے لیے مطلوب انسان اچھا آدمی ہے، بڑا نہیں۔
اچھے آدمی کی فطرت جوکام اس سے کروا سکتی ہے وہ بڑے آدمی سے نہیں کرواسکتی ۔ اس ضمن میں یہ مت بھولیے کہ اچھاآدمی ہی صحیح معنوں میں بڑاآدمی ہوتا ہے اورجواچھاآدمی نہیں بن سکتاوہ کبھی بھی بڑا نہیں بن سکتا۔ عام طورپردیکھنے میں آتاہے کہ آدمی توبہت بڑا ہے مگراس کااندرون بہت چھوٹاہے بلکہ بونا ہے۔ آنکھ اگربیناہو تواِدھراُدھردیکھیے ، آپ کوبہت سے بڑے بڑے آدمی نظرآئیں گے مگران میں اتر تھوڑی دیرقیام کرکے دیکھ لیجیے توان سے آپ کوگھن آنے لگے گی ۔
ہم میں سے نہ جانے کتنے ہیں کہ جن کی ذات پرشخصیت کاخول چڑھاہواہے مگرجس وقت یہ خول اترتاہے تومنظرنامہ بڑاکریہ نظرآتاہے اورماحول ایساتعفن زدہ ہو جاتاہے کہ ناک پرکپڑارکھتے ہی بنتی ہے اورانسان راہ فرارتلاش کرتانظرآتاہے۔
عقلا کہتے ہیں کہ انسان کی اصل شخصیت وہ نہیں ہے جوعوام میں ہوتی ہے اور جو مجلسوں اوردوستوں میں ہوتی ہے بلکہ انسان کی اصل شخصیت وہ ہے جب وہ تنہائی کے عالم میں ہوتی ہے یعنی انسان کی شخصیت باطن سے سنورتی ہے ، باطن سے نکھرتی ہے اورباطن سے بام عروج پر پہنچتی ہے اورایسے ہی شخصیات کی محبت اورمقبولیت اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔
اس سے ایک نکتہ سمجھ میں آیاکہ اچھاآدمی دلوں کے تخت پربیٹھ کرراج کرتاہے اوربڑا آدمی صرف زبانوں پر سفر کرتا رہتاہے اوریوں ایک دن تاریخ کے قبرستان میں ہمیشہ کے لیے دفن ہوجاتا ہے اورایسا دفن ہوتاہے کہ پھرکوئی زبان اس کے ذکر سے تر نہیں ہوتی اورنہ ہی کوئی آنکھ نم۔
ہم نے بہت سے بڑے ایسے بھی دیکھے ہیں کہ جنہیں اچھاسمجھاجاتاتھا لیکن جب ان کی شخصیت سے پردہ سرکاتوسارایقین ، اعتماد، محبت، اورعقیدت ایک دم سے متزلزل ہوگئی اورایسے لوگوں کے نام سے ہی ہمارے مزاج کاجغرافیہ بگڑنے لگا۔ ایک بات ہمیشہ پلو سے باندھ لیناچاہیے کہ ہم بظاہرکتنے ہی اچھے ہوں ، لوگوں میں ہمارے نام کا غلغلہ بلند ہورہا ہو، ہمارے نظریات کا طوطی بولتا ہو اور ہم شہرت وعظمت کاجھولاجھول رہے ہوں لیکن اگر ہمارا باطن ہمارے ظاہرکے مطابق نہیں ہے اورہماراحال ہمارے قال کی تائید نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ ایک دن ہماری اصل شناخت لوگوں کوبتا دیتا ہےاور حالات کچھ ایسی سمت اختیارکر لیتے ہیں کہ سات پردوں کے اندر بھی چھپی ہوئی ہماری برائی یعنی ہماری اصل شخصیت سامنے آجاتی ہےاوریوں ہماری عزت ،ذلت میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔
ایک حدیث نبوی میں بھی یہ بات کہی گئی ہے، فی الوقت مجھے اس کااصل متن تویادنہیں البتہ اس کا مفہوم یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مرنے سے قبل انسان کا باطن آشکارکر دیتا ہےاورلوگو ںپراس کی اصل حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے ۔حدتواس وقت ہوجاتی ہے کہ جب اس کی شخصیت کے غلیظ اور بدبودار پہلوؤں کو کوئی من چلا اور دِل جلا تحریری شکل میں سامنے لے آتاہے اوربڑے انسان کی شخصیت کاحلیہ ہی بدل کررکھ دیتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم بڑا آدمی بننے کے بجائے اچھاآدمی بننے کی کوشش کریں اورجب ہم اچھے بن جائیں گے توخود بخوداللہ تعالیٰ ہمیں بڑابنادے گااورہمیں بڑا بننے کے لیے سوسوجتن کرنے ، منافقت کرنے ، باطن کو چھپانے اورتکلف کے ساتھ زندگی گزارنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یادرکھیے ، بڑا آدمی عموماًتکلف کے ساتھ جیتاہے جب کہ اچھاآدمی فطری زندگی کے مزے لیتاہے۔ آئیے ایک باراپنے اندرچھپے بیٹھے انسان سے پوچھ لیں کہ ہمیں فطری زندگی پسندہے یا غیر فطری زندگی یعنی ہم اچھا آدمی بننا چاہتے ہیں یا بڑا۔